استقبال ِ رمضان

چند دن کی مسافت کے بعد ہم رمضان کے بابرکت مہینے سے قریب ہونے والے ہیں ۔ ہمارے سروں پر ایک ایسا مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے جو اپنی عظمت میں اپنی مثال آپ ہے جس میں جنت کے تمام دروازے کھول دئے جاتے ہیں ، جہنم کے ہر دروازے پر تالے ڈال دئے جاتے ہیں جبکہ سرکش شیاطین کو جکڑ کر سمندروں کی تہہ میں غرق کردیا جاتا ہے ، جس کی ہر رات منادی کی جاتی ہے کہ کہ ہے کوئی خیر کا طلب گا ر، ہے کوئی نجات کا چاہنے والا ، آؤ اور آگے بڑھ کر خیر پالو ، نجات حاصل کرلو، اس مہینہ کی ایک رات ہزار مہینوں سے افضل قرار دی گئی ہے جس میں روح الامین فرشتوں کے ساتھ زمین پو اترتے ہیں اور اﷲ کی خوشنودی کے طلب گاروں کی بکشش کاسامان کرتے ہیں جو کوئی اس خیر سے محروم ہو ا وہ واقعی محروم ہوگیا۔

یہ اﷲ کاپسندیدہ مہینہ کہلاتا ہے اور اس کا استقبال بھی اسی طرح کیا جانا لازم ہے جس طرح ہمارے گھروں میں کسی مہمان بالخصوص وہ مہمان جو عزیز ترین سمجھا جاتا ہے اوراس کی آمد متوقع ہو تی ہے تو ہم اپنے گھر کو سجھاتے ہیں ، ہمارے چہرے خوشی سے چمکنے دھمکنے لگتے ہیں ااور ہم مہمان کی آمد پر اپنی آنکھیں فرش راہ کرتے ہیں اسی طرح ہم مسلمانوں کیلئے یہ سب سے عزیز اور محترم مہینہ ہے ۔ اس کا اتقبال بھی اسی طرح کیا جانا ہم پر فرض ہے ۔ اﷲ والے رمضان المبارک کا چھ ماہ قبل ہی سے انتظار شروع کردیتے تھے۔ مشہور تابعی معلی بن فضل رمضان المبارک کے بارے میں صحابہ کرام ؓ کے اشتیاق کو بیان کرتے ہیں کہ صھابہ کرام ؓ چھ ماہ پہلے ہی سے یہ دعا کرتے تھے کہ ۔ اے اﷲ ! ہمیں ماہ رمضان کی سعادت نصیب فرما ، پھر جب رمضان گذر جاتا تو بقیہ چھ ماہ دعا کرتے کہ اے رب العزت ! جب اعمال کی تونے توفیق دی وہ بھی قبول فرما ۔حضور نبی کریم ﷺ رمضان المبارک سے اتنی زیادہ محبت کرتے تھے کہ اکثر اسے پانے کی دعا کرتے تھے ۔ نبی مہربان ﷺ صحابہ کرام ؓ اور صلحائے امت آمد رمضان کے اس قدر منتظر رہتے تھے کہ یہ دعاکرتے ۔ اے اﷲ ! ہمارے لئے رجب اور شعبان کے مہینے میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان کے مہینے تک پہنچا۔(مشکوٰۃ)

ام المومنین حضرت ام سلمہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے حضور نبی کریم ﷺ کو مسلسل دوماہ تک روزے رکھتے نہیں دیکھا مگر آپ ﷺ شعبان المعظم کے مبارک ما میں مسلسل روزے رکھا کرتے کہ وہ رمضان سے مل جاتا ۔ اﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ روزہ اور قرآن دونوں بندے کے حق میں سفارش کریں گے۔ روزہ عرض کرے گا ؛ اے میرے رب ! میں نے اس بندے کو دن میں کھانے پینے اور نفس کی خواہشات پوری کرنے سے روکے رکھا ، اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما اور قرآن کہے گا؛ اے میرے رب ! میں نے اس کو رات سونے اور آرام کرنے سے روکا ، اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما، چنانچہ دونوں کی سفارش قبول ہوجائے گی ۔ (مسند احمد)
ن
بی مہربان ﷺ سے پوچھا گیا کہ ؛ روزہ داروں میں سب سے زