اپریل فول بنے نہ اک بھول

آج پوری دنیا اپریل فول کو بڑے اہتمام سے منانا اپنا فرض سمجھتی ہے پر یہ ہی کیا بلا……؟ کیا اسے کبھی سوچنے، سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے……؟ ہم اتنے بے حس ہوچکے ہیں کہ اپنی خوشیوں سے اوروں کی جان لیتے ہوئے بھی نہیں کتراتے…… ہمیں صرف اپنے ذات، اپنا نفس نظر آتا ہے…… کبھی یہ سوچئے کہ ہماری پل بھر کی خوشی کسی کے گھر کا…… کسی کی زندگی کا روگ بن سکتی ہے۔

ہم دل کی بینائی سے محروم کیوں ہیں؟

خدا تعالیٰ نے انسان کو عبادت کے لئے بنایا ہے اپنی بندگی کے لئے بنایا اور آج کا انسان اپنی بندگی ہی کرنے لگا ہے۔ ہم کیوں ایک اندھے کی طرح کسی کے پیچھے لگ کے اپنی ثقافت، شرافت، معاشرہ اور اپنی ہی تعلیمات و تربیت کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ ایک اندھا بھی پہلے کسی چیز کو ہاتھ سے ٹٹولتا ہے، اسے پہچاننے کی کوشش کرتا ہے تب وہ اس چیز کو اپناتا یا لیتا ہے…… تو کیا یہ کہنا چاہئے؟…… کہ ہم آنکھ کے اندھوں سے بھی گئے گزرے ہیں، کیونکہ آنکھ کا اندھا تو دل کی آنکھ سے دیکھ لیتا ہے اور جنہیں خدا آنکھ کی نعمت بخشتا ہے۔ وہ دل کی بینائی سے محروم ہو جاتے ہیں……

کسی کی جان گئی اور آپ کا مذاق ٹھہرا

کہا جاتا ہے کہ ’’اپریل فول‘‘ خوشی کا ایک موقع ہے، اور جسے ایک طبقہ روک کر وہ خوشی کا موقع چھین لیتا ہے اور دین کو مشکل کردیتا ہے…… یہ کیسا دین ہے جو بات بات پہ پابندی لگاتا ہے…… مگر اس بات کو کیوں نظرانداز کیا جاتا ہے کہ دین اس لئے ہر اس بات کو منع کرتا ہے، جو وقت کے ساتھ ساتھ گہری اور اوروں کے لئے تکلیف کا باعث بن سکتی ہے…… دین سے ہٹ کے بھی اگر دیکھا جائے تو یہ کیسی انسانیت ہے کہ ایک گھر میں تو خوشیوں کی بارات اور اس کے ساتھ والے گھر میں رنج و الم کا ماتم…… ہر ایسی رسم جو اپنے ساتھ بے شمار طوفان لاتی ہے، اس کا اسلام سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ یہ ایسی رسوم ہیں جنہوں نے ہمیں کچھ بھی نہیں دیا ہے ماسوائے رسوائی کے…… ماسوائے پریشانیوں اور مصائب کے…… یہ رسم بھی غیر مسلم اقوام کی عادات و روایت ہے۔ ایسی ہر رسم کی بنیاد مسلمانوں کی تذلیل سے ہوئی ہے اور بہت افسوس کی بات ہے کہ مسلمان اپنی تذلیل کو بھلا کر اور انہیں اپنا کر بڑا فخر محسوس کرتے ہیں۔ جس کی بنیاد ہی جھوٹ پہ رکھی گئی ہے…… یعنی کسی کی جان گئی اور آپ کا مذاق ٹھہرا……

