پولیس نے شادی کی تقریب پر چھاپہ مارا، دلہا، شہ
بالا اور ایک درجن باراتی گرفتار کر لئے، گرفتاری کی وجہ وہ خواتین بنیں جو
وہاں رقص میں مصروف تھیں، وہ بھی گرفتار ہوئیں۔ بتایا گیا فحش گانوں پر رقص
ہو رہا تھا، اطلاع پولیس کو دی گئی، قانون حرکت میں آیا، قانون شکنی کرنے
والوں کو تھانے کی ہوا کھانا پڑی۔ دلہا اور دلہن کے گھر والوں پر اس دوران
کیا بیتی، یار لوگوں نے کیا تبصرے کئے، گرفتار شدگان کو کیسے رہائی ملی،
آیا پولیس سے معاملات ہو گئے، یا پھر نوبت عدالتوں یعنی ضمانتوں تک پہنچی؟
ان تمام معاملات کا ذکر خبر میں نہیں ملتا۔ ملتان سے ایک اور خبر آئی ہے،
کہ ایک امیر تاجر نے اپنی شادی کے کارڈ جہاز کے ذریعے شہر پر گرائے، شہر
میں شادی کی دھوم مچ گئی، بارات میں دلہا نے گلے میں لاکھوں روپے مالیت کا
سونے کا ہار پہنا ، بارات آٹھ لیموزین گاڑیوں پر شادی ہال پہنچی، دیکھنے کے
لئے خلقت شادی ہال کے باہر جمع ہوگئی۔ تاہم خبر میں کھانے میں دی جانے والی
ڈشوں کا ذکر نہیں ملتا، اور نہ ہی جہیز کی کوئی اطلاع موجود ہے۔ چند روز
قبل بھی ملتان میں ایک ایسی ہی شادی ہوئی تھی، جس میں دلہا شیر کے جنگلے پر
بیٹھ کر دلہن لینے گیا تھا، اس کے گلے میں بھی سونے کا ہار تھا، جہیز میں
بھی پر تعیش اشیاء کی انتہا کر دی گئی تھی۔
ان دونوں خبروں کا اگرچہ آپس میں کوئی تعلق نہیں بنتا، شادی میں مجرا ہونا
الگ بات ہے اور دلہا کا بارات میں خرچ کرنا الگ کہانی، تاہم ایک بات مشترک
ہے، وہ ہے بے پناہ دولت کی ریل پیل اور دکھاوا۔ جن لوگوں کے پاس پیسہ بے
انتہا ہے، بہت سوں کو پیسے کا درست حساب بھی نہیں، اور یہ بھی اندازہ نہیں
لگایا جاتا کہ وہ کہاں خرچ کریں۔ پھر ستم یہ بھی کہ ایسے لوگوں کے بارے میں
یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ آیا یہ ٹیکس دیتے بھی ہیں یا نہیں، یا ٹیکس نیٹ
ورک میں ہوتے ہوئے کیا کچھ دیتے بھی ہیں، یا صرف کاغذی کارروائی پوری کر کے
محکمہ کی آنکھوں میں دھول جھونک دیتے ہیں، یا محکمہ سے ملی بھگت کے ذریعے
ٹیکس بچا لیتے ہیں، مگر قوم کی آنکھوں میں دھول جھونک کر سر خرو ہو جاتے
ہیں۔ انکم ٹیکس وغیرہ جیسے محکمے کے لئے یہ آسان ٹارگٹ ہوتا ہے، کہ وہ کسی
بھی سرمایہ دار یا کروڑوں خرچ کرنے والوں سے پوچھ سکتے ہیں کہ جناب یہ
سرمایہ کہاں سے،کیسے اور کب آیا؟ ہوتا یہ ہے کہ سوال اٹھتے ہیں، مگر انہیں
لفافے کی وزن سے دبا دیا جاتا ہے۔
دوسری طرف یہی دو کام وہ ہیں جو سرکاری سرپرستی میں ہوتے ہیں، کسی کلچر
ایونٹ کے نام پر اس کی اجازت ضلع کے بڑے صاحب بہادر دیتے ہیں، کسی بڑے ہال
وغیرہ میں پروگرام منعقد ہوتا ہے، اگر مہمانانِ گرامی میں کسی بڑی شخصیت کی
شرکت بھی ہو تو گیٹ پر پولیس کی نفری بھی بغرض حفاظت موجود ہوتی ہے۔ صرف
رقص ہی نہیں، مخلوط رقص بھی ہو تا ہے، یہاں چھاپہ کس نے مارنا ہے کہ چھاپہ
مارنے والے تو خود اس پروگرام کی حفاظت پر مامور ہوتے ہیں۔ بہت سے پروگرام
ایسے ہی ہوتے ہیں، جنہیں اشرافیہ اور مقامی انتظامیہ کے لوگ اپنے اہل خانہ
کے ہمراہ نہایت خشوع وخضوع کے ساتھ دیکھتے، تالیاں پیٹتے اور فنکاری کو
سراہتے ہیں۔ انہیں پروٹوکول بھی ملتا ہے، سہولتیں بھی۔ اسی طرح اپنے حکمران
جب ایک شہر سے کسی دوسرے شہر میں جاتے ہیں، تو ان کی آمد سے قبل شہر کی
صورت سنواری جاتی ہے، سڑکیں مرمت ہوتی ہیں، راستے ہموار کئے جاتے ہیں، رنگ
وروغن کا کام کیا جاتا ہے، صفائی ستھرائی کا خیال رکھا جاتا ہے، تجاوزات
ہٹا دی جاتی ہیں، دفاتر کا ریکارڈ درست کرلیا جاتا ہے، حاضری پوری کر لی
جاتی ہے، ڈویژن بھر کی انتظامیہ اور پولیس وہاں جمع ہوتی ہے، گزر گاہوں کو
بلاک کر دیا جاتا ہے، اطراف میں ٹریفک جام ہو جاتی ہے، خصوصی طیاروں کے
ذریعے ’صاحب‘ وہاں پہنچتے اور اداروں کے’ اچانک دورے ‘فرماتے ہیں، ایک دورہ
قومی خزانے کو لاکھوں کا پڑتا ہے۔ بلا شبہ اپنی ذاتی جیب سے کروڑوں روپے
خرچ کر کے دولت کی نمودونمائش کرنے والے بھی غریب قوم کے ساتھ زیادتی کرتے
ہیں، ان کے سینے پر مونگ دلتے ہیں، ان کاخون جلانے کا اہتمام کرتے ہیں۔ مگر
یہی کام جب قومی خزانے سے کیا جائے تو بھی قانون کو حرکت میں آنا چاہیے۔
کلچر کے نام پر سرکاری مجرا جائز ہے، شادی میں دیسی مجرا قانون شکنی؟
شادیوں میں ڈشیں اور اخراجات ناجائز ہیں اور سرکاری تقریبات میں ان گنت
ڈشیں جائز؟
|