اللہ کریم کی جنت و رحمت کے حقدار کون؟

اللہ کریم نے قرآن مقدس میں جنت و رحمت، بخشش، مغفرت،شفاعت ، فضل اور اجر عظیم کا وعدہ فرمایا ہے اور بشارت بھی دی ہے مگرساتھ میں شرطیں رکھی ہیں جو کوئی ان شرطوں پر پورا اترے گا اس کے لئے سب کچھ ہے ۔ اس کی شفاعت بھی ہوگی، بخشش بھی، رب کی رحمت اور فضل بھی اس پر نازل ہوگا اور اجر بھی عظیم تر ملے گا۔اور جو ان شرطوں پر پورا نہ اترا اسے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ اس کی امیدیں، اس کے دعوے دھرے رہ جائیں گے کچھ اس کے ہاتھ نہیں آئے گا۔ قرآن کریم میں جہاں بھی فضل و بخشش، جنت و رحمت کا ذکر ہے وہاں ساتھ شرط بھی موجود ہے یا تقویٰ کی یا عملوا الصالحات کی یا کامل اطاعت کی اور اس کی سینکڑوں آیات ہیں قرآن کریم میں ، کوئی ایک بھی شرط سے خالی نہیں ہے، پہلے شرط بیان کی بعد میں عنایات۔مگر افسوس ہے ہمارے علماء و مولانا حضرات نے صرف عنایات کو لیااور اس کا ڈنڈورا پیٹ دیا لوگوں میں کہ یہ رب کی بشارت، یہ رب کاجنت و مغفرت کا وعدہ اور شرائط کو نظر انداز کر دیا۔یہ اپنے واعظ و خطابات میں سبھی لوگوں کو خوش کرنے کیلئے صرف فضل، بخشش و رحمت کی باتیں کرتے ہیں کہ یہ اللہ کریم کا ایک مسلمان سے وعدہ ہے، یہ اللہ کی بشارت ہے ایک مسلمان کیلئے مگر ساتھ جوڑی شرط بیان کر کے پوری بات واضح نہیں کرتے کہ وہ ہے کن کیلئے ، عمل والوں کیلئے یا کسی بد عمل کیلئے؟ یہ ہر بد عمل کوبھی مسلمان کہلوانے کی بنیاد پر اللہ کی رحمت ، بخشش اور حضور ﷺ کی شفاعت کا مستحق و امیدوار قرار دیتے ہیں۔ یہی سب سے بڑی سے کم بختی ہے امت کی کہ آج اسے جو رہبر میسر ہیں وہ کم ظرف ہیں دانشمند اور دور اندیش نہیں۔انہوں نے رب کی رحمت، فضل ، شفاعت و بخشش کی بشارت اور وعدے کا اتنا چرچا کر دیا کہ قوم اس کی آس امیدرکھ کر بیٹھ گئی اورخود کو اس کی مستحق سمجھ کر بدعملی میں جا پڑی۔ کاش یہ قرآن سے سبق سیکھتے اور ان کے ساتھ جوڑی شرائط پہلے بیان کرتے اور لوگوں پر پوری طرح واضح کرتے تو آج یہ حال نہ ہوتا امت کا، نہ امت اتنی غفلت میں پڑتی۔یہ علماء خدا کے ان وعدوں پر قرآن سے کوئی ایک ایسی آیت دیکھا دیں گے جس میں ان کے ذکر سے پہلے شرط نہ ہو مگرپہلے شرط والی سینکڑوں آیات بیان کی جا سکتی ہیں ۔ ذیل میں قرآن سے چند ایک آیات اس امید پر نقل کر رہا ہوں کہ شائدان کی رب کی عنایات سے پہلے بیان کردہ شرائط پر نظر پڑ جائے جو قرآن میں بے بہا جگہوں پر موجود ہونے کے باوجود ان کی نظر سے اوجھل ہیں
وَعَدَ اللّٰہَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ مِنْھُمْ مَّغْفِرَۃً وَّ اَجْراً عَظِیْماًo
’’ یہ اللہ کریم کا وعدہ ہے ان لوگوں کے ساتھ جو (ہم پر ) ایمان لائے، ( ہم پر بھروسہ کیا) اور عمل بھی صالح کیے ہماری مغفرت و بخشش ان کیلئے ہے اور انہیں ہمارے ہاں سے بہت عظیم اجر ملے گا۔ (سورۃ الفتح 48: 2)
وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوْا الصِّالِحَاتِ اَنَّ لَھُمْ
جَنَّاتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھَارُo (سورۃ البقرۃ 2: 25)
’’اور ( اے محبوب ﷺ! ہماری طرف سے) بشارت دے دو ان لوگوں کو ایمان لائے اور عمل بھی صالح کیے۔ ہماری جنت ان کیلئے ہے جن کے نیچے نہریں رواں دواں ہیں۔‘‘
وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ سَنُدْخِلُھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھَارُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا اَبَداً وَعَدَ اللّٰہِ حَقًّا وَ مَنْ اَصْدَقُ مِنْ اللّٰہ قِیْلاًo
ْْ ’’اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل بھی صالح کیے انہیں ہم داخل کریں گے جنت میں جس کے نیچے نہریں رواں دواں ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے یہ اللہ کریم کا سچا وعدہ ہے اور کون زیادہ سچا ہو سکتا ہے اللہ کریم سے اپنی بات میں۔‘‘ (سورۃ النساء 4: 122)
لٰکِنِ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّھُمْ لَھُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ
خٰلِدِیْنَ فِیْھَا نُزُلاً مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ وَمَا عِنْدَ اللّٰہِ خَیْرٌ لِّلْاَبْرَارِo
’’ وہ لوگ جو اپنے رب کا خوف رکھتے ہیں(جلوت و خلوت میں، ظاہر و باطن میں) ان کیلئے ہے جنت جن کے نیچے نہریں رواں دواں ہیں وہ اس میں رہیں گے وہ ان کے رب کی طرف سے نازل ہوگی اور اللہ کے ہاں نیک لوگوں کیلئے کیاہی اچھی بھلائی ہے۔‘‘ (العمران3: 198)
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوْا الصّٰلِحّٰتِ اُوْلٰٓءِکَ ھُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّۃِ o جَزَآؤُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا اَبَدًا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ ذٰلِکَ لِمَنْ خَشِیَ رَبَّہٗo
’’بیشک جو لوگ ایمان لائے اور صالح عمل کیے یہی لوگ بہترین مخلوقات میں سے ہیں۔ ان کا بدلہ ان کے رب کے ہاں ہمیشہ رہنے کی بہشت ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اس سے راضی ہوئے ۔ یہ سب اس کے لیے ہے جو اپنے رب سے ڈرتا ہے۔‘‘ (سورۃ البینۃ 98: 7-8)
سورۃ العصر میں اللہ کریم نے تمام بنی نوع انسانیت کو مخاطب کر کے فرمایا کہ سب سراسر نقصان، گھاٹے اور خسارے میں جا رہے ہیں ۔ ان کا انجام اچھا نہیں ہو گا بشمول وہ لوگ جو صرف نام کے مسلمان ہیں مگر ان کے کردار سے مسلمانیت چھلکتی نظر نہیں آتی، ان کے اوصاف و اطوار مسلمانوں جیسے نہیں ہیں وہ سب سے بڑھ کر خسارے میں ہیں سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور عمل بھی صالح کیے۔
وَالْعَصْرِo اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍo اِلَّا الَّذِےْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا
الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّo وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِo
’’قسم ہے زمانے کی!بیشک انسان سراسر نقصان اور گھاٹے میں جا رہے ہیں مگر سوائے ان لوگوں کے جو ہم پر ایمان لائے اور عمل بھی صالح کیے اور لوگوں کو حق بات کی نصیحت اور صبر استقامت کی تلقین کرتے رہے ۔‘‘
