بے حسی بے بسی۔۔۔۔۔ضرور پڑھئے

سب کو صبر آگیا لیکن حلیمہ جیتے جی مر گئی سارا دن خلاؤں میں گھورتی رہتی اپنے آپ میں مدہوش رہتی نہ کھانے کا ہوش نہ پینے کا ،گھر کے حالات ابتر ہو گئے تھے،پانچ لاکھ کا اعلان بھی اعلان ہی تھا رات گئی بات گئی حلیمہ کے کام پر نہ جانے کی وجہ سے فاقوں کی نوبت آگئی تھی گھر میں ہر طرف بے بسی اور ہو کا عالم تھا ،حلیمہ بے دلی سے اپنے کمرے کی جانب بڑھ رہی تھی جب اپنے جڑواں بچوں کی آواز سن کر رک گئی۔ افسر تو کب بڑا ہو گا؟بہن نے افسر سے پوچھا تجھے میرا بڑا ہونے کی فکر ہے ہو جاؤں گا،بڑا ہو گا تب ہی اختر بھائی کی طرح کام پر جائے گا صالحہ نے سنجیدگی سے کہا،افسر نے افسردگی سے کہا پر اختر بھائی تو اللہ کے گھر چلے گئے۔ہاں میں بھی تو یہی کہہ رہی ہوں کہ جلدی سے بڑا ہو کر اللہ کے گھر چلے جانا تاکہ ہمیں بھی کھانے کو اچھا مل جائے اب تو کھانے کو بھی کچھ نہیں ہے۔اب تو بھوک برداشت نہیں ہوتی پتہ نہیں تو کب مرے گا؟صالحہ نے حسرت سے کہا اور ان معصوم بچوں کی گفتگو نے حلیمہ کو ہلا کر رکھ دیا ،مرنے والوں کے ساتھ مرا نہیں جاتا زندہ لوگوں کو اسکی زیادہ ضرورت تھی یہ آج حلیمہ نے جانا اور ایک عزم اور حوصلہ سے اس نے باہر کی طرف قدم بڑھائے۔

پورا محلہ سوگوار ،ہر آنکھ پرنم تھی۔مولا بخش اور حلیمہ کے دکھ میں سب برابر کے شریک تھے۔غریبوں کے پاس کچھ نہ ہو مگر آپس میں بھائی چارگی اور محبت ضرور ہوتی ہے،ایک دوسرے کے دکھ درد کے ساتھی،ہر خوشی اور غم سانجھا مگر غریبوں کیلئے شاید سب سے سستی تفریح بچوں کی فوج بنانا ہے ہر گھر میں مفلسی ،غربت تھی مگر بچوں کی کوئی کمی نہ تھی۔مولابخش کو تین بیٹیوں کے بعد اللہ تعالیٰ نے بیٹے کی شکل میں اپنی نعمت سے نوازا تو پورے محلے میں خوشی کی لہر دورگئی،دونوں میاں بیوی اللہ کا شکر ادا کرتے نہ تھکتے تھے مگر حلیمہ کی ساس اٹھتے بیٹھتے حلیمہ کو سناتی رہتی کہ بہو بیٹے کیلئے بھائی ہونا ضروری ہے لڑکیاں تو اپنے گھر کی ہو جائیں گی،اکیلا جنا کیا بھاڑ بھونے گا؟بھائی کا سہارا بھائی بنے گا کندھے سے کندھا ملا کر چلنے والا،حلیمہ جل کر جواب دیتی۔

