یوں تو اقوام متحدہ اور دنیا کی دیگر حکومتوں کے
زیرانتظام ہر سال مزدوروں کا عالمی دن بڑے اہتمام سے منایا جاتا ہے لیکن
شکاگو کے مزدوروں کی قربانی کے دن سے لے کر آج تک مزدور کے مسائل اور ان کی
زندگی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ جس کی وجہ سے دنیا آج تک امن و سلامتی کی
معراج سے کوسوں دور ہے۔یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ دنیا میں امن کے قیام کے
لئے جہاں دیگر عوامل کا ہونا ضروری ہے۔ وہاں مزدور کے بنیادی حقوق کا حصول
اصل وجہ ہے۔
دنیابھر کے مزدوروں ، محنت کشوں، بوڑھوں ، بچوں ، عورتوں اور دیگر مظلوم و
کمزور طبقات کی جائز ، منصفانہ حقوق سے محرومی ، عالمی اجتماعی سطح پر عدل
و انصاف کی عدم دستیابی، معیشت پر طاقتور ملکوں کا کنٹرول ، ساری دنیا کے
معاملات کا فیصلہ اپنی مرضی سے کرنے کے لئے چند ملکوں کو ویٹو کا اختیار
اور دنیا کے اکثر ملکوں میں حوصلہ شکن ناخواندگی جیسے عوامل عالمی امن کا
خواب شرمندہء تعبیرنہ ہونے کی وجوہات ہیں۔
عالمی امن و سلامتی کا حصول لازم نوع انسانی ہے اسے مقام تکمیل تک پہنچانے
کے لئے بیداری ٔ فکر کا انقلاب انتہائی اہم ہے اقوام متحدہ کی جانب سے
عالمی امن کے قیام کے لئے اقوام میں شعور و آگہی کی جانب پیش رفت اہم سنگ
میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ دنیا کے لئے امن کی اہمیت و ضرورت سے ہر گز انکار
ممکن نہیں ۔ آج کا انسان اگر اس کا حل نکال سکے اور امن کی معراج کو حاصل
کرلے تو دنیاجتنی آرام دہ ، حسین اور جنت نظیر بن جائے گی اس کا اندازہ
نہیں لگایا جا سکتا۔چونکہ اقوام متحدہ عالم انسانیت کے مشترکہ مفادات کا
حامل ادارہ ہے اس لئے اس کے تعمیراتی اور مثبت پروگراموں کی نہ صرف حوصلہ
افزائی ضروری ہے بلکہ عملی طور پر بھی ان میں اپنی صلاحیتوں کو شامل کیا
جائے ۔ اقوام متحدہ اور عالمی اجتماعی امن کی خواہش مند طاقتوں کے لئے یہ
لمحہ فکریہ ہے کہ وہ جنگ و جدل ، دہشت گردی، انتہاپسندی اور تشدد کو ختم
کرتے ہوئے کس طرح دنیا بھر میں امن و سلامتی کا انقلاب برپا کر سکتے ہیں ۔
اس کے لئے ان کے بنیادی عوامل کا خاتمہ کرتے ہوئے جدید علوم پر تحقیق و
جستجو کے ساتھ ساتھ سائنسی بنیاد پر انسان کی روحانی خواہشات و ضروریات
پوری کرنا اور محنت کشوں کے مسائل کا حل نہائت ضروری ہے ۔عالمی اجتماعی
مقاصد کے حصول کے لئے کمپیوٹر ٹیکنالوجی سے بھی مدد حاصل کی جاسکتی ہے۔ یوں
تو کمپیوٹر انسانی دماغ پر حاوی نہیں ہو سکتا ۔ کیونکہ یہ بجائے خود انسانی
دماغ کی ایجاد ہے۔ لیکن اس کے باوجود کمپیوٹر بھی انسانی دماغ کے لئے غلط
اور صحیح راستہ متعین کرنے میں معاون ہوسکتا ہے۔ عالمی اداروں اور اقوام
متحدہ کو چاہیے کہ وہ ذرائع ابلاغ کے ذریعہ دنیا کو امن ، محبت اور اخلاق
کا درس دیں ۔ انسان کے دل میں قربانی کا جذبہ بیدار کیا جائے ۔ ترقی پذیر
ملکوں کی معاشی ، اقتصادی پسماندگی کو دور کرنے کی مخلصانہ کوششیں کی جائیں
۔ عالمی اداروں اور ممالک میں اقوام متحدہ کا کردار خصوصی اہمیت کا حامل ہے
اسے کمزور یا ختم کرنے کی بجائے زیادہ فعال اور مضبوط بنایا جائے ۔اسلام کی
تعلیمات کا بنیادی نکتہ اور عقیدہ ہے کہ اصل اور بڑی طاقت صرف اﷲ تعالیٰ کی
ہے اس کے بعد اگر کوئی بڑا یا چھوٹاہے تو وہ اپنے کردار و عمل اور پرہیز
