آج یکم مئی ہے ،پورا عالم، اُن شہید مزدور رہنماؤں اور
ان گنت کارکنان کی یاد میں تقریبات منعقد کررہا ہے کہ جنہوں نے اب سے ایک
سو اکتیس(131)سال قبل امریکا کے شہر شکاگو میں مزدوروں ،محکوموں اور بے کس
انسانوں کے زندہ رہنے کے بنیادی حق کے حصول کے لئے اپنی جان اور مال کا
نذرانہ پیش کیا،حقوق کی مشعل روشن کی اور تاریخ انسانی میں ہمیشہ ہمیشہ کے
لئے امر ہوگئے۔شکاگو کی مزدور تحریک کو گوکہ عام طور پر مزدوروں کے کام
کرنے کے اوقات کار کے تعین کی جدوجہد سمجھا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ
تحریک ،بنیادی انسانی حقوق کا پرچم تھی جس کو مزدوروں کے لہو نے سرخ رنگ
عطاکیا۔
1886میں یورپ اور امریکا کے صنعتی مزدور بھی دیگر براّعظموں کے مزدوروں کی
طرح نیم غلامی کے دور میں زندگی بسر کررہے تھے۔اُن سے سولہ(16)سے اٹھارہ
گھنٹوں تک مسلسل کام لیا جاتا تھا جبکہ معاوضہ اتنا ہی دیا جاتا تھا کہ وہ
بمشکل جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھ اور غلاموں کی اگلی نسل پیدا کرنے کے
قابل رہیں۔اس صورتحال کے خلاف مزدوروں کی جنگ گوکہ طویل عرصہ سے جاری تھی
لیکن یہ اپنے عروج پر اپریل 1886کو پہنچی کہ جب امریکن لیبر فیڈریشن کی
جانب سے الٹی میٹم دیا گیا کہ یکم مئی سے مزدوروں کے اوقات کار آٹھ گھنٹہ
یومیہ مقرر کئے جائیں۔اس قرارداد نے صنعتوں کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا اور
مزدوروں میں یہ سوچ پیدا ہوئی کہ انہیں بھی دیگر طبقات کی طرح ایک دن میں
8گھنٹے کام ،8گھنٹے آرام اور 8گھنٹے کے لئے سماجی امور (Socialization) کا
حق حاصل ہونا چاہئیے۔امریکا اور کینیڈا کے مزدور اور اُن کے قائدین نے اس
مقصد کے حصول کے لئے ایک زبردست تحریک چلائی مگر شکاگو میں مزدور تحریک کا
جوشُ و خروش اپنے عروج پر تھا ۔اپریل کے آخری ہفتہ میں تحریک میں زبردست
اُبھار آیا اور یکم مئی 1886کو مزدوروں کا ایک بہت بڑا جلوس نکالا گیا جس
کے شرکاء کی تعداد 4لاکھ سے بھی زائد تھی اور وہ مکمل طور پر پُر امن تھا
کہ اچانک مزدوروں کے جلوس کے اند رسے مبینہ طور پر ایک دستی بم پولیس کے
دستہ پر پھینکا کیا جس کے نتیجہ میں ایک پولیس اہلکار موقع پر ہلاک
ہوگیا۔بس پھر کیا تھا گویا یہ اشارہ تھا کہ نہتے مزدوروں پر ٹوٹ پڑو ۔پولیس
نے وحشیانہ انداز میں فائرنگ کے ذریعہ مزدوروں پر قیامت برپا کردی۔ظلم خود
کیا مگر قتل کے جھوٹے مقدمات مزدور رہنماؤں پر قائم کئے گئے۔1887میں عدالت
نے فیصلہ کا اعلان کیا جس کے مطابق مزدور رہنماؤں اسپائز ،اینجل،پارسنز اور
فشر کو 11نومبر 1887کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔وہ ایک تاریخ سازدن تھا کہ
جب مزدور رہنما اسپائز نے فیصلہ سننے کے بعد عدالت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
کہ ’’اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ ہمیں تختہ دار پر چڑھانے کے بعد تم مزدور
تحریک کا خاتمہ کردو گے تو پھر شوق سے ہمیں پھانسی پر چڑھادو مگر مت بھولو
کہ تم آگ کے شعلوں پر چل رہے ہوگے ،تمہارے ہر طرف آگ اور شعلے ہوں گے یہ
ایک لاوا ہے جسے تم کبھی بجھا نہیں سکتے۔‘‘شہید مزدور رہنما کے یہ کلمات
حقیقت بن چکے ہیں ۔دنیا بھر کے انقلابیوں نے اُس کے وژن اور سرخ پرچم کو
تھام لیا۔1886میں شکاگو کے نہتے مزدوروں کا قتل عام کرنے اور کروانے والوں
کو تاریخ نے مجرم قراردیا مگر پھانسی چڑھنے والے عوام کے ہیرو قرار پائے۔
آج 2017میں پاکستان کا محنت کش طبقہ اپنی تاریخ کے ایک خاموش بحران سے گزر
رہا ہے ۔بیس کروڑ کی آبادی کے اس ملک میں چھ کروڑ پچیس لاکھ کی تعداد میں
ہونے کے باوجود ملکی سیاست اور پارلیمان میں ان کی کوئی نمائندگی
