پاکستان کے بارہ اضلاع جہاں غیرت کے نام پر قتل و غارت ریکارڈ پر نظر آئی

پاکستان کے بارہ اضلاعجہاں غیرت کے نام پر قتل و غارت ریکارڈ پر نظر آئی

پاکستان کے بارہ اضلاع جہاں غیرت کے نام پر قتل و غارت ریکارڈ پر نظر آئی ان میں فیصل آباد ، لاہور ، جیکب آباد ، لاڑکانہ ، کشمور ، نصیر آباد ، رحیم یار خان ، شکارپور ، گھوٹکی ، سکھر ، پشاور ، سوات شامل ہیں

پاکستان کی معروف غیر سرکاری تنظیم کی تحقیق کے مطابق سنہ 2015 میں پاکستان میں 1096 خواتین کو نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کیا گیا جبکہ 2014 میں غیرت کے نام پر قتل کی جانے والی خواتین کی تعداد 1005 تھی۔ اس سے ایک سال پہلے یعنی 2013 میں قتل ہونے والی خواتین کی تعداد 869 تھی۔فیصل آبادمرکزی پنجاب کا یہ ضلع کپڑے کی صنعت کے لیے مشہور ہے۔اس ضلعے میں نام نہاد غیرت کے نام پر خواتین کو قتل کرنے کا رجحان ملک کے باقی اضلاع کی نسبت زیادہ ہےاور یہاں سنہ 2008 سے 2014 کے درمیان 200 ایسے واقعات پیش آئے۔دستیاب اعداد و شمار کے مطابق 2014 میں فیصل آباد میں نام نہاد غیرت کے نام پر پورے ملک میں سب سے زیادہ یعنی 45 قتل ہوئے۔اس سے ایک سال پہلے یعنی 2013 میں یہاں اس قتل کی وارداتوں کی تعداد 28 تھی جو ملک بھر میں دوسرے نمبر پر رہی۔گذشتہ پانچ برسوں کے اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائِے تو فیصل آباد کا ذکر غیرت کے نام قتل کی وارداتوں کی تعداد کے لحاظ سے ہمیشہ ملک کے پہلے پانچ شہروں میں رہا ہے۔