اماں کیا میں لکھوا کر لائی ہوں کہ بیٹا ہی ہو گا اگر بیٹی ہو گئی تو۔۔؟اے لو کیوں ایسی منحوس فال منہ سے نکالتی ہوتم ارادہ کرو اللہ نے چاہا تو بیٹا ہی ہو گا۔اماں یہ بھی تو سوچیں کہ ہم کھانے والے اتنے اور کمانے والا اکیلا مولابخش،میں تو چاہتی ہوں کہ میرا بیٹا اعلیٰ تعلیم حاصل کرے بچیوں کو تو مولا بخش نے پانچویں کے بعد پڑھنے نہیں دیا مگر میں اپنے شہزادے کو ضرور اعلیٰ تعلیم دلواؤں گی،حلیمہ نے اپنے اکلوتے بیٹے اختر کو چومتے ہوئے کہا،کئی سال گزرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حلیمہ کو’رحمت،نعمت‘دونوں سے نواز دیا،بیٹے کی خوشی میں سب چوتھی بیٹی کا دکھ بول گئے اور حلیمہ دونوں بیٹوں کی تعلیم کے اونچے اونچے خواب دیکھنے لگی اور ان خوابوں کو تعبیر دینے کیلئے خود حلیمہ نے بھی کمرکس لی اور لوگوں کے گھروں میں کام کرنے لگی کبھی کبھی حلیمہ دکھی ہوتی تو سوچتی:یا اللہ!یہ دولتمند لوگ زیادہ کی ہوس میں ہر جائز اور ناجائز کام آنکھ بند کر کے کئے جاتے ہیں کیا انہیں ہم غریبوں کے خالی گھر اور ٹھنڈے چولہے نظر نہیں آتے؟کیا یہ دولت کے پجاری قیامت تک بوریاں سمیٹنے کیلئے زندہ رہیں گے؟اور یہ مال ومتاع قبروں میں ان کے ساتھ ہی جائے گا؟جس کیلئے یہ گناہ کر رہے ہیں وہ تو ان کی قبر پر فاتحہ پڑھنے بھی نہیں آئیں گے اور یہ دولت قبر میں ان کو سانپ بچھو کی طرح ڈسے گی۔پھر وہ خود ہی اپنے خیالات پر لعنت بھیج کر توبہ کرنے لگتی۔

اللہ جی مجھے معاف کر دینا مجھے پتہ ہے ہم غریبوں کی یہ آزمائش ہے اور میرا ایمان ہے اس جہاں میں ہم عیش کریں گے اور یہ دولت کے پجاری اس دنیا میں اپنے کئے کی سزا بھگتے گے۔اختر اب دسویں جماعت میں آگیا تھا ساری گھر خوش تھا مگر تب وہ حادثہ پیش آگیا جس نے اس گھر کے باشندوں کو سر تاپاہلا ڈالا۔مولا بخش کا ہاتھ مشین میں آگیا اور وہ ایک ہاتھ سے محروم ہو گیا پولیو کی وجہ سے لنگڑا تو پہلے سے تھا اب تو کسی کام کا نہیں رہا تھا حلیمہ اسکی جان بچ جانے پر شکر گزار تھی،شروع شروع میں تو آس پاس کے لوگوں اور کارخانے کے مالکوں نے مدد گی لیکن کب تک!آخر گھر میں فاقوں کی نوبت آنے لگی ،مولابخش کو معذوری نے چڑچڑا بنا دیا تھا،سارا دن گالیاں دیتا اور چیختا چلاتا رہتا آخر کارخانے کے مالک نے رحم کھاتے ہوئے باپ کی جگہ بیٹے کو نوکری کی پیشکش کی مگر حلیمہ نہیں مانی ،پھر ایک دن مولا بخش کو غصہ آیا اور حلیمہ سے کہنے لگاکہ اے نیک بخت!کب تک تو اپنے لاڈلے کو پڑھائے گی،پڑھ لکھ کر کون سا اس نے افسر لگ جانا ہے آج کل پڑھے لکھوں سے ان پڑھ زیادہ کما لیتے ہیں محنت مزدروی کر کے میرا دوست کہہ رہا تھا کہ اس ملک کو جتنا نقصان پڑھے لکھے اور امیر لوگوں نے پہنچایا ہے-

اتنا ان پڑھ لوگوں نے نہیں پہنچایاکیونکہ غریب کو محنت مزدوری کرتے ہوئے شرم محسوس نہیں ہوتی بس چار پیسے ؂عزت سے مل جائے اور کیا چاہئے،تیرا بیٹا اگر پڑھ گیا تو کسی کام کا نہیں رہے گا آج کل نوکری بھی پیسے اور سفارش کے بغیر نہیں ملتی اور نہ ہمارے پاس سفارش ہے نہ پیسہ ،میری مان اس کو میری جگہ رکھوا دے دال دلیہ تو گھر کا چلے گا پھر کل کو بیٹیوں کی شادی بھی کرنی ہے۔تو اپنے ارمان اختر کے چھوٹے بھائی افسر پر پورے کر لینا۔

