قابل تقلید ایثار

الحکمۃ ضالۃ المؤمن
بھلائی کی بات مومن کی گمشدہ چیز ہے
گذشتہ دنوں مجھے اپنے بھتیجے عزیزم سلمان احمد قمر کی دعوت ولیمہ میں شرکت کے لئے جرمنی کے شہر مائنز میں جانے کا اتفاق ہوا۔عرصہ پانچ سال سےمیرے دونوں گردے چونکہ ناکارہ ہو چکے ہیں اس لئے خاکسار کو ہفتہ میں تین بار اسپتال میں جاکر ڈیالیسز کرانے پڑتے ہیں۔ اپنے میزبان برادرم عزیزم داؤد احمد قمر صاحب کے گھر کے قریب ہی ایک اسپتال میں ڈیالیسز کا انتظام قبل از وقت کرلیا گیا۔

حسب پروگرام متعلقہ اسپتال میں گیا۔ اس اسپتال کا سارا عملہ جرمن تھا۔لیکن عملہ کے اکثر افراد حسب ضرورت انگریزی میں بات چیت کرلیتے ہیں۔اس لئے وہاں گفت و شنید میں کوئی مشکل درپیش نہ آئی۔
جرمنی میں ڈیالیسز کا بنیادی طریق کار تو انگلستان والا ہی ہے۔لیکن جرمنی میں بعض دیگر اضافی خدمات کے لحاظ سے انگلستان کی نسبت سہولیات قدرے بہتر ہیں۔

میری ڈیالیسز وارڈ میں چار دوسرے مریض بھی ڈیالیسز کے مراحل سے گزررہے تھے۔۔میری دائیں جانب بیڈ پر ایک جرمن مریض تھا۔جس کی عمر پچاس پچپن کے لگ بھگ ہوگی۔بظاہر صحت مند اور توانا لگتا تھا۔۔اس سے علیک سلیک ہوئی۔حسن اتفاق سے وہ بڑی شستہ انگریزی بولتا تھا۔اس لئے بات چیت کا سلسلہ چل نکلا ۔ اس نے بتایا کہ وہ اپنی ذاتی انٹر نیٹ متعلقہ کاروبار کررہا ہے۔اس سلالہ میں اس نےدنیا کے کافی ممالک کی خاک چھانی ہوئی ہے۔نے کافی۔کئی ایک باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو ہوتی رہی۔

دوران گفتگواس نے بتایا کہ وہ عرصہ دس سال سے ڈیالیسز کرا رہا ہے۔میں نے اسے پوچھا کہ تم نے گردہ ٹراسپلانٹ کے لئے کیوں کوشش نہیں کی۔اس نے بتایا کہ جرمنی میں ناکارہ گردے والے مریضوں کی تعداد لاکھوں میں ہے جب کہ گردے ڈونیٹ کرنے والوں کی تعداد ابھی تک محض چند ہزار ہے۔اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ یہ گردہ ایسے شخص کو ملے جو مجھ سے زیادہ مستحق ہے۔

میں نے بیوی بچوں کے بارے پوچھا تو موصوف نے بتایا کہ چونکہ میں خود ایک مریض ہوں۔میں اگر شادی کروں گا تو یہ میری ہونے والی بیوی پر سخت ظلم ہوگا۔اس لئے میں کسی اور کے لئے پریشانی کا سبب نہیں ہونا چاہتا۔

میں نے پوچھا کہ زندگی میں اور کیا مصروفیات ہیں۔موصوف نے بتایا کہ میرے بھائی کی پیدائش کے وقت میری والدہ اس دار فانی سے کوچ کر گئیں۔میرا بھائی ڈاکٹر کی غلطی سے معذور ہوگیا۔اس لئے وہ چلنے پھرنے سے قاصر ہے۔اس لئے میں اس کی دیکھ بھال کرتا ہوں۔

میں اس شخص کی باتوں سے بہت متاثر ہوا۔میں نے عصر حاضر میں اپنے گردووپیش نظر دوڑائی لیکن مجھےایسے خیالات و افکار رکھنے والی جنس ناپید نظر آئی۔

ہمارے معاشرہ میں تو سیلاب میں بہتی ہوئی لااشوں کے ہاتھ کا ٹ کر،کانٹوں کو نوچ کر زیورات اتار لئے جاتے ہیں۔ہمارے ہاں تو بچوں کے سامنے مال زر کی خاطر ماں باپ کو قتل کردیا جاتا ہے۔

ہمارے معاشرہ میں تو لاؤڈ سپیکر وں کی معاونت سے اپنے ہی ہم ملک بھائئِ بہنوں کو مذھبی منافرت کی بنا پر اسقدر اذیت پہنچائی جاتی ہے جو شاید جنگل کے جانور بھی اپنے ماحول میں ایسا نہ کرتے ہوں گے۔
جبکہ ان غیر مسلم ممالک میں آپ اپنے ذاتی مکان میں بھی بے جا شور وغل نہیں کرسکتے جو ہمسائے کے راحت و سکون میں مخل ہو۔یہ شوروغل ملکی قوانین کے خلاف اور قابل تعزیر ہے۔

ایک دفعہ خاکسار ایک عزیز کے ہاں جرمنی گیا۔شام کا وقت تھا۔پارکنگ میں بالکل سکوت کا عالم تھا۔گاڑی پارک کرتے ہوئے ہماری کار پارکنگ میں ایک گاڑی سے لگ گئی۔میرے عزیز نے ایک کاغذ لیا۔اس پر اپنا نام ،ایڈریس اور فون نمبر وغیرہ لکھ کر متعلقہ گاڑی کے ڈیش بورڈ پر لگادیا۔تاکہ گاڑی کا مالک تلافی کے لئے رابطہ کرسکے۔کیا ہم اپنے معاشرہ میں ایسا تصور کرسکتے ہیں۔اس بظاہر چھوٹے سے عمل نے مجھے سوچنے پر مجبور کردیا۔جبکہ ہمارے ہاں کسی معصوم کو سر راہ مارنے کے بعد گاڑی کو تیزی سے دوڑا کر بھاگ جاتے ہیں۔

ادنی ادنی اخلاق ہی معاشرہ میں بڑے بڑے اہم اور مثبت کردار اور قومی ترقیات اور رفعت و عظمت کا باعث بنتے ہیں۔چھوٹی سوچ ،فکر اور عمل کا دائرہ وسعت اختیار کرجاتا ہے۔

ہمیں اپنے گردو نواح اور ماحول کے ساتھ ساتھ اپنا بھی جائزہ لینا چاہیے کہ ہم اپنے ماحول اور معاشرہ کی تعمیر و ترقی میں کیا کردار ادا کرہے ہیں۔

 

Munawar
About the Author: Munawar Read More Articles by Munawar: 47 Articles with 52752 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.