وقتی خوشی کے لئے ابدی نقصان کیوں؟

اپریل فول منانے والے جھوٹ کی آڑ لے کر اوروں کو بیوقوف بناکر خوشی محسوس کرتے ہیں۔ ایسی خوشی کا کیا فائدہ جو آگے چل کر ایک بھول بن جائے، جس سے کسی ذات کو ایسا نقصان پہنچے جو ناقابل تلافی ہو۔ فرسٹ اپریل کو ایک دوسرے سے جھوٹ بول کر خوشی حاصل کرنا کہاں کی عقل مندی ہے، مذاق وہ ہونا چاہئے جس سے کسی کی دل آزاری نہ ہو، جس سے کسی کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ اس تہوار کے ذریعے وقتی اور عارضی طور پر لوگوں کو پریشان کیا جاتا ہے۔ اپریل فول کے حوالے سے بڑی بڑی بدترین تکلیف دہ حرکتیں کی جاتی ہیں اور خود تماشا دیکھنے میں بہت لطف محسوس کیا جاتا ہے جبکہ یہ مذہبی کیا اخلا قی سطح پر بھی غلط اور بُری عادت ہے۔ ابوداؤد اور ترمذی کی کتبِ حدیث میں ہے کہ صحابہ کرام رضوان اﷲ اجمعین نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے ایک شخص نے دوسرے کی رسی اٹھا لی وہ سو رہا تھا، بیدار ہوکر اسے گھبراہٹ اور پریشانی ہوئی۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لایحل لمسلم ان یروع مسلما…… یعنی کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ دوسرے مسلمان کو پریشانی میں مبتلا کرے، اس سے یہ مطلب اخذ کرلینا کہ اسلام سرے سے ہی ہنسی مذاق کو بھی منع کرتا ہے غلط ہے۔ نبی کریم e خود صحابہ اکرام سے بھی مزاح کیا کرتے تھے اور صحابہ کرام بھی آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے مزاح کیا کرتے تھے۔

خوش طبع میں نقصان نہیں ہونا چاہئے
اسلامی تاریخ میں بہت سے واقعات ملتے ہیں جس سے رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خوش طبعی کا پتہ چلتا ہے۔ کیونکہ جہاں آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم زندگی کے ہر پہلو پر روشنی ڈالتے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ اس خاص پہلو کو نظرانداز کرجاتے، جبکہ زندگی کا یہ لازمی امر ہے اور زندگی کو مزاح کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی کہ پھول کو خوشبو کی، دل کو دھڑکن کی…… کیونکہ جب زندگی تکلیف دہ اور بوجھ بنتی ہے، تعلقات میں یکسانیت آنا شروع ہو جاتی ہے، مزاجوں میں تلخی پیدا ہو جائے پھر ایسی مشکلات کو مزاح سے ہی زائل کیا جاسکتا ہے۔ مگر کبھی کبھی مذاح کسی کو اذیت بھی پہنچا سکتا ہے اس لئے دین جہاں حقائق پر غور و فکر کی دعوت دیتا ہے وہاں جائز مزاح کی بھی ممانعت نہیں کرتا مگر ہر چیز میں اعتدال ضروری ہے۔ لہٰذا آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم بھی مزاح کیا کرتے تھے پر آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے مزاح میں لغو بات اور جھوٹ شامل نہیں ہوا کرتے تھے، جس کی مثال ایک قصے سے ملتی ہے۔ ایک بار حضرت ام ایمن رضی اﷲ عنہا نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو حضور فوراً ’’امی امی‘‘ کہہ کر اٹھے اور ان کو بڑے ادب و احترام سے بٹھایا اور آنے کا مقصد پوچھا تو انہوں نے بڑے ادب سے عرض کیا کہ ’’اے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم مجھے ایک اونٹ کی ضرورت ہے۔‘‘ نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’امی اونٹ کا کیا کریں گی……؟‘‘ تو انہوں نے فرمایا آج کل ہمارے پاس سواری کے لئے کوئی جانور نہیں ہے، سفر دور دراز کا ہوتا ہے اور بڑی مشکل پیش آتی ہے۔ رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اچھا تو میں اونٹ کا بچہ پیش کردیتا ہوں۔ حضرت ام ایمن نے عرض کیا: ’’میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں بھلا میں اونٹ کا بچہ لے کر کیا کروں گی؟ مجھے تو سواری کے لئے اونٹ چاہئے۔‘‘ نبی کریم e نے بڑی محبت سے فرمایا: ’’میں تو آپ کو اونٹ کا بچہ ہی دوں گا۔‘‘ حضرت ام ایمن رضی اﷲ عنہا نے عرض کیا: ’’حضور اونٹ کا بچہ میرے کس کام آئے گا۔‘‘ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے پھر فرمایا: ’’امی آپ کو اونٹ کا بچہ ہی ملے گا اور آپ کو اس پر سوار کروں گا۔‘‘ اس کے بعد نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ایک خادم کو حکم دیا اور وہ جلدی سے سواری کے قابل اونٹ لے آیا اور آپ نے مہار ام ایمن کے ہاتھ میں پکڑاتے ہوئے کہا: امی دیکھئے یہ اونٹ کا بچہ ہے یا کچھ اور۔ حضرت ام ایمن رحمت عالم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے اس شفقت بھرے مزاح کو سمجھ گئیں اور بے اختیار ہنسنے لگیں۔ (مشکوٰۃ)