حلیمہ کا حالات نے بے بس اور مجبور کر دیا سو اس نے اختر کو سکول سے اٹھوا لیا اور وہ باپ کے کارخانے میں کام کرنے لگا ،شروع شروع میں تو اس کو ملال ہوا پھر اس نے کام میں دل لگا لیا اور اوورٹائم بھی لگالیتا۔ایک دن وہ گھر آیا تو بڑا خوش تھا ،اماں مالک صاحب بتارہے تھے کہ کارخانے کی چوتھی منزل بھی بننا شروع ہونے والی ہے اور وہ مجھے اب پڑھنے لکھنے کا کام دیدیں گے اور میری تنخواہ بھی بڑ ھ جائے گی۔اماں جان!وہ خوش ہو کر بولا میں نے پرائیوٹ میٹرک کا امتحان دینے کا سوچ لیا ہے تو چاہتی تھی نہ کہ میں پڑھوں اب میں ہر سال پرائیوٹ امتحان دیا کروں گا اور پڑھ لکھ کر تجھے بڑا افسر بن کر دکھاؤں گا اور گھر بٹھا کر تجھے کھلاؤں گاا ور گھر کاکوئی کام نہیں کرنے دوں گا ،حلیمہ یہ سن کر خوشی سے نہال ہو گئی۔

زندگی میں ٹھہراؤ آگیا تھا یعنی نورمل پوزیشن پر آگئی تھی مولا بخش نے بھی ایک بڑی دکان پر چوکیداری شروع کر دی تھی۔آج صبح سے حلیمہ بے چین بیقرار تھی کسی کام میں اس کا دل نہیں لگ رہا تھا عجیب حالت تھی اسکی،حلیمہ اپنی کیفیت سمجھنے سے قاصر تھی ،اختر کام پر افسر سکول جاچکاتھا کہ اچانک پڑوس کا علی بھاگیا ہوا آیا:خالہ خالہ !ابھی ٹووی پر بتایا ہے کہ وہ کارخانہ جس کی چوتھی منزل بن رہی تھی جہاں ہمارا اختر کام کرتا ہے وہ گر گئی ہے خالہ اختر کہاں ہے؟حلیمہ کی چیخ وپکار سے سارا محلہ گونج اٹھا۔پورا محلہ اس بلڈنگ کے پاس اکٹھا ہو گیاجس کو پولیس اور فوج نے گھیرے میں لیا ہوا تھا اور کسی کو آگے آنے نہیں دیا جارہا تھا،لوگوں کی چیخوں اور آہ زاری سے کلیجہ منہ کو آرہا تھا کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جو اشکبار نہ ہو دردناک مناظر تھے،کتنوں کے پیارے ملبہ تلے دبے تھے زندہ ہیں یا مردہ کوئی پتہ نہیں،کرین کی مدد سے ملبے کے نیچے سے جب کوئی ذی روح باہر آتاتو لوگوں کی چیخیں نکل جاتی زندہ دیکھ کر خوشی سے اور مردہ دیکھ کر غم میں۔

حلیمہ نے چیخ چیخ کر اپنا گلہ بٹھا لیا تھا رورو کر آنسو خشک ہو گئے تھے وہ دونوں ہاتھوں سے زمین کھرچ رہی تھی ،ملبہ ہٹانے کی کوشش میں اسکی انگلیاں زخمی ہو گئی تھی مگر اس کو تکلیف کا احساس تک نہیں ہوا تھا کیونکہ اس ماں کا لختِ جگر ملبہ کے نیچے تھا تب پہ اس کا پڑوسی بھاگتا ہوا آیا اس نے ہاتھ میں پکڑا موبائل حلیمہ کی طرف بڑھایا:حلیمہ بہن !اختر،حلیمہ نے بیقراری سے موبائل کان پر لگا لیا جس سے اختر کی بڑی کمزور سے آواز آرہی تھی اماں میں مر جاؤں گا خدا کیلئے مجھے بچا لو میرا دم گھٹ رہا ہے مجھے ڈر لگ رہا ہے اماں میں تکلیف میں ہوں مجھے پیاس لگی ہے میرا دم نکل رہا ہے اماں جی تجھے اللہ سوہنے دا واسطہ مینوں ایتھوں بچاؤ میں مر جانا واں!حلیمہ بیقراری سے اسی کو پکارتی رہی مگر آواز آنا بند ہو گئی یا تو بیٹری ڈاؤن ہو گئی یا پھر اختر کی ہمت،حلیمہ چیخ چیخ کر رونے لگی اور فوجی جوانوں کو گڑگڑا کر کہنے لگی کہ صاحب میرے بیٹے کو بچاؤ وہ زندہ ہے میری اس سے موبائل پر بات ہوئی ہے تہانوں رب تے اودھے سوہنے رسولِ عربی(ﷺ)دا واسطہ جے!اس کی گریہ وزاری سے سب متاثر ہوئے مگر بے بس اور مجبور تھے ٹنوں کے حساب سے ملبہ کو ناکافی مشینری سے اٹھانا آسان نہ تھا پر وہ کوشش کر رہے تھے۔حلیمہکو آس تھی اسلئے اس نے دو دن سے پانی کے سوا کچھ نہ کھا یا تھا کہ آخر ایک لاش ملبہ سے نکلی کو اسکے لختِ جگر اختر کی تھی،حلیمہ چیخ مار کر بیہوش ہو گئی دودن بعد اسے ہوش آیا اختر منوں مٹی تلے جاسویا تھا اور کسی فلاحی ادارے کی جانب سے کھانے کا انتظام کیا گیا تھا لوگ بریانی اور زردے کے مزے لوٹ رہے تھے۔
۔۔۔بتاؤ مرنے کے بعد کیا ہو گا پلاؤ کھائیں گے احباب فاتحہ ہو گا

