آزادکشمیر اسلامی دنیا کے نوممالک میں شامل 
		ایسی ریاست ہے جہاں پر باقاعدہ زکوۃ ایکٹ نافذ ہے نظام زکوۃ بنیادی طورپر 
		معاشرے کے خوشحال افراد سے زکوۃ لے کر غریب مستحقین میں تقسیم کرنے کا نام 
		ہے پاکستان آزادکشمیر اسلامی ریاستیں ہیں یہاں زکوۃ ایکٹ بھی نافذ ہیں 
		اربوں روپے زکوۃ بھی سالانہ اکٹھی ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے نظام زکوۃ میں 
		خامیوں کی وجہ سے اصل مستحقین اس سے محروم ہیں ہمارے ملک میں سرکار کی 
		فائلوں میں اور سرکاری ریکارڈ میں سالانہ اربوں روپے زکوۃ کے نام پر 
		مستحقین میں تقسیم تو کیے جاتے ہیں لیکن اس نظام کے اصل مقاصد سے ہم آج بھی 
		کوسوں دور ہیں فی کس 1ہزار سے تین ہزار تک ماہانہ یاسہہ ماہی اقساط میں 
		غریبوں میں تقسیم کرکے قوم کو بھکاری بتا دیا گیا ہے اگر زکوۃ اﷲ اور اس کے 
		رسول کی ہدایت کے مطابق تقسیم کی جائے اور اسلامی زکوۃ کا نظام نافذ کیا 
		جائے تو اسلامی نظام اور اکانومی دنیا کی مضبوط ترین اکانومی بن سکتی ہے 
		سنت نبوی بھی ہے کہ زکوۃ کا نظام چلانے کیلئے اہل لوگوں کی تعیناتیاں کی 
		جائیں مگر بدقستمی سے ہمارے ہاں حاصل ہونے والی زکوۃ سے ایسے ایسے گل 
		کھلائے جاتے ہیں ارکان اسمبلی وزراء حکومت لاکھوں روپے تنخواہیں لینے والے 
		بیورو کریٹس زکوۃ کے پیسوں سے اپنا اور اپنے بال بچوں کا علاج کرواتے ہیں 
		مرکزی چیئرمین زکوۃ کو ماہانہ سات لاکھ سے زائد تنخواہ دی جاتی ہے دیگر 
		اخراجات بھی شاہانہ کیے جاتے ہیں کسی کو خدا کا خوف نہیں کہ زکوۃ کے جن 
		پیسوں سے زکوۃ دینے کے قابل لوگ امیر ،وزیر ، مشیر، سرکاری افسران اپنا اور 
		اپنے بچوں کا علاج کرواتے ہیں وہ پیسے کسی غریب کا حق ہیں ان کی اس حرکت کی 
		وجہ سے کسی غریب کا بچہ بغیر علاج کے مرسکتا ہے بھوک اُس کی جاں لے سکتی ہے 
		ایک اندازے کے مطابق اس وقت آزادکشمیر بھر میں اس وقت پانچ لاکھ سے زائد 
		لوگ زکوۃ کے مستحق ہیں اگر زکوۃ منصفانہ طریقے سے وصول اور تقسیم کی جائے 
		تو پوری ریاست میں کوئی غریب بھی بھوکا نہ رہے زکوۃ جن کا حق ہے اُن تک 
		پہنچانا ریاست کی زمہ داری ہے ریاست کو یہ زمہ داری پوری بھی کرنی چاہیے 
		نظام زکوۃ وعشر بینظر انکم سپورٹ پروگرام جیسی دوسری سکیموں کے زریعے قوم 
		کی بھکاری بنانے کے بجائے اگر خود کفالت کی پالیسی اپنائی جائے تو نہ صرف 
		غربت میں کمی آسکتی ہے بلکہ مستحقین زکوۃ کی تعداد میں بتدریج کمی ہوسکتی 
		ہے۔  
		 
  |