گاری کی بنیاد پر ہے۔ انسان کے لئے کردار کا عملی نمونہ ہونے کی وجہ سے ہی
اسے تاریخ میں بلند مرتبہ اور عزت کا مقام حاصل ہو سکتا ہے ۔ مادی وسائل
اور قوت کی فراوانی سے انسان یا کسی ریاست کو دنیا پر اجارہ داری کا حق
نہیں دیا جاسکتا۔ عالمی اجتماعی ادارے دنیا میں امن کے قیام اور حصول انصاف
کو ممکن و سہل بنانے کے لئے وجود میں آتے ہیں ۔ ان کے وجود کو برقرار رکھنے
کے لئے اجتماعی سوچ وفکر میں ہم آہنگی نہایت ضروری ہے۔اگر اجتماعی اور
مشترکہ وسائل پر چند ملک اپنے اثر و رسوخ سے تسلط جمالیں اور اپنی من مانی
شروع کر دیں تو عالمی امن اور چھوٹی قوتوں کے لئے حصول انصاف خطرے میں پڑ
جاتا ہے ۔ جس سے قومی سلامتی کے عالمی ادارے کی تخلیق کا مقصدکمزور ہونے
لگتا ہے۔ ایسی صورت میں اس کے اعتماد کو بحال کرکے مزید بلند کیا جائے۔
تاکہ دنیا بھر کے انسانوں کو امن، چین اور انصاف نصیب ہو۔ اقوام متحدہ کے
علاوہ ہر فرد اور ملک کی انفرادی طور پر بھی یہ ذمہ داری ہے۔ کہ وہ دنیا کو
دہشت گردی، انتہا پسندی، ظلم اور ناانصافی کے عفریت سے نجات دلائیں ۔اور اس
کے لئے نہ صرف یہ کہ عالمی سطح پر مزدوروں کا دن منایا جائے ۔ بلکہ ان کے
حالات سدھارنے کے لیئے اقوام متحدہ کے ادارے کو ہنگامی بنیادوں پر عملی
اقدامات اٹھانے چاہییں۔عالم انسانیت کو تباہی سے بچانے کے لئے مشرق و مغرب
کے مابین ہر قسم کی تفریق سے بالا تر ہو کر اتحاد ، دوستی اور امن کے فروغ
کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں کرہ ارض کے تمام دانشوروں کو ایک پلیٹ فارم پر
اکٹھے ہو کر غور فکر شروع کر دینا چاہیے ۔ کہ انسان کو کس طرح سے ذلت و
رسوائی کی دلدل سے نکالنا ہے۔ کیونکہ جب انسان ذہنی پستی کے آخری کنارے پر
پہنچ جائے تو اس پر شیطانی قوتیں حاوی ہو جاتی ہیں پھر وہ اس خوبصورت ،
سرسبز وشاداب اور باغوں و بہاروں سے مزین گلرنگ سرزمین کو آگ کے شعلوں کی
نذر کر دیتا ہے جس سے اس کے سمندر زہر آلود اور ہوائیں خوفناک طوفان بن
جاتی ہیں ۔ لہلہاتے کھیت مرجھا جاتے ہیں چہچہاتے پرندے افسردہ ہو جاتے ہیں
درخت خزاں رسیدہ اور شہر ویران ہوجاتے ہیں خطہ ارض سوگوار ہو جاتا ہے اور
اس کی خوبصورتی انسان کی حرص و ہوس کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ ضمیر مردہ ہو کر
انسان کو درندہ صفت بنا دیتا ہے اور وہ مہذب انسان کے روپ میں خونخوار
بھیڑیا بن کر تعمیری اور مثبت فکرو عمل کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے اس
طرح وہ امن و سلامتی کے بجائے ظلم و ناانصافی اور جنگ کے راستے پر چل نکلتا
ہے ۔ انسان کو تخریب ، بدامنی اور شیطانی سوچ سے دور رکھنے کے لئے ناگزیر
ہے کہ دنیا میں جنگی ہتھیاروں کے بجائے امن و محبت اور سلامتی کے سامان
تیار کئے جائیں۔ ہر چھوٹا بڑا ہتھیار بناتے وقت صرف یہ سوچا جائے کہ اس سے
کئی انسانی جانیں ضائع ہوں گی ۔جب تک نفرت ، حقارت ، ظلم و ناانصافی اور
نسلی امتیاز کو اپنے دل سے نہیں نکالا جائے گا زمین پر امن ، محبت اور
دوستی کی فصل کیسے اُگے گی ۔ اقوام متحدہ کو ایک ایسی بزم شوریٰ کے روپ میں
ڈھالنا ضروری ہے جو اعلیٰ ترین اخلاقیات کی بنیاد پر انسانوں کو ایک ایسے
منشور پر لاسکے جو ہر چھوٹے اور بڑے کے لئے قابل قبول و قابل عمل ہو۔اس طرح
مزدوروں کے ساتھ ساتھ تمام عالم انسانیت کے مسائل بھی حل ہوسکیں گے۔
|