صوبہ پنجاب کا دارالحکومت لاہور نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کی وارداتوں کی تعداد کے لحاظ سے ملک کے چند اہم شہروں میں شامل ہے۔لاہور میں شہر کے علاوہ اردگرد کے مضافاتی دیہات بھی شامل ہیں لیکن خواتین کے خلاف اس جرم کے زیادہ تر واقعات شہری علاقوں ہی سے رپورٹ ہوئے ہیں۔یہاں 2008 سے 2014 کے درمیان نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کے 163 سے زیادہ ایسے واقعات پیش آئے۔2014 میں تو یہ شہر وارداتوں کی تعداد کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر تھا لیکن اس سے ایک سال پہلے لاہور 29 واقعات کے ساتھ اس بدنام فہرست میں سب سے پہلے نمبر پر رہا۔اس سے پہلے کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ لاہور میں ہمیشہ سے ہی ان وارداتوں کا چلن رہا ہے اوریہ ہمیشہ ان دس شہروں میں شامل رہا ہے جن میں ایسی وارداتیں سب سے زیادہ ہوتی ہیں۔جیکب آبادصوبہ سندھ اور بلوچستان کا سرحدی ضلع جیکب آباد بھی ملک کے ان شہروں میں شامل ہے جہاں نام نہاد غیرت کے نام پر عورتوں کو قتل کرنے کی وارداتیں سب سے زیادہ ہوتی ہیں۔ 2008 سے 2014 کے دوران یہاں222 ایسے واقعات پیش آئے۔2014 میں 33 قتال کے ساتھ یہ ضلع ان واقعات کے لحاظ سے ملک کا چوتھا بڑا شہر تھا۔ 2012 میں یہ اس بدنام فہرست میں دوسرے جبکہ 2011 میں تیسرے نمبر پر رہا۔2010 اور 2009 میں ملک بھر میں نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کی سب سے زیادہ وارداتیں جیکب آباد میں ہی رپورٹ کی گئی تھیں اور یہ تعداد بالترتیب 42 اور 36 تھی۔لاڑکانہ جو صوبہ سندھ کا ضلع لاڑکانہ سیاسی لحاظ سے ملک کا اہم ضلع ہے۔نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کی جس قدر وارداتیں اس علاقے میں ہوتی ہیں ان کے پیش نظر انسانی حقوق کے کارکنوں کا یہ شکوہ بے جا نہیں ہے کہ سیاسی شعور کے تناسب سے اس علاقے میں خواتین کے حقوق کا شعور اجاگر کرنے کے اثرات دکھائی نہیں دیتےیہی وجہ ہے کہ لاڑکانہ میں نام نہاد غیرت کے نام پر ہر سال درجنوں خواتین قتل کی جاتی ہیں اور سنہ 2008 سے سنہ 2014 کے درمیان یہ تعداد 158 سے زیادہ تھی۔2014 میں یہ تعداد 27 تھی جس کی وجہ سے لاڑکانہ کا نمبر نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کرنے والے شہروں میں چوتھے نمبر پر رہا۔2013 ایک ایسا سال تھا جب یہاں نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں کمی دیکھی گئی اور یہ تعداد 13 تھی۔2012 کے دوران لاڑکانہ میں ایسی وارداتوں کی تعداد 20 تھی جبکہ 2011 میں یہاں 22 اور 2010 میں 33 خواتین کو نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔کشمور بھی کشمور سندھ کا ایسا ضلع ہے جہاں قبائلی اثرات آج بھی شدت سے پائے جاتے ہیں۔انسانی حقوق کے کارکن اس علاقے میں خواتین کے خلاف جرائم کو انھی روایات سے جوڑنے پر بضد ہیں۔دستیاب اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ کشمور کا ضلع گزشتہ کم از کم چار برسوں سے نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کے لحاظ سے ان پانچ شہروں میں شامل ہے جہاں یہ جرم سب سے زیادہ وقوع پذیر ہوتا ہے۔2014 میں ضلع کشمور میں 25 خواتین قتل کی گئیں۔ 2013 میں یہ تعداد 18 تھی جبکہ اس سے پچھلے سال ان وارداتوں میں نمایاں اضافہ ریکارڈ کیا گیا تھا اور یہ تعداد 31 تھی۔بلوچستان کا ضلع نصیر آباد صوبے کے ان چند اضلاع میں شامل ہے جہاں سے نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کی وارداتیں مسلسل رپورٹ ہوتی ہیں۔صوبہ سندھ کی سرحد کے قریب واقع اس ضلعے میں متعدد پشتون اور سندھی قبائل بھی آباد ہیں۔ یہ بات انسانی حقوق کے کارکنوں کے لیے حیرت کا باعث ہے کہ گزشتہ تین سے چار برسوں کے دوران اس علاقے سے نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کی اتنی زیادہ وارداتیں رپورٹ نہیں ہو رہیں جتنی اس سے پہلے کئی برسوں تک ہوتی رہی ہیں۔مثلاً 2011 میں نصیر آباد میں 39 خواتین کو نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کیا گیا جبکہ 2008 میں یہ تعداد 36 ریکارڈ کی گئی تھی۔رحیم یار خان جنوبی پنجاب کا ضلع ہے جو دریائی، بارانی اور صحرائی زرعی علاقے پر مشتمل ہے۔ یہاں رہنے والوں کی اکثریت کا ذریعہ معاش زراعت ہے اور یہاں خواتین کے کھیتی باڑی میں حصہ لینے کا رواج عام ہے۔اس کے ساتھ ہی نام نہاد غیرت کے نام پر ان کے خلاف جرائم کے واقعات بھی اکثر دیکھنے کو ملتے ہیں۔2014 میں اس ضلعے میں نام نہاد غیرت کے نام پر 20 خواتین قتل کی گئیں جبکہ ایک سال پہلے یہ تعداد 15 تھی۔شکارپور : صوبہ سندھ کا یہ ضلع بلوچستان کی سرحد کے قریب واقع ہے اس لیے یہاں بلوچ قبائل بھی بڑی تعداد میں بستے ہیں۔شکارپور میں نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کی وارداتیں معمول کا حصہ تو نہیں ہیں لیکن دستیاب اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ہر کچھ سال بعد یہاں خواتین کے خلاف اس جرم میں اچانک اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔مثال کے طور پر 2008 اور 2009 میں یہاں سے نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کے زیادہ واقعات رپورٹ نہیں ہوئے لیکن 2010 میں 17 خواتین غیرت کے نام پر قتل کر دی گئیں۔اگلے دو سال پھر اس جرم میں کمی دیکھنے میں آئی لیکن 2013 میں یہاں 24 اور 2014 میں 19 خواتین کے قتل کی رپورٹس سامنے آئیں۔گھوٹکی بھی صوبہ سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے سنگم پر واقع ضلع گھوٹکی میں نام نہاد غیرت کے نام پر خواتین کو قتل کرنے کے واقعات میں گذشتہ کئی سالوں سے مسلسل کمی دیکھی جا رہی ہے۔2008 میں گھوٹکی 34 واقعات کے ساتھ اس جرم کی تعداد کے لحاظ سے پاکستان بھر میں اول نمبر پر تھا۔ اس سے اگلے سال یعنی 2009 میں یہاں 24 خواتین نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کی گئیں۔2010 میں یہ تعداد بڑھ کر 37 تک جا پہنچی تاہم پھر اس میں بتدریج کمی آئی اور 2011 میں یہاں 21 اور 2012 میں 14 خواتین موت کی بھینٹ چڑھائی گئیں۔سکھر : صوبہ سندھ کے ضلع سکھر میں خواتین کو نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کرنے کے واقعات میں کمی بیشی سال بہ سال دیکھنے میں آتی ہے۔2009 میں سکھر نام نہاد غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کی تعداد کے لحاظ سے 32 قتل کے ساتھ ملک بھر میں دوسرے نمبر پر تھا۔2011 میں سکھر میں 21، 2012 میں 20 اور 2013 میں 19 خواتین نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کی گئیں۔خیبر پختونخوا کا شہر پشاور قبائلی علاقے سے منسلک اور صوبے کا سب سے بڑا شہری علاقہ ہے۔اسی تناسب سے یہ شہر جہاں جدید اور قدیم روایات کا امین ہے وہیں اسے تضادات کا مجموعہ بھی کہا جا سکتا ہے۔رسوم و روایات اور رہن سہن میں پائے جانے والے یہ تضادات تنازعات اور جرائم کا باعث بھی بنتے ہیں۔نام نہاد غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کے رپورٹ شدہ واقعات میں پشاور کا اس صوبے میں پہلا نمبر ہے۔سنہ 2014 میں پشاور میں نام نہاد غیرت کے نام پر 12 خواتین کو قتل کیا گیا۔ملک بھر سیاحتی مقام کے طور پر مشہور سوات کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہاں خواتین کے خلاف جرائم بھی بڑی تعداد میں وقوع پذیر ہوتے ہیں جن میں نام نہاد غیرت کے نام پر قتل بھی شامل ہیں۔تاہم یہاں رپورٹ ہونے والے واقعات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں خواتین میں خودکشی کے رجحانات میں بہت اضافہ دیکھا گیا ہے۔

Mian Khalid Jamil {Official}
About the Author: Mian Khalid Jamil {Official} Read More Articles by Mian Khalid Jamil {Official}: 361 Articles with 334718 views Professional columnist/ Political & Defence analyst / Researcher/ Script writer/ Economy expert/ Pak Army & ISI defender/ Electronic, Print, Social me.. View More