عزیزان گرامی قدر! اﷲ رب العزت نے انسان کو تخلیق فرمایا
او ر انبیا ء علیھم السلام کی رشدو ہدایت کیلئے اپنی کتابیں صحائف اور حکمت
عطا فرما کر معبوث فرمایا تاکہ انسان انسانیت کے اصولوں سے روشناس ہوسکے ۔اورباہمی
نفرتوں عداوتوں جیسی معاشرتی خرابیوں سے محفوظ رہ سکے۔قرآن کریم ایک مکمل
ضابطہ حیات ہمیں عطا فرمایا اور اپنے محبوب کریم ﷺ کو اس پر عمل کرنے کیلئے
ہمارے پاس کامل و اکمل نمونہ حیات بنا کر بھیج دیا اور ایک بڑا واشگاف
اعلان فرمادیا۔
ترجمہ :اے لوگوں تحقیق تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے ایک دلیل کامل آگئی
اور قرآن کریم نازل فرمایا گیا(القرآن )
چنانچہ ایک طرف قرآن کریم ہم پر اسلام کی فطری و نظریاتی احساس اور معیارات
کو آشکار کرتا ہے اور دوسری طرف سنت نبوی ﷺ اس حیات بخش نظریے کو عملی
زندگی میں جاری و ساری کرنے کیلئے ایک معیار اور نمونہ حیات عطاکرتی ہے ۔
نبی مکرم ﷺ نے اپنے اصحاب کی تربیت فرمائی انہیں بلندو بالا مقام پر فائز
فرمایا چونکہ سلسلہ نبوت ذات مصطفے ﷺ پر ختم ہوگیا مگر اُمت کی رشدوہدایت
کا سلسلہ بند نہیں ہوا یہ ذمہ داری اُمت کے نہایت مخلص باعمل و زاہد افراد
جن کا چناؤ خود رب کریم نے فرمایا اور یہ باکمال اعلیٰ صفات کے حامل حرف
عام میں صوفی کہلواتیں ہیں یہ صوفیاء قرآن و سنت سے منشاء صاحب قرآن کے
مطابق عوام الناس کی اصلاح کرتے ہیں اور وہ علم جو خلوص سے بھر پور ہوتا ہے
جس سے یہ لوگ عوام الناس کی تربیت کرتے ہیں ۔اس علم کو علم تصوف کہا گیا ہے
۔تصوف قرآن و سنت پر مبنی تزکیہ نفس اور قلب و باطن کی صفا ئی کا نام ہے ۔یہ
عہد رسالت ﷺ سے ہی رائج تھا اُس درسگاہ کا نام صُفہ رکھا گیا اصحاب صُفہ
بڑے مقرب تھے ہر وقت اپنی اصلاح کی فکر میں رہتے یہیں سے تصوف اور صوفی کا
آغا زہوا اور ایسے ہی لوگوں کے سُپر د اُمت کی رشدوہدایت کا کام کیا
گیاتاکہ یہ علم کو عملی جامع پہنا کر باعمل زندگی کا نمونہ پیش کرئیں۔اب اس
علم کا نام تصوف کیوں رکھا گیا ۔اس کی وضاحت شیخ المشائخ سیدنا شیخ
عبدالقادر جیلانی الحسنی و الحُسینی رضی اﷲ عنہ ُ کچھ اس طرح فرماتے ہیں۔
فرمایا اس لفظ تصوف کے چار حروف ہیں ۔
پہلا حرف (ت) سے مراد تزکیہ نفس اور توبہ ہے ۔جب انسان کو اپنا محاسبہ کرنے
کا خیال آجائے اور محاسبہ کرتے کرتے اُس کو فکر آخرت دامن گیر ہوجاتی ہے
پھر انسان کو توبہ کی توفیق مل جاتی ہے۔یہ توبہ د و طرح کی ظاہری توبہ اور
باطنی توبہ ۔
باطنی توبہ
باطنی توبہ یہ ہے کہ انسا ن دل کو وساوس اور آلائش سے پاک رکھے
حسد،بغض،کینہ،ریاء اور تکبر کے خطرات کو دل پر نہ گزرنے دیے اور شریعت
مطہرہ کے مطابق اعمال صالح کی طرف رجو ع کرے ۔جس سے برائیاں نیکیوں میں
تبدیل ہوجاتی ہیں جیسا کہ قرآن میں وضاحت موجود ہے۔
ترجمہ :جس نے توبہ کرلی پھر اﷲ تبارک تعالی اُس کی برائیوں کو نیکیوں میں
تبدیل کردیتا ہے(القرآن )
اس سے (ت ) کا مفہوم واضح ہوجاتا ہے ۔
لفظ تصوف کا دوسرا حرف ہے (ص)
اس سے مراد صفائے قلب اس کی بھی دو قسمیں ہیں۔
دل کی صفائی ،مقام سر کی صفائی ۔
دل کی صفائی یہ ہے کہ دل بشری قدورتوں اور آلائشوں سے پاک ہوجائے بکثرت
کھانے پینے ،زیادہ سونے اور گفتگو کرنے کی خواہشات دنیاوی رغبتیں ،اہل و
عیال سے حد سے زیادہ محبت ان عادات قبیحہ سے دل کو پاک اور صاف رکھا جائیں
جس کا طریقہ مرشد کامل کی یقینی تلقین کے مطابق ذلر الہی میں کثرت بالجہر
ہے ۔جب عظمت الہٰی دل میں گھر کر جائیں تو غفلت دور ہوجاتی ہے اور دل ایک
آئینہ کی طرح شفاف ہوجاتاہے اور خیروشر الگ الگ دل کو نظر آنے لگتے ہیں۔
عالم خیروشر کی خوبیاں اور خامیاں وضع کرکے عمل کی تلقین کرتا ہے اور صوفی
اپنے علم و عمل سے دل کے زنگ کو دور کرتا ہے ۔
2۔ مقام سر کی صفائی اﷲ تبارک تعالی کے سوا ہر چیز سے منقطع ہوجانااﷲ کی
محبت اسماء توحید کا زبان سر سے دائمی ذکر کرنے سے حاصل ہوتی ہے پس جب
انسان اس صفت کا حامل ہوجائیں تو پھر تقاضہ (ص) پورا ہوجاتا ہے۔
لفظ تصوف کا تیسرا حرف ہے (و)۔
اس سے مراد ولائت ہے جس کے بارے میں ارشاد ربانی ہے ۔
ترجمہ:خبردار بے شک اﷲ کے ولیوں کو نا کوئی خوف ہے نہ ہی کوئی غم ان کے لئے
دنیا کی زندگی میں خوشخبری ہے (القرآن)
تزکیہ نفس توبہ اور صفائے قلب و باطن کے بعد یہ عظیم مرتبہ ولائت حاصل ہو
تا ہے ۔درجہ ولائت اخلاق حمیدہ اور صفات الہیہ سے متصف ہے اور اﷲ کا ولی
اعلیٰ اخلا ق سے ہی لوگوں کو رشدوہدایت کی باتیں سُنا کر دین کی خدمت کا
سلسلہ بجا لاتا ہے ۔اور ہمہ وقت اپنے رب کی یاد میں مگن رہتا ہے ۔یہاں تک
کہ اپنے نفس کو اﷲ کی یاد میں فنا کردیتا ہے ۔اب لفظ تصوف کا آخری حرف (ف )
ہے ۔
جس سے مراد فنا فی اﷲ ہے ۔
اﷲ کا ولی اﷲ کے ذکر کی کثرت سے اپنی تمام نفسانی خواہشات کو ختم کرکے خود
کو اﷲ کے ذکر میں گُم کردیتا ہے یعنی اپنے آپ کو ذکر الہٰی میں مٹادیتا ہے
۔مگر رب کریم اپنے ولی کو اپنی صفت الباقی سے بقا ء عطا فرمادیتا ہے یہی
وجہ ہے کہ صدیاں بیت جانے کے بعد بھی اُن کا نام زندہ رہتا ہے ۔اور اُن کے
اخلاق حمیدہ اور اعلیٰ کردارو اخلاق کا تذکرہ ہمیشہ جاری رہتا ہے لوگ اُن
کی محبت میں اُن کے مزار پر حاضری کیلئے کشاں کشاں دورونزدیگ سے آکر اپنی
روحانی تسکین پاتے ہیں اور اُن کے مزارات پر آج بھی ذکر الہٰی کی صدائیں
گونجتی ہیں ۔یہ ظاہر کرتا ہے کہ بندہ کو تو جسمانی لحا ظ سے ختم ہوجاتا ہے
مگر روحانی لحا ظ سے اُن کی محبت لوگوں کے دلوں میں قائم و دائم رہتی ہے ۔