نہیں۔ہزاروں لیبر فیڈریشنز،ٹریڈ یونینز اور کانفیڈریشن کی موجودگی کے
باوجود بھی صرف ایک فیصد مزدور ٹریڈ یونینز سے وابستہ ہیں ۔شکاگو کے
مزدوروں نے 131سال قبل آٹھ گھنٹے یومیہ اوقات کار مقرر کروائے تھے مگر وطن
عزیز میں کُھلے عام مختلف اداروں میں 12گھنٹے مسلسل کام کرنے پر غریب مزدور
مجبور ہے۔غیر ہنر مند مزدور کی کم از کم اُجرت تو مقرر کردی جاتی ہے مگر اس
پر عملدرآمدکا نظام انتہائی غیر موثر اور بتایا جاتا ہے کہ 70%مزدور کم از
کم اُجرت سے بھی کم پر اپنی زندگی کی گاڑی کھینچ رہے ہیں ۔ملازمتوں کے
ٹھیکیداری نظام ،تھرڈ پارٹی ایمپلائمنٹ سسٹم اور آؤٹ سورسنگ کے طریقہ کار
نے سرمایہ دارانہ نظام کی لوٹ کھسوٹ اور غربت کی سطح میں اضافہ کیا ہے اور
حقیقی محتاط اندازہ کے مطابق ہمارے مُلک کی کل آبادی کا کم از کم 60%فی صد
خِط افلاس سے نیچے بھوک و افلاس میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
دستور پاکستان میں اٹھارویں ترمیم کے بعد شعبہ محنت مکمل طور پر صوبوں کو
منتقل ہوچکا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ محکمہ محنت سے وابستہ لیبر ویلفیئر کے
کئی ادارے تاحال صوبوں کو منتقل نہیں کئے گئے جو کہ مذکورہ آئینی ترمیم کی
اسپرٹ کے خلاف ہے۔پرائیویٹائزیشن کے عمل کے نتیجہ میں جہاں ایک جانب
بیروزگاری پھیلی تو دوسری جانب نجکاری کی زد میں آنے والے ان اداروں میں
ملازمین کی ٹریڈ یونینز کی کمر توڑ دی گئی ۔پاکستان کے پرائیویٹائزڈ کمرشل
بنکس میں نجکاری سے قبل ٹریڈ یونین کیڈر سے تعلق رکھنے والے ملازمین کا
تناسب مجموعی افرادی قوت کا 70فیصد سے زائد تھا جو اب گھٹ کر صرف 12سے
15فیصد رہ گیا ہے ۔گذشتہ چھبّیس(26) سالوں سے کمرشل بنکس میں غیر اعلانیہ
طور پر ٹریڈ یونین کیڈر سے تعلق رکھنے والی ملازمتوں پر پابندی عائد ہے اور
یوں وہاں ٹریڈ یونین سسک سسک کردم توڑ رہی ہے اور کوئی پرسان حال نہیں۔
ٹریڈ یونین تحریک کی بحالی کے لئے مزدور فیڈریشنز اور مزدور حُقوق کے تحفظ
کے لئے کام کرنے والی متعدد غیر سرکاری تنظیمیں سرگرم عمل ہیں جن میں
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ(پائلر) ،ناؤ
کمیونیٹیز،نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن،ورکرز ایجوکیشن اینڈ ریسرچ آرگنائزیشن
(WERO)،ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (HRCP) ،عورت فاؤنڈیشن،ہوم بیسڈ ویمنز
ورکرز فیڈریشن (HBWWF)،ہوم نیٹ پاکستان اور کئی دیگر ادارے مصروف عمل ہیں
مگر یہ کوششیں اور کاوشیں تاحال بارآور ثابت نہیں ہورہیں اور ٹریڈ یونین
تحریک مسلسل انحطاط کا شکار ہے۔اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد مختلف صوبائی
حکومتوں نے محنت کشوں کے حقوق کے حوالہ سے قانون سازیاں کی ہیں جن میں صوبہ
سندھ سرفہرست ہے اس کے باوجود ان کے مثبت نتائج کے آنے میں ابھی بہرکیف
خاصا وقت لگے گا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ایک سو اکتیسویں یوم محنت کا پیغام پاکستان کے محنت کشوں
اوراُن کی تنظیموں کے لئے یہ ہے کہ وہ منظم ،یکجا اور اپنی بکھری ہوئی قوت
کو یکجا کرنے کیلئے اپنی کاوشیں کو تیز اورمربوط کریں اور کسی بھی حال میں
مایوسی کو اپنے قریب پھٹکنے نہ دیں کیونکہ کامیابی کاواحد راستہ یہی
ہے۔دوسری جانب ہم اشرافیہ ،صنعت کاروں اور سرمایہ داروں کو بحیثیت مجموعی
اور ان طبقات میں مثبت سوچ رکھنے والے کو بالخُصوص یہ مشورہ دیں گے کہ وہ
بھی آگے بڑھیں اور ملکی آبادی کی 30فیصد موثر افرادی قوت کو اُن کے قانونی
حقوق کی ادائیگی میں اپنا کردار ادا کریں کیونکہ بنیادی طور پر ایک مطمئن
کارکُن ہی ایک پائدار اور صنعتی امن کا ضامن ہوتا ہے۔
ہم کو شاہوں سے عدالت کی توقع تو نہیں
آپ کہتے ہیں تو رنجیر ہلادیتے ہیں |