مسکراہٹ دو آنسو نہ دو
یعنی آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے یہ باور کرایا کہ مذاق ایسا ہونا چاہئے کہ جو بے ساختہ لبوں پہ مسکراہٹ بکھیر دے نہ کہ آنکھ سے آنسو…… اور سب سے بڑھ کر جھوٹ پر مبنی نہیں ہونا چاہئے کیونکہ جھوٹ صرف دکھ دینا جانتا ہے۔ ایسے بے شمار قصے ملتے ہیں جن سے آپ کی لطافت اور خوبصورت اخلاق و اقدار کا پتہ چلتا ہے، کہیں آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک بڑھا سوالی بن کر آئی اور جنت میں داخلے کی دعا کی درخواست کی تو آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جنت میں بوڑھے لوگ نہیں جائیں گے۔‘‘ جس پر بڑھیا بے اختیار رونے لگی اور جانے لگی تو آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت نے گوارا نہ کیا اور فوراً فرمایا کہ اس سے کہو کہ جنت میں سب جواں ہوکے جائیں گے تو کہیں آپ نے کسی بچے کو ازراہ مزاح کہا کہ تمہارا دو کانوں میں سر ہے…… یہ تمام مزاح میں کہیں بھی جھوٹ کا سہارا نہیں ملتا، ساتھ ہی آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم خلافِ توقع کوئی بات نہ کرتے…… آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی پوری زندگی ایسے ان گنت واقعات سے بھری پڑی ہے۔ مزاح میں کسی کی دل آزاری کرنا، مذاق اڑانا، برے القاب سے یاد کرنا، آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے سختی سے فرمایا ہے: ’’ہلاکت ہے اس آدمی کے لئے جو لوگوں کو ہنسانے کے لئے کوئی بات کرتا ہے اور اس میں جھوٹ بولتا ہے اس کے لئے ہلاکت ہے اس کے لئے ہلاکت ہے!!!‘‘ (ترمذی) پھر فرمایا: ’’سب سے بڑی خیانت یہ کہ آدمی اپنے بھائی سے وہ بات کہے جو جھوٹی تھی اور اس کو سچ سمجھے……‘‘

دیکھنا مذاق بھول نہ بن جائے
جبکہ فرسٹ اپریل کو ایک دوسرے سے مزاح کرتے ہوئے پیغام پہنچاتے ہیں کہ فلاں کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے جسے سچ مان کر کوئی جلدی پہنچنا چاہے تو اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو سکتا ہے۔ آج کے معاشرے میں ہمارے اردگرد ایسے بہت سے واقعات ملتے ہیں جبکہ رسول پاک e نے فرمایا: ’’مسلمان وہ جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘

انسان اگر ان چھوٹی چھوٹی باتوں پہ توجہ دے اور ہر موقع پر میانہ روی اور اعتدال کو اپنا لے تو بہت بڑے بڑے نقصانات سے بچ سکتا ہے…… ورنہ انسان اپنی ہلاکت کا خود ذمہ دار ہے…… ایسے بے ہودہ مذاق سے انسان اس گڈریے کی طرح ہو جاتا ہے جو روز شیر کے آنے کی خبر دے کر پورے گاؤں کو اکٹھا کرکے پہلے تو ہنستا ہے اور بعد میں اس کا سچ بھی جھوٹ بن کر اس کے لئے ہلاکت کا باعث بن جاتا ہے…… ایک چھوٹا سا مذاق بھول بننے میں دیر نہیں لگاتا، تو کیوں ایسا مذق کیا جائے جو ساری زندگی کی بھول بن جائے……؟
 

Abdul Waris Sajid
About the Author: Abdul Waris Sajid Read More Articles by Abdul Waris Sajid: 53 Articles with 51901 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.