تصوف کے چار حروف کی قدرے وضاحت کا مقصد یہ ہے کہ تصوف کی بنیاد ہی محبت ہے
۔آج اگر انسانیت پریشان حال ہے دہشت گردی ہر طرف لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم
معاشرے میں ابتری حالات فقط اس لئے ہے کہ لوگ صوفیاء اور تصوف سے دور ہیں
اگر علم تصوف کو عام کیا جائیں تو ادب کو فروغ ملے گا ۔با ادب کبھی گُستاخ
نہیں ہوسکتا اس کے دل و دماغ میں مقامات مقدسہ اور انسانی تقدس موجزن رہے
گا۔یہ کبھی اُن کو پامال نہیں کرسکیں گا یہ ساری خرابیاں فقط بے ادبی اور
گُستاخانہ لب و لہجہ سے ملتی ہیں ۔ہمیں علم تصوف ادب سکھلاتا ہے محبت کا
درس دیتا ہے باہمی منافرت و کو دور کرکے شیر و شکر ہونے کی دعوت فکر دیتا
ہے ۔
اِن صوفیاء نے اپنی صوفیانہ تعلیم و تربیت سے لاکھوں لوگوں کو حلقہ بگوش
اسلام کیا انہوں نے تلوار نہیں اُٹھائی بندوق کی نالی سے انسان کا خون نہیں
بہایااس خطہ پاک و ہند میں داتا علی ہجویری ،بہاوالدین ذکریا ملتانی ،خواجہ
معین الدین چشتی اجمیری ،مجدد الف ثانی ،پیر مہر علی شاہ گولڑوی ،پیر سید
جماعت علی شاہ صاحب اور سید جعفر علی شاہ الگیلانی القادری اور دیگر تمام
اولیاء اکرام نے ہی فروغ اسلام کیا ہے ۔دعوت دین کا کام اعلیٰ اخلاق اور
عملی حُسن کردار سے کیا ہے اور سینکڑوں سال گزر جانے کے بعد بھی جب ان
ہستیوں کا نام سامنے آتا ہے اور دل و نگاہ ادب سے جُھک جاتے ہیں۔ ان ہستیوں
میں قدوۃ العارفین زبدۃ السالکین حضرت پیر سید جعفر علی شاہ ولی قادریؒ کی
ذات گرامی مشعل راہ طریقت بن کر ہمیشہ بیامن ہستی پر اپنی تابانیاں برساتی
رہے گی۔آپؒ حضور غوث الاعظمؒ کی اولاد میں سے ہیں اور بچپن کے دور سے ہی
خاموش طبع اور شریف انسان تھے اس لئے ہمیشہ عجز و انکساری اپنائی جس کی وجہ
سے کم عمر ی میں ہی تمام مسائل شریعت و طریقت اور علوم منطق و فلسفہ کی
روشنی سے آپکی چشم باطن منور تھی۔آپ اس قدر حسین و جمیل تھے کہ جو بھی آپ
کا دیدار کرتا پھر آپ ہی کا ہوکر رہ جاتا۔دین کی تبلیغ و اشاعت کے سلسلہ
میں جب آپ نارووال کوٹلی باجوہ میں تشریف لائے تو یہ علاقہ غیر مسلموں کا
گھڑ تھا اور بت پرستی عام تھی۔ہر طرف جہالت و گمراہی کے سیاہ بادل چھائے
ہوئے تھے اور نفسانفسی کا عالم تھا ۔مگر جب اﷲ کے ولی نے یہاں قدم رکھا اور
لوگوں کو اسلام کی روشن تعلیمات سے روشناس کروایاتو ہزاروں غیر مسلم اسلام
کی حقانیت اور سربلندی کی وجہ سے مشرف بہ اسلام ہوئیآپؒ نے اپنے حسن و
کرداراور عمل و گفتار سے اس خطہ میں دین اسلام کے پرچم کو سربلند کیا اور
ایک جہاں کو علم و حکمت سے منور فرمایا۔آپ کا وصال ہوئے بھی ابھی
تقریباًساڑھے تین سوسال گزرچکے ہیں پر آپ کے مزار پرانوار پر آج بھی حاضری
دے کر دلوں کو چین و سکون ملتا ہے۔آپؒ کے خاندان میں نیک و کار بزرگوں کا