اس سورہ مبارکہ میں بھی چار کرداروں کا ذکر کیا گیا ہے ایک مسلمان کے چار اوصاف کی طرح جن کا پہلے ذکر ہو چکا ’’ قہاری و غفاری و قدوسی وجبروت‘‘۔ اور یہ چاروں کردار بھی انہی کا تسلسل اور بالکل ان کے متشابع ہیں۔ یہ سورہ مبارکہ قسم کے ساتھ سے ثابت کر رہی ہے کہ سوائے ان لوگوں کے جن میں مجموعی طور پر یہ چاروں کردار و اوصاف پائے جاتے ہوں پوری کی پوری انسانیت سراسرنقصان اور گھاٹے میں ہے اور وہ چار اوصاف یہ ہیں۔
1۔ اٰمَنُوْا کامل ایمان، مکمل یقین ( توحید باری تعالیٰ اور رسالتِ محمدیﷺ پر)
2۔ عَمِلُوْاالصّٰلِحٰتِ صالح اعمال ( قرآن و سنت کے تقاضا و تعلیمات کے بالکل
عین مطابق عمل)
3۔ وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّحق بات کی نصیحت ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر( دین حق کی
تبلیغ و اشاعت اور فروغ کے لئے انتھک محنت اور لگن )
4۔ وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ صبرو استقامت ( مشکلات، مصائب، آزمائشوں اور تکلیفوں
پرثابت قدم رہنا اوران کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا)
اس سورہ مبارکہ میں اللہ کریم نے تمام انسانیت کو مخاطب فرمایا بشمول مسلمان۔ صرف ایمان لانا ، اللہ عزوجل اور اس کے رسولوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے ملائکہ اور یوم آخرت پر یہ کافی نہیں ہے ان کے ساتھ اعمال صالح بھی ضروری ہیں۔ اگر کوئی شخص سب پر ایمان تو رکھتا ہے مگر اعمال صالح سے روگرانی کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ ضروری نہیں ہے کہتا ہے کہ بس ایمان آ گیا تو سب کچھ آ گیا ، ایسا شخص بھی بہت بڑے خسارے میں جائے گا اور آخرت میں بہت بڑا نقصان اور ذلت اٹھائے گا۔ آج ہمارے پورے معاشرے کا مجموعی کردار اس بات کی عکاسی کرتا نظر آتا ہے کہ ہم صرف ایمان و یقین رکھتے ہیں اور اعمال صالح سے کوئی غرض نظر نہیں آتی ہے۔ ہمارا معاشرہ مجموعی طور پر ایمان و یقین کے ساتھ اعمال صالح کو ضروری نہیں ہے اور ان کے مجموعی کردار سے یہ فلسفہ عیاں بھی ہو رہا ہے۔معاشرہ قرآن میں غور وخوض کیوں نہیں کرتا کہ وہ کیوں بار بار ایمان کے ساتھ اعمال صالح کا تقاضا کر رہا ہے؟ صرف خالی اور کھوکھلا ایمان تو اللہ پر ، اس کے رسولوں پر، اس کے ملائکہ و آخرت پر یہود و نصاریٰ بھی رکھتے ہیں مگر آخرت میں ان کا انجام اچھا کیوں نہیں ہے؟
آپ پورا قرآن چھان مار لیں کہیںآپ کو کوئی ایسی آیت نہیں ملے گی جس میں اللہ کریم نے کسی قوم کو مخاطب کر کے فرمایا ہو کہ میری جنت، بخشش و مغفرت اور فضل و رحمت تمہارے لیے ہے نہ مسلمانوں کیلئے کوئی ایسی آیت ہے نہ یہود و نصاریٰ کیلئے۔ اگر رب کی یہ عنایات سب مسلمانوں کیلئے عام ہوتیں تو قرآن میں کہیں تو ذکر ہوتا و بشر المسلمون بشارت دے دو مسلمانوں کو، وعد اللہ المسلمون اللہ مسلمانوں سے وعدہ کرتا ہے۔قرآن کریم میں کہیں ایسے الفاظ نہیں ہیں اس لئے اللہ کریم کو پتہ تھا کہ بہت سے لوگ صرف نام کے مسلمان ہوں گے ان کے کردار دیکھ کر شیطان بھی شرم آئے گی۔ شیطان (ابلیس) جو کہ اللہ کریم کا ایک معزز فرشتہ تھا، تمام فرشتوں کا سردار تھا۔ جتنی ابلیس نے اللہ کریم کی عبادت کی اتنی کسی اور فرشتہ نے نہیں کی ہو گی مگر اس کا قصور کیا تھا کہ آج سارے جہان کی لعنتیں اس کے گلے پڑ گئیں۔صرف ایک حکم نہیں مانا تھا نا؟ کہ مردود بنا دیا گیا، اللہ کریم نے صرف ایک حکم کی اطاعت نہ کرنے پر اس کی ساری عبادتیں، ساری رضاتیں اس کے منہ پر دے ماریں اور فرما نکل جا یہاں سے(میری جنت سے) پاجی مردود۔
