پیلی عمارت

میں نے سوچا ہوا تھا کہ اب آگے کی پڑھائی کراچی سے جاری رکھنی ہے۔ مگر کبھی کبھی میں اپنے گھروالوں کو سمجھ نہیں پاتی، کہ کسی معاملے میں بے حد ماڈرن اور

پیلی عمارت

میں نے سوچا ہوا تھا کہ اب آگے کی پڑھائی کراچی سے جاری رکھنی ہے۔ مگر کبھی کبھی میں اپنے گھروالوں کو سمجھ نہیں پاتی، کہ کسی معاملے میں بے حد ماڈرن اور کسی معاملے میں کچھ زیادہ ہی دقیانوسی۔ اکیلی لڑکی کو پڑھنے بھیجنے پر کوئی راضی نہیں ہوا۔ اور مجھے لوکل گورنمنٹ ڈگری کالج میں ایڈمیشن لینا پڑا کیونکہ اس وقت میرے شہر میں کوئی اور کالج نہیں تھا۔ اس کالج سے مجھے ہمیشہ چڑ تھی، کہ ساری زندگی گورنمنٹ اسکول سے پڑھنے کے بعد اب گورنمنٹ کالج میں مغز کھپاؤ۔ اور مستقبل کا حاصل وصول کچھ نہیں۔

بیکن ہاس، جیسس ان میری، سینٹ مائیکل میں پڑھنے والے اپنے دوسرے کزنز کے سامنے مجھے اپنے اسکول و کالج کا تعارف کروانا عذاب لگتا تھا۔

لاکھ کہتی تھی کہ میرا ایڈمیشن کراچی کے کسی اچھے کالج میں کروادیں یہاں پڑھ کرکسی کا مستقبل نہیں بن سکتا، لیکن گھروالوں کے پاس ایک ہی منطق ہوتی تھی کہ مستقبل محنت سے بنتے ہیں عمارتوں سے نہیں۔ خیر رو دھو کر پڑھنا تو تھا ہی سو پڑھتی رہی مگر اس پیلی عمارت سے میری چڑ قائم رہی۔

انٹر کے بعد یہیں سے ایم اے کرنے کا سوچا۔ کیونکہ میرا خیال تھا جب بنیاد ہی بے بنیاد ہو تو مستقبل کے محل کہاں تعمیر کئے جائیں۔ بس یہاں سے ایم اے کرو اور گھر بیٹھو۔ یہ گھر والوں سے بدلہ لینے کا ایک طریقہ تھا۔ میرے ٹیوٹرز بھی سارے گورنمنٹ کالج کے اساتذہ تھے۔جن پر آج مجھے فخر ہے۔ اپنی تعلیم مجھے بے معنی ہی لگتی تھی اور مستقبل تاریک۔ ایم اے کرنے کے بعد سوچا چلو جاب کے لیے کوشش کر دیکھتے ہیں۔ ملی تو ملی ورنہ میں کون سا اتنی ضرورت مند ہوں یا ایسے کون سے اعلٰی تعلیمی اداروں کے ڈھیر ہیں میرے پاس۔ کئی جگہ انٹریو دیے اور حسبِ توقع نتیجہ ناکامی رہا۔ اور میری اس پیلی عمارت سے چڑ مزید بڑھ گئی۔ میں سوچتی تھی اگر میرے پاس کسی اعلٰی انسٹیٹیوٹ کی ڈگری ہوتی تو شاید نوکریاں میرے قدموں میں ہوتیں۔ میرا خیال تھا ایسی پیلی عمارتیں پورے ملک سے ختم کر دینی چاہئیں جہاں پڑھ کر انسان صرف اپنا وقت برباد کرتا ہے۔

لیکن آج جب اسسٹنٹ کمشنر کا امتحان پاس کرنے کے بعد ٹریننگ کے پہلے دن آفس جا نے کے لیے میں گھر سے نکلی تو راستے میں میرا کالج پڑتا تھا۔ نہ جانے کیوں میں نے گاڑی وہیں روک دی اور عین اس عمارت کے نیچے جا کھڑی ہوئی۔

مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ وہ 2 منزلہ بلڈنگ میرے قد سے، میری سوچ سے، میری توقع سے بہت اونچی تھی، اتنی اونچی کہ جب میں نے سر اٹھا کر اس عمارت کو دیکھنا چاہا تو میری گردن دکھنے لگی۔
؛؛بہت سی باتیں ہوتی ہیں جو ہمیں کوئی استاد نہیں، بلکہ وقت سکھاتا ہے۔ بشرتیکہ ہم سیکھنا چاہیں۔؛؛

یہ الفاظ مجھے زمانہِ طالب علمی میں اسی پیلی عمارت میں کسی استاد نے کہے تھے۔ اور وقت نے مجھے آج ایک نیا سبق دیا تھا۔ میں نے آگے بڑھ کر اس پیلی عمارت کی بوسیدہ دیوار کو چوم لیا۔

Rao Anil Ur Rehman
About the Author: Rao Anil Ur Rehman Read More Articles by Rao Anil Ur Rehman: 88 Articles with 224122 views Learn-Earn-Return.. View More