ایک طویل تسلسل چلا آرہا ہے اور آپ کے خاندان کے بزرگوں نے پیری مریدی کو
پیشہ نہیں بنایابلکہ ہر دور میں اپنی جیب سے غریب و یتیم لوگوں کی ہمیشہ
مدد کی۔آپ کے موجودہ گدی نشین صاحبزادہ پیر سید سیف اﷲ خالد گیلانی القادری
اب آپ ؒ کے مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔آپ کسی تعارف کے محتاج نہیں دکھی
انسانیت کی خدمت آپ کا مشغلہ ہیں آپ کافی عرصہ بیرون ممالک میں اپنا
کاروبار کرتے رہے اور وہاں سے کمایا ہوا پیسہ یہاں آکر لوگوں کی ویلفیئر پر
استعمال کرتے ۔آپ نے آستانہ عالیہ کوٹلی پلاٹ نارووال میں ایک مدرسہ بنایا
ہوا ہے جہاں بچوں کو مفت دینی و دنیاوی تعلیم دی جاتی ہے اور فری رہائش و
طعام کا بھی اہتمام ہے۔دین متین کی سربلندی اور تبلیغ وا شاعت میں آپ پیش
پیش ہیں ،پاکستان مشائخ وعلماء کونسل کے بطور چیئرمین آپ دن رات تبلیغی مشن
میں مصروف ہیں اور اسی پلیٹ فارم سے آپ فری میڈیکل کیمپ اور غریب و یتیم
افراد میں مفت راشن کی تقسیم کا فریضہ بھی سرانجام دے رہے ہیں۔آپ کی قیادت
میں بہت ہی مختصر وقت میں پاکستان مشائخ وعلماء کونسل کو ہرمیدان میں
کامیابی و کامرانی مل رہی ہے ۔آپ کی زیرصدارت ہر سال حضرت پیر سید جعفر علی
شاہ ولی القادری ؒ کے مزار پر دو روزہ عُرس مبارک بڑے تزک و احتشام سے
منایا جاتا ہے جو کہ امسال 25,24مار چ بروز جمعہ ،ہفتہ کو دربارہ غوثیہ
قادریہ کوٹلی باجوہ غوثیہ روڈ نارووال میں نہایت تزک و احتشام کے ساتھ
منایا جائے گا۔دوروزہ عرس مبارک کی اختتامی نشست25مارچ بعد نماز ظہر و عشاء
منعقد ہوگی جس میں سجادہ نشین چورہ شریف اٹک پیر سید سعادت علی شاہ گیلانی
،علامہ مفتی ظفر الدین سیالوی ،علامہ پیر قاضی محمد یعقوب رضوی ،علامہ محمد
وقاص منور مجددی ،علامہ طاہر تبسم قادری ،محمد انس خاں جماعتی ،مبشر حسن
بھٹی ،علی حسن قادری ،محمد طاہر اشرف مانگوی و دیگر خطاب و ہدیہ نعت پیش
کرئینگے جبکہ سجادہ نشین علی پورسیداں شریف پیر محفوظ الحسنین شاہ شیرازی
،سجادہ نشین حضرت میراں حسین شاہ زنجانی پیر سید محمد افضال حسین زنجانی
،سجادہ نشین توحید آباد شریف پیر سید فرخ شاہ کوہاٹی ،سجادہ نشین ڈونگیاں
شریف پیر سید احمد رضا شاہ بخاری ،سجادہ نشین چنوں موم سیالکوٹ پیر سید فدا
حسین شاہ زنجانی القادری ،سجادہ نشین ڈیرہ شاہ کونین نارووال خواجہ محمد
معصوم انور مجددی ،مرکزی وائس چیئرمین پاکستان مشائخ وعلماء کونسل پیر حافظ
محمد اشرف نقشبندی ،جنرل سیکرٹری ایس اے حکیم القادری ،ترجمان ملک مظہر
حسین اعوان و دیگر مہمانان خصوصی ہونگے۔دوروزہ عرس تقریبات میں ملک بھر کے
علاوہ بیرون ممالک سے بھی مریدین و زائرین کی کثیر تعداد شرکت کرئے گی۔
|