انسان کی تخلیق کے وقت اس واقعہ کا رونما ہونا دراصل انسان کو پیغام دینا مقصود تھا کہ اے انسان میں تیری تخلیق تو کر رہا ہوں مگر یاد رکھنا میرے ہاں اطاعت کا معیار یہ ہوگا۔ میرے ہاں کسی ایک حکم کی خلاف ورزی بھی قابل برداشت نہیں ہوگی۔اس کے بعد پھر دوسرا واقعہ حضرت سیدنا آدم علیہ السلام سے بھولے سے ، بغیر سوچے سمجھے غلطی کا سرزد ہونا اور اللہ کریم کا جنت سے نکال دینا اس پر مہر تصدیق ثبت کر رہا ہے کہ میں اپنے حکم کے خلاف بھولے سے بھی کوئی غلطی یا کوتاہی برداشت نہیں کروں گا۔
یہ انسانیت کے نام دوسرا پیغام تھاکہ میری اطاعت کا معیار، میری بندگی کا پیمانہ یہ ہے کہ میرے حکم کے خلاف اگر بھولے سے بھی کوئی غلطی ، کوتاہی یا غفلت کرو گے تو وہ قابل برداشت تو درکنار قابل معافی بھی نہیں ہوگی اور میری جنت و رحمت سے ہاتھ دھو بیٹھو گے۔ یہ دونوں واقعات انسانیت کیلئے بہت بڑا سبق اور درس عبرت تھے مگر انسانیت نے ان سے سبق نہیں سیکھا کہ اس خالق کے ہاں اطاعت کا پیمانہ یہ ہے کہ کوئی اس کے کتنا ہی قریب کیوں نہ ہو اگر وہ کسی ایک حکم کی بھی خلاف ورزی کرے گا مردود قرار پائے گا اور روندہ درگاہ بنا دیا جائے گا۔اس کی عدالت میں معافی نہیں ہے، اس کا قانون بے لاگ ہے ، اس کا کوڑا برسنے پر آئے تو اپنے محترم نبی و رسولوں کو بھی معاف نہیں کرتا۔ حضرت سیدنا یونس علیہ السلام سے کوتاہی ہوئی تو مچھلی کے پیٹ میں ڈال دیا، حضرت سیدنا ایوب علیہ السلام کا جسم مبارک کیڑوں سے بھر دیا۔ حضرت سیدنا زکریا علیہ السلام نے اس کی بجائے ایک درخت سے پناہ طلب کی تو درخت سمیت آڑے سے کٹوا دیا۔ ہمارے سب نبیوں ،سب رسولوں سے اعلیٰ رسول مختار حضرت محمد ﷺ پر قرآن میں ڈانٹ’’ عَبَسَ وَ تَوَلّٰی‘‘ ہمارے لیے سبق ہے اور پیغام ہے کہ کوئی ایسا اقدام جو مجھے ناپسند آئے تو میں اپنے سب سے محترم اور پیارے رسول ﷺ کو بھی معاف نہیں کرتا ، تم بد عمل و بد کردار کس باغ کی مولی ہو اور ہم سے کس بنا پر تواقع رکھتے ہو کہ تمہیں معاف کر دیا جائے گا؟
ہم اللہ کریم کے کتنے حکم مانتے ہیں اور کتنے نہیں مانتے؟ہم اس کی کتنی اتباع کرتے ہیں اور کتنی نہیں کرتے؟ کتنی قرآن اور اس کے رسول ﷺ کی پیروی کرتے ہیں؟ہمیں روزانہ کتنے سجدے کرنے کا حکم ہے اور ہم کتنے کرتے ہیں ذرا ابلیس کے ایک سجدہ نہ کرنے کی سزا کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے چھوڑے سجدوں کی سزا کا حساب لگائیں کہ بات کہاں تک جاتی ہے اور یہ سزا اٹل ہے مل کر ہی رہے گی کبھی معاف نہیں کی جائے گی۔ ابلیس ایک معزز فرشتہ کو صرف ایک حکم کی اطاعت نہ کرنے پر اپنے دائرہ رحمت سے نکال دیا۔ حضرت سیدنا آدم علیہ السلام ایک محترم نبی کو بھولے سے غلطی کی سزا میں جنت سے نکال دیا گیا اور ہم دیدہ و دانشتہ ہزاروں غلطیاں کرنے، ہزاروں احکام کو پس پست ڈالنے کے باوجود اس سے جنت کی توقع رکھتے ہیں۔ ایسا کیسے ممکن ہے ؟ وہ عادل ہے اور اس کے قانون سب کیلئے برابر ہیں چاہے فرشتے ہوں، جن ہوں یا انسان، وہ اپنے قوانین کے اطلاق میں کسی میں کوئی فرق نہیں کرتا۔ وہ فرق کرنے والے ہم انسان ہیں اورہماری عدلیہ ہے ، ہمارے قانون کے محافظ ہیں جو امیر غریب، شاہ و گدا، برادری و خاندان اور حسب نسب دیکھ کر قانون میں تبدیلی اور نرمی کرتے ہیں ۔وہ خداوند ذوالجلال ایسا نہیں ہے اس کے قانون میں جتنی سختی فرشتوں کیلئے ہے اتنی ہی جن و انس کیلئے۔ اگر ایک معزز فرشتہ صرف ایک حکم کی اتباع نہ کرنے پر شیطان بن سکتا ہے تو پھر ہم آج کے بد عمل مسلمان اس سے اگلے درجے کے شیطان نہ ہوئے جو ہزاروں احکام کی خلاف ورزی کرتے ہیں؟ کیا ہمارا طریق حیات قرآن و سنت کے مطابق ہے؟ کیا ہماری معاشرت، ہمارے سماج، ہمارے کردار و اطوار، ہمارے عدل و انصاف کے تقاضے، لوگوں سے ہمارے معاملات اللہ و رسول ﷺ کے احکامات کے عین مطابق ہیں؟
ہمارے معاشرہ میں مسلم خواتین کی اکثریت کیا ثابت کر رہی ہے کہ یہ معاشرہ رحمن کی اتباع کرنے والا ہے یا شیطان کی؟ہمارے معاشرہ کی غالب اکثریت تواپنے کردار سے یہ واضح کر رہی ہے یہ شیطان کی اتباع کرنے والا معاشرہ ہے رحمن کی نہیں۔قرآن میں پرد ہ اور سر پر اوڑھنی اوڑھے رکھنے کی کتنی پر زور تلقین کی گئی ہے اورہماری خواتین کی اکثریت نے پردہ ترک کرکے دوپٹہ فیشن کے طور پر گلے ڈال رکھا ہوتا ہے۔ یہ صرف حکم کی نافرمانی ہی نہیں بلکہ اس کے خلاف اقدام بھی ہے۔اللہ کریم نے حکم دیا کہ عورتیں سراپا ستر ہیں پردہ میں رہیں ، اپنا جسم ڈھانپ کر رکھیں۔ مگر ہم معاشرہ میں عملی طور پر کیا دیکھتے ہیں؟ کون سراپا ستر نظر آتا ہے عورت یا مرد؟ کسی مرد کو دیکھو وہ سراپا ستر بنا ہے، اس کا جسم سر سے لیکر پاؤں تک ڈھانپا ہوا ہے مگر عورتوں کا جسم و روپ سراپا نمائش نظر آتا ہے۔ سر ننگا اور کھلے ہوئے بال، بازوکہنیوں اور بلغوں تک ننگے، پاؤں گٹھنوں سے اوپر تک ننگے، کھلا گلا اور ننگا رکھا ہوا،قمیص کے چاک اتنے اونچے رکھے ہوئے کہ وہاں سے بھی جسم کی جھلک پڑے، لباس اتنا تنگ اورچشت کہ ہر ستر واضح ہو۔یہ کس کی اتباع کی واضح دلیل مل رہی ہے، یہ کس کے حکم ماننے جا رہے ہیں؟ یہ کس کی پیروی کی جا رہی ہے ، رحمن کی یا شیطان کی؟ ہم نے اللہ کریم کے ہر حکم کی نہ صرف نفی کی بلکہ اس کے خلاف اقدام بھی کیااور الٹی روش اپنائی۔ اللہ کریم نے فرمایا عورت سراپا ستر ہے مگر وہ آج سراپا نمائش ہے اور مرد سراپا ستر۔یہ کھلا مذاق نہیں ہو رہا قرآن و سنت اور احکامات خداوندی کا؟ آج کی ہماری مسلمان خواتین ان احکامات کا کھلے عام مذاق اور تمسخر اڑا رہی ہیں اورعملی طور پر شیطان کی اتباع کر کے خود کو مسلمان بھی کہہ رہی ہیں۔کیا یہ توہین و تمسخر نہیں خدا و رسول اور قرآن و سنت کا؟وہ کس منہ سے کہہ رہی ہیں کہ ہم مسلمان ہیں، اللہ ورسول ﷺ کے احکام ماننے والی ہیں اور فخر کرتی ہیں مسلمان ہونے پر، جبکہ ان کی ظاہری شکل و صورت تو شیطان کی اتباع ثابت کر رہی ہے اور یہ کہ یہ شیطان سے بڑھ کر شیطان ہیں۔ابلیس صرف ایک حکم کی اتباع نہ کرنے سے ایک معزز فرشتہ سے شیطان بن سکتا ہے اور یہ احکامات کی کھلی دھجکیاں اڑا کر بھی خود کو مسلمان کہیں یہ نہیں ہو سکتا، یہ شیطانوں کی مائیں نہ ہوئیں؟ ایسوں کی زبان کھینچ لینی چاہیے جس سے خود کو مسلمان کہیں،کیا یہ قرآن و سنت کے احکامات کا تمسخر اور بدنامی کا باعث نہیں ہیں؟
