نصاب میں اسلامیات لازمی

ہمارے نصاب میں جو اسلامیات میٹرک تک لازمی ہے اس پر نظر ثانی بہت ضروری ہے۔ پرائمری سے لے کر سیکنڈری جماعتوں کے لئے اسلامیات لازمی میں اسلام کے جن پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئ ہے وہ بچوں کی عمر کے حساب سے، جماعت میں پڑھاۓ جانے کے لئے مناسب نہیں۔ اسلامیات وہ مضمون ہے جو ہمارے دین، اسلام کی تعلیم دیتا ہے۔ یہ اسلامی تعلیمات کو پھیلانے اور بچوں کو اپنے دین کے بارے میں معلومات دینے کا ایک مفید ذریعہ ہے۔ لہٰذا اس کا سلیبس بناتے وقت ہمارے علماء کرام کو اس بات کا خیال ضرور رکھنا چاہئے کہ پرائمری اور سیکنڈری جماعتوں کے طلباء کی عمر اور ذہن بہت معصوم، نا سمجھ اور بہت جلد بگڑنے والا ہوتا ہے۔ خاص طور پر جب طلباء سیکنڈری جماعتوں میں پہنچتے ہیں تو وہ عمر کے اس حصے میں ہوتے ہیں جس میں ہر لحاظ سے بگڑنے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ اس وقت ان کو ایسی تعلیم و تربیت کی ضرورت ہوتی ہے جس کے مثبت اثرات ان کے ذہن پر مرتب ہوں نہ کہ ایسی تعلیم جس پر ان کے ذہنوں میں بے شمار غلط قسم کے سوالات ابھریں۔ کئ بے باک طلباء جب استاد سے اس قسم کا کوئ ناشائستہ سوال پوری جماعت کے سامنے کر بیٹھتے ہیں تو استاد شرمندگی سے کوئ تسلی بخش جواب بھی نہیں دے پاتا۔ پوری جماعت جن کے ذہنون میں اس قسم کا کوئ سوال نہیں ہوتا وہ بھی اس بات کے بارے میں سوچنے لگتے ہیں جس پر سوال کیا گیا ہوتا ہے۔ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی میٹرک کی اسلامیات لازمی سے منسلک پاسٹ پیپرز میں ایک سوال کے جواب میں حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو طلاق دے دی اور رسول اللہﷺ نے حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نکاح کر لیا۔ اس وقت کے رسم و رواج کے مطابق منہ بولے بیٹے کی مطلقہ یا بیوہ سے شادی کرنا حرام تھا۔ ہمارے پیغمبرﷺ نے حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نکاح کر کے اس فرسودہ رسم کا خاتمہ کیا۔ لفظ بیٹا، بیٹی، ماں، باپ، بہن، بھائ، یہ وہ رشتے ہیں جن کا تقدس اور احترام ہم بچوں کو بچپن سے ہی ذہن نشین کراتے آتے ہیں مگر اگر ان رشتوں کے ساتھ منہ بولا یا لے پالک لگ جاۓ تو اس کا مفہوم اکثر بچوں کے ذہن میں واضح نہیں ہوتا۔ اس لئے ان لفظوں سے جڑے رشتوں کو وہ اسی نظر سے دیکھتے اور سمجھتے ہیں۔ ایک طالب علم نے بھری جماعت میں اس پر سوال کیا کہ ٹیچر بیٹے کی بیوی کو بھی تو بیٹی بنا کر گھر لاتے ہیں تو پھر طلاق کے بعد کیا بیٹی کا رشتہ ختم ہو جاتا یے جو اس سے نکاح جائز یے۔ اس سوال سے آپ بچوں کے ذہن کی نا پختگی کا اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں۔ اس قسم کے رشتوں کی تفصیل بچوں کو عام طور پر نہ تو گھروں میں بتائ جاتی ہیں نہ ہی یہ ہمارے کسی بھی نصاب میں شامل ہیں۔ تو پھر کیوں نہ اس قسم کے سوالات ان کے ذہنوں میں جنم لیں۔ یہاں پر یہ کہنا کہ استغفراللہ پیغمبرﷺ کے بارے میں کیسی بات کر دی یا بچوں کو ایسے سوالات پر ڈانٹنا اور مارنا یا پھر جماعت کے سامنے بے عزت کرنا کوئ عقلمندی کی بات نہیں۔ اس طرح آپ ان کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات کے اظہار کو تو روک سکتے ہیں مگر ان کی سوچ کو اندر سے ختم نہیں کر سکتے۔ اب یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا نصاب میں ایسی تعلیمات کا اضافہ کیا جاۓ جس سے بچوں کو حقیقی بیٹے یا بیٹی اور منہ بولے بیٹے یا بیٹی کا فرق معلوم ہو؟ نہیں، اس کا حل یہ بھی نہیں ہے کہ نصاب میں ایسی تعلیمات کا اضافہ کیا جاۓ۔ اس کا حل یہ ہے کہ ایسا نصاب جو بچوں کے ذہنوں میں ایک غلط قسم کی سوچ کو جنم دے، حذف کر دینا چاہئے اور ایسی تعلیمات کو بڑی جماعتوں کے نصاب میں شامل کر دینا چاہئے کیوں کہ اس وقت طلباء عمر کے اس حصہ میں ہوتے ہیں جو نا سمجھی کا نہیں ہوتا اور کسی حد تک انہیں بہت کچھ سمجھ آجاتا ہے۔ پرائمری اور سیکنڈری جماعتوں کی اسلامیات کے نصاب کو اس عمر کے بچوں کی ذہنی سطح کو ذہن میں رکھ کر ترتیب دینا چاہئے نہ کہ پرائمری جماعتوں میں پڑھائ جانے والی اسلامیات میں اس بات کا ذکر کرنا ضروری سپجھا جاۓ کہ حضورﷺ نے جب حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نکاح کیا تو ان کی عمر چھ یا نو سال تھی اور وہ گڑیوں سے کھیلتی تھیں۔ معصوم ذہن یہ سوچنے لگتے ہیں کہ پھر تو میری بھی شادی ہو جانی چاہئے۔ ان تمام باتوں کا قطعی یہ مقصد نہیں کہ خدانخواستہ ہمارے پیارے پیغمبرﷺ کے بارے میں بچوں کو نہ بتایا جاۓ یا ان کو اسلامی تعلیمات سے روکنا اس مضمون کا مقصد ہے۔ یہاں پر صرف یہ بات کہی جا رہی ہے کہ پرائمریاور سیکنڈری درجہ کے نصاب میں سے کچھ تعلیمات حذف کر کے بڑی جماعتوں کے لئے رکھ لی جائیں اور اس کی جگہ بچوں کے عمر اور ذہن کے حساب سے نصاب میں وہ چیزیں شامل کریں جس کو پڑھ کر نہ صرف یہ کہ بچے اس میں دلچسپی لیں بلکہ اپنے دین کی طرف زیادہ سے زیادہ راغب ہوں۔ہم ابھی سے معصوم بچوں اور نوجوانوں کو شادی بیاہ، میاں بیوی کے حقوق وفرائض اور عقد نکاح کے فوائد کی تعلیم دے کر ان کو وہ اسلامی تعلیمات دے رہے ہیں جس کےلئے ان کا ذہن ابھی بہت نا پختہ ہے۔ اس پر سوچنے کی نہیں عمل کرنے کی ضرورت ہے۔جہاں نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کے بارے میں بتایا جاتا ہے وہاں انسانیت اور اخلاقیات پر مبنی نبیوں اور پیغمبروں کے قصے اور واقعات کا نصاب میں اضافہ کر دینا چاہئے۔ قصے اور کہانیاں بچوں کے لئے زیادہ دلچسپی کا باعث ہوتے ہیں۔ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوقالعباد پر بھی زور دینا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان بھی یہی ہے کہ پہلے بندے سے حقوقالعباد کی پوچھ گچھ ہوگی۔ مگر ہم حقوقالعباد کو بہت پیچھے چھوڑ آۓ ہیں۔ وجہ یہی ہے کہ ہماری نسلوں میں تیزی سے بگاڑ پیدا ہو رہا ہے۔ یہاں پر یہ کہنا کہ میڈیا کا دور ہے اور میڈیا نے بگاڑ پیدا کیا ہے اور یہ کہ نصاب سے شادی بیاہ، عقد نکاح وغیرہ جیسی باتیں حذف کر دینے سے کیا سدھار پیدا ہو جاۓ گا؟ آج کا بچہ بچہ اس بات سے واقف ہے، درست نہیں۔ بگاڑ کسی طرح بھی پیدا ہو اس کو یہ کہہ کر نظر انداز کر دینا کہ بچوں کو تو سب کچھ پہلے سے ہی پتہ ہے، نہایت غلط سوچ ہے۔ ہم ہر بگاڑ کو تو درست نہیں کر سکتے مگر جہاں تک درست کر سکتے ہیں اسے بھی یہ کہہ کر درست نہ کریں کہ پہلے ہی سب کچھ خراب ہے ہا بچے تو یہ سب کچھ پہلے ہی جانتے ہیں وغیرہ۔ ایسی تعلیمات جو ناسمجھ ذہن سمجھ نہ پاۓ اور مختلف قسم کے غیر ضروری سوالات ان کے ذہنوں میں جنم دے ہر صورت میں نصاب سے حذف کر دینی چاہئیں۔

ویسے مجھے یہاں زیادہ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ نصاب اسلامیات میں کچھ حصوں کو حذف کر کے کیا ایسا شامل کیا جاۓ جس سے بچوں اور نوجوانوں میں سدھار پیدا ہو۔ ہمارے علماء کرام یہ بخوبی جانتے ہیں۔ اسلام وہ دین ہے جس میں زندگی گزارنے کے ہر پہلو کو بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔

Shehla Khan
About the Author: Shehla Khan Read More Articles by Shehla Khan: 28 Articles with 33043 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.