حکومت کی طرف سے حسبِ روایت پانچ پانچ لاکھ انعام کا اعلان کیا گیا تھا،ایک زندگی بلکہ ایک پورے خاندان کی تباہی وبربادی کی قیمت پانچ لاکھ!حالات نے حلیمہ کو چپلی لگا دی تھی وہ ان پڑھ تھی مگر جاہل نہیں تھی وہ سوچتی:کی حکومت دا کم مرن والیاں دے زخماں اتے لون چھڑکنا رہ گیا اے؟اگر اہناں دا کوئی مر جاوے فیر وی ایدا ای کرن گے؟کی ایس ملک وچ کوئی قانون قائدہ تے اصول نئیں،کوئی روکن ٹوکن والا نیں جیہدا دل کرے دو تن منزلاں بنا لوے ایہ جانن تو بغیر کیا ایس بلڈنگ کول بوجھ اٹھان دی صلاحیت ہے وا کہ نیں۔حکومت کے کسی کارندے نے آکر معاینہ نہیں کیا ،کسی انجینئر نے اسکی ساخت نہیں دیکھی،گھروں کے گھر اجر گئے کارخانہ بند ہو گیا ،پانچ لاکھ کا اعلان ہو گیا کیا اس دکھ کا مداوا کر سکتے ہیں یہ پیسے؟ایک پورا خاندان جیتے جی مر گیا خواہشات نے دم توڑ دیا سنہرے خواب بکھر گئے کیا حکومت میرے خوابوں کی تعبیر لا سکتی ہے؟

سب کو صبر آگیا لیکن حلیمہ جیتے جی مر گئی سارا دن کھلاؤں میں گھورتی رہتی اپنے آپ میں مدہوش رہتی نہ کھانے کا ہوش نہ پینے کا ،گھر کے حالات ابتر ہو گئے تھے،پانچ لاکھ کا اعلان بھی اعلان ہی تھا رات گئی بات گئی حلیمہ کے کام پر نہ جانے کی وجہ سے فاقوں کی نوبت آگئی تھی گھر میں ہر طرف بے بسی اور ہو کا عالم تھا ،حلیمہ بے دلی سے اپنے کمرے کی جانب بڑھ رہی تھی جب اپنے جڑواں بچوں کی آواز سن کر رک گئی۔

افسر تو کب بڑا ہو گا؟بہن نے افسر سے پوچھا تجھے میرا بڑا ہونے کی فکر ہے ہو جاؤں گا،بڑا ہو گا تب ہی اختر بھائی کی طرح کام پر جائے گا صالحہ نے سنجیدگی سے کہا،افسر نے افسردگی سے کہا پر اختر بھائی تو اللہ کے گھر چلے گئے۔ہاں میں بھی تو یہی کہہ رہی ہوں کہ جلدی سے بڑا ہو کر اللہ کے گھر چلے جانا تاکہ ہمیں بھی کھانے کو اچھا مل جائے اب تو کھانے کو بھی کچھ نہیں ہے۔اب تو بھوک برداشت نہیں ہوتی پتہ نہیں تو کب مرے گا؟صالحہ نے حسرت سے کہا اور ان معصوم بچوں کی گفتگو نے حلیمہ کو ہلا کر رکھ دیا ،مرنے والوں کے ساتھ مرا نہیں جاتا زندہ لوگوں کو اسکی زیادہ ضرورت تھی یہ آج حلیمہ نے جانا اور ایک عزم اور حوصلہ سے اس نے باہر کی طرف قدم بڑھائے۔

Mehboob Hassan
About the Author: Mehboob Hassan Read More Articles by Mehboob Hassan: 36 Articles with 58747 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.