خدا کا دین سارے کا سارا واجب الاطاعت اور فرض عمل ہے۔ اس کا کوئی حصہ اختیاری نہیں ہے کہ کوئی کہے کہ میں اتنا تو مانتا ہوں اور اتنا نہیں مانتا ۔ اتنے پر تو عمل کر سکتا ہوں اتنے پر نہیں کر سکتا۔ اگر کوئی خدا کے دین کے کسی ایک نقطہ کے مطابق بھی نہیں چلتا تو وہ بھی شیطانوں کی صف میں شامل ہے اور اس کا کوئی عمل، اس کی کوئی نسبت اس کے کسی کام نہیں آئے گی۔اسے ہر مسلمان منبع اطاعت، پاکباز اور صالح چاہیے جو سر سے لیکر پاؤں تک سراپا اطاعت ہو، اس کا ظاہر وباطن ایک سمت اور واضح ہو اور اس کا مکمل جھکاؤ ، اس کی لگن، اس کی ساری دوڑ دھوپ اس کے دین کی طرف ہو اور اس کے پیارے رسول ﷺ کی کامل اتباع ہواور ان کی سیرت و کردار کا عملی نمونہ ہو۔
ابلیس کے پاس تو بہت سارے عمل، بہت ساری عبادتیں اور رضاتیں بھی تھیں مگر صرف ایک حکم کی نافرمانی میں وہ بھی اس کے کام نہ آئیں، نہ اس کو بچا سکیں۔ ہمارے پلے تو کوئی عمل بھی نہیں ہے اور نہ کوئی اس کی نافرمانیوں کا حساب ہے پھر ہم کیسے یہ توقع رکھتے ہیں کہ رب کی سب عنایات ہمارے بد عمل ، بد اطوار مسلمانوں کیلئے خاص ہیں؟ اللہ کریم نے جہاں بھی اپنی ان عنایات کا ذکر فرمایا ساتھ شرائط رکھیں اور مخاطب کیا قوموں کو چھوڑ کر لوگوں کو ۔ فرمایا الذین ان لوگوں کیلئے جو ہم پر صدق دل سے ایمان لائے، اور تقاضا کیا عَمِلُوْا الصَّالِحَات عمل بھی صالح کیے۔ بعض مفسرین صالح کا ترجمہ نیک کرتے ہیں مگر نیک اور صالح میں بہت فرق ہے۔ ہر صالح انسان نیک بھی ہوتا ہے مگر ہر نیک صالح نہیں ہو سکتا۔ جیسے ہر رسول نبی بھی ہوتا ہے مگرہر نبی رسول نہیں ہو سکتا، بالکل یہی فرق ہے نیک اور صالح میں۔نیکی کا ترجمہ قرآن کریم میں بِرَّ سے ملتا ہے جیسا کہ ارشاد ہے۔
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ o
’’تم کسی نیکی کو نہیں پا سکتے جب تک اللہ عزوجل کی راہ میں وہ چیز خرچ نہ کرو تم تمہیں سب سے محبوب و پسندیدہ ہے۔‘‘
یعنی نیک کام، نیک عمل اپنی سب سے محبوب و پسندیدہ چیز اللہ کریم کی راہ میں دینا ، غریبا و مساکین اور حاجت مندوں پر خرچ کرنا ہے اور صالح لوگوں کا اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ خلوص و محبت، الفت و یگانگت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ وہ مال و ذر اور پسندیدہ چیز تو کیا وہ تو ہمہ وقت اپنے مسلمان بھائیوں پر اپنی جان تک دینے کو تیار رہتے ہیں۔اگر کوئی نیک بننے یا نیکی حاصل کرنے کیلئے اللہ کریم کی راہ میں اپنی پسندیدہ چیز تو خرچ کر دیتا ہے لیکن اگر اس کے دل سے افراد معاشرہ سے بغض و حسد اور کینہ نہیں جاتا تو وہ کبھی صالح کے رتبہ کو نہیں پہنچ سکتا۔ پوراقرآن اللہ کے صالح بندے بننے کا تقاضا کرتا ہے نیک نہیں۔ پورے قرآن میں آپ کو جگہ جگہ یہی الفاظ ملیں گے اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوْا الصَّالِحَات ایمان لائے اور عمل بھی صالح کیے، تقویٰ و پرہیزگاری اپنائی، پاکیزہ گفتار و کردار اپنایا، افراد معاشرہ کے ساتھ باہمی محبت و الفت کا ربط اور اپنے رب کا خوف رکھا، اللہ اور اس رسول ﷺ کی مکمل پیروی کی۔آج دنیا میں کتنے ایسے لوگ ہیں جو ان شرائط پر پورا اترتے ہوں؟ آج دنیا میں کتنے لوگ ہیں صالح عمل کرنے والے، خدا کا خوف رکھنے والے، تقوی و پرہیزگاری اپنانے والے، پاکیزہ گفتار و کردار رکھنے والے ، اللہ و رسول ﷺ کی مکمل اتباع کرنے والے؟
دل پاک نہیں تو پاک ہو سکتا نہیں انسان
ورنہ ابلیس کو بھی آتے تھے وضو کے فرائض بہت
تم علماء پیر و مشائخ کن شیطان صفت لوگوں کو بشارتیں سناتے ہو رب کی جنت و رحمت، بخشش و مغفرت کی؟ سیدنا آدم علیہ السلام ایک بے سمجھے غلطی کی وجہ جنت سے نکل سکتے ہیں اور اس کی آج کی بد عمل گندی اولادہزاروں غلطیاں کرنے کے باوجود آسانی سے جنت چلی جائے گی۔ ذرا اپنی ہوش سنبھالو۔ آنکھیں اور عقل و دانش پر لگے قفل کھول کر قرآن پڑھو اور اس سے سبق سیکھو درس وواعظ اور خطابت کا۔خدا کیلئے اب بس کرو قوم بہت بد عمل ہو چکی، امت بہت غفلت میں جا پڑی تمہاری جنت و رحمت و شفاعت کی باتیں سن سن کر۔ اب خدارا قوم کو سختی سے عمل کی طرف بلاؤ، تقویٰ و پرہیزگاری سیکھاؤ، پاکیزہ گفتار وکردار کا درس دو اور ان پر ایسا خدا کا خوف طاری کرو کہ اس خوف میں مبتلا ہو کر ان کا ظاہر و باطن ایک ہو جائے اور انہیں جلوت و خلوت میں رب یاد رہے۔ایسے بد عمل و بد کردار لوگوں کو جنت و رحمت کی بشارتوں کی ضرورت نہیں خدا کے قہر و غضب سے ڈرانے کی ضرورت ہے۔اگر تم لوگوں میں خدا کا خوف پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو رب کی رحمت ، شفاعت و مغفرت خود بخود ان کا مقدر بن جائیں گی ، معاشرہ بھی سدھر جائے گا اور قوم بھی بد عملی میں نہیں پڑے گی اور ایک نہیں دو جنتوں کے حقدار ٹھہرے گی۔ اپنے اوپر رب کا خوف طاری رکھنے والی امت کیلئے دو جنتیں ہیں۔
وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِo
جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈر رکھتا ہے ہر لمحہ، ہر آن اس پر خوف خدا طاری ہے اس کیلئے دو جنتیں ہیں۔
آپ قوم کو ڈراتے نہیں ہیں، خدا کا خوف و غضب اور قہر یاد نہیں دلاتے چھوٹی چھوٹی غلطیوں اور کوتاہیوں پر۔ آپ رب کی جنت و رحمت ، رضا و خوشنودی کو بہت آسان بنا کے پیش کرتے ہیں اور لوگ بھی اسے آسان لیتے ہوئے من مانی پر اتر آتے ہیں۔ جو ان کے جی میں آئے کرتے ہیں۔ وہ رب کی رحمت ، رضا و خوشنودی کو بہت آسان لیتے ہوئے بد عملی میں جا پڑتے ہیں۔ آپ جتنی مشکل راہ بتاؤ گے لوگ اتنے ہوشیار اور محتاط ہوں گے اور اس کے لئے عمل کریں گے اور بدعملی، گمراہی و ضلالت میں پڑنے سے باز رہیں گے۔علماء و مشائخ اور مولوی حضرات ، جنت کو آسان بنا کے پیش کرنے والو! قرآن سے سبق سیکھو، قرآن سے راہنمائی لو۔ قرآن میں تو رب کی جنت و رضا کو پانے کیلئے بڑی بڑی آزمائشوں اور امتحانوں کا ذکر ہے اور تم بڑی آسان کرکے قوم کو بتاتے ہو۔ قرآن تو کہتا ہے
اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْآ اَنْ یَّقُوْلُوْآ اٰمَنَّا وَھُمْ لَا ےُفْتَنُوْنَo وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِےْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَےَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِےْنَ صَدَقُوْا وَلَےَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِےْنَ
’’کیا لوگ اس گمان میں ہیں کہ اتنی سی بات پر چھوڑ دئیے جائیں گے کہ کہیں ہم ایمان لائے ،اوران کی آزمائش نہیں ہو گی ،اور بیشک اللہ نے ان سے اگلوں کو جانچا (ان کی آزمائش کی کہ ان کے اندر ایمان و یقین کتنا پختہ ہے ، میرے اور میرے دین کیلئے کتنے مصائب و الام برداشت کر سکتے ہیں؟) تو اللہ ضرور (تمہاری بھی آزمائش کرے گا ، دیکھے گا تم کتنے پانی میں ہو)دیکھے گا سچوں کو اور ضرور دیکھے گا جھوٹوں کو۔‘‘ (العنکبوت 2..3:29)
اَمْ حَسِبْتُمْ اِنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا ےَعْلَمِ اللّٰہُ
الَّذِےْنَ جَاھَدُوْا مِنْکُمْ وَےَعْلَمَ الصّٰبِرِےْنَo
’’کیا اس گمان میں ہوکہ جنت میں چلے جاؤ گے ابھی اللہ نے نہ دیکھا اپنی راہ میں کوشش کرنے والوں کو، نہ ان کا امتحان لیا،اور نہ صبر کرنے والوں کی آزمائش کی ۔‘‘ (العمران 142:3)
اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا ےَاْتِکُمْ مَّثَلُ الَّذِےْنَ خَلَوا
مِنْ قَبْلِکُمْ مَسَّتْھُمُ الْبَاْسَآءُ وَالضَّرَّآءُ وَزُلْزِلُوْا حَتّٰی
ےَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِےْنَ اٰمَنُوْا مَعَہ‘ مَتٰی نَصْرُاللّٰہِط
’’کیا اس گمان میں ہو کہ جنت میں چلے جاؤ گے اور ابھی تم سے اگلوں کا سا ماجرا پیش نہ آیا، ابھی تم سے پہلوں کی سی آزمائش نہ ہوئی ، ابھی ان کی طرح تمہارا امتحان نہ لیا گیا کہ انہیں سخت سختی اور شدت پہنچی اور ہلا ہلاکر رکھ دئیے گئے یہاں تک کہ رسول اور ان کے ساتھ کے ایمان والے پکار اٹھے کہ کب آئے گی اللہ کی مدد ؟ (البقرۃ 214:2)
مَاکَانَ اللّٰہُ لِےَذَرَ الْمُؤْمِنِےْنَ عَلٰی مَا اَنْتُمْ
عَلَےْہِ حَتّٰی ےَمِےْزَالْخَبِےْثَ مِنَ الْطَّےِّبِط
’’اللہ عزوجل مسلمانوں کو اس حال پر چھوڑنے والا نہیں جس پر تم ہو ،(ملے جلے دوغلے، حق و باطل ایک ساتھ رکھنے والے، صحیح و غلط ، حلال و حرام میں تمیز نہ کرنے والے۔ وہ اس حال میں تمہیں جنت کی راہ نہیں دکھائے گا جب تک جدا نہ دیکھ لے گندے (منافق کو ) ستھرے سے (مخلص مومن ) سے۔‘‘ (العمران 179:3)
لوگو! قرآن سے درس عبرت لو۔ نہ جنت اتنی آسان ہے اور نہ رب کی رضا کو پانا اتنا آسان ہے جیسے مولوی حضرات بتاتے ہیں۔ رب کی رضا و خوشنودی کو پانے اور اس کی جنت و رحمت کا حقدار بننے کیلئے پہلے قرآن کی منشاء کے مطابق پاکیزہ و صالح مسلمان اور سچے مومن بننا ہو گا۔ یہ بیچارے مولوی حضرات کی مجبوری ہے کہ یہ قرآن کا صحیح اور سخت پیغام نہیں دے سکتے کیونکہ انہیں لوگوں سے کچھ خوش کر کے حاصل ہوتا ہے ڈرا دھمکا کر نہیں۔ لوگو! قرآن کو اپنا راہنما بناؤ، قرآن کو اس کے پورے مفہوم سے سمجھ کر پڑھو اور براہ راست قرآن سے راہنمائی لو، جو تمہاری بالکل صحیح راہنمائی قرآن کرے گا وہ کوئی بڑے سے بڑا ملاں بھی نہیں کر پائے گا۔
آن کتاب زندہ قرآن حکیم
حکمت او لایزال است و قدیم
گر تومی خواہی مسلمان زیستن
نیست ممکن جز بقرآن زیستن

Allah Bakhash Fareedi
About the Author: Allah Bakhash Fareedi Read More Articles by Allah Bakhash Fareedi: 101 Articles with 102977 views For more articles & info about Writer, Please visit his own website: www.baidari.com
[email protected]
اللہ بخش فریدی بانی و مدیر بیداری ڈاٹ کام ۔ ہ
.. View More