خواتین کے فرائض کی جب بات آتی ہے تو مکمل اسٹیج ایک جانب
دکھائی دیتا ہے، چاہے وہ سیاست ہو، مذہب ہو یا پھراسکالر ہوں یا مذہبی
رہنما۔لیکن جب عورت کے حق کی بات آتی ہے،چاہے اس حق کی آوازکو دوسرے ہی
کیوں نہ اٹھائیں یا وہ خود مانگے تو سارا معاشرہ اچانک تقسیم ہو جاتا ہے۔
اسلام ایک ایسا مذہب ہے، جس نے پہلی بار نہ صرف عورتوں کو عزت دی، بلکہ وہ
تمام اختیارات دیئے، جو انسان کو عزت سے سر اٹھاکر جینے کے لئے چاہئے۔ قرآن
کی سورۃ النسا ء میں پوری صورت خواتین کے اختیارات پر ہے۔ رائٹ آف ایجوکیشن
پر قرآن کہتا ہے، علم حاصل کرنا مرد اور عورت دونوں کے لئے ضروری ہے۔
اسلام میں عورتوں کا جائداد میں حصہ بھی قرآن نے مقرر کیا۔پہلی بیوہ خواتین
شادی نہیں کر سکتی تھیں، مگر بیوہ کو شادی کا اختیار اسلام نے دیا۔ اگر وہ
اپنے شوہر کے ساتھ اچھی طرح سے نہیں رہ پا رہی ہے تو اسے الگ ہونے کا پورا
اختیار ہے۔ کمانے کا اختیار دے کر اسے معاشی آزادی دی گئی۔ حضور ﷺ نے
فرمایا کہ عورت اگر تعلیم یافتہ ہوتی ہے تو اس سے کئی نسلیں سنور جاتی
ہیں۔بچوں کی پرورش کر کے وہ انہیں ڈاکٹر، سیاستداں،پائلٹ، مفتی اور لیڈر سب
بنا سکتی ہے۔عورت ایک اچھی ماں، بیٹی ، بیوی سب کچھ ہوتی ہے۔ وہ اپنے تمام
اختیارات ذمہ داریوں کو بخوبی ادا کرتی ہے۔قرآن میں کوئی ایک ایسی آیت یا
حضور کا کوئی ایسا بیان، جس نے عورت کی عزت کو کم کیا ہو یا پھر اس کی ترقی
میں رکاوٹ ڈالی ہو، کہیں نظر نہیں آتا۔
مسلمان کے پاس حدیثوں کا جو ایک بڑا خزانہ ہے، اس میں حضرت عائشہ ؓ حضور ﷺکی
بیوی کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ گھر کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ میدان
جنگ میں بھی آپﷺ کے ساتھ رہیں۔ جنگ جمل اس وقت کی وہ جنگ ہے، جو حضرت عائشہ
ؓ کی قیادت میں لڑی گئی۔ یہ تو ایک مثال تھی۔ اور بھی ایسی کئی مثالیں ہیں۔
یہ صحیح نہیں ہے کہ مذہب نے عورتوں کو کمزور بنایا ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ
مذہب کے جاننے والے بھی اور نہ جاننے والے بھی اپنی سہولت کے حساب سے آدھی
حقیقت بتاتے اور دکھاتے آئے ہیں۔اور ادھوری حقیقت مذہب کو بدنام کرنے کا
سبب بن جاتی ہے۔کیونکہ ہم اپنے مذہب کی حقیقت کو جانتے نہیں ہیں۔
کچھ حدیں ہر مذہب نے بنائی ہیں، کچھ حدیں ہر مذہب نے صرف عورتوں کے لئے ہی
نہیں، دونوں کے لئے ہی بنائی ہیں۔کیونکہ حدیں ضروری ہیں، طوفانوں کو روکنے
کے لئے۔ مسلم عورتوں کی پسماندگی کی بات آتی ہے تو پردے کو مثال بنا کر
مذہب کو بدنام کیا جاتاہے۔مذہب آپ کو عزت ، آزاد، تمام اختیارات دیتا ہے تو
آپ کے فرائض بھی ہیں، جن سے آنکھیں پھیری نہیں جا سکتیں۔مذہب کی حد میں
عورت ہو یا مرد ، ایک پلڑا فرض کا ہے تو دوسرا اختیارات کا۔دونوں کو برابر
کر کے چلنا ضروری ہے اور جب ہم دنیاوی اور مذہبی دونوں اصولوں کو ، دونوں
کے فرائض اور اختیارات کو، ایک ساتھ لے کر چلتے ہیں ، تبھی ہم کھرے اترتے
ہیں۔ اگر عورت اپنی تمام ذمہ داریوں کے ساتھ جس میں بچوں کی پرورش،سماجی
ذمہ داریوں اور گھر کے تمام کام یعنی ہر ذمہ داری کو اتنی ہی اچھی طرح سے
کر سکتی ہے جتنا کے مرد ، تو پھر اسے بھی سیاست میں آگے آنے کا پورا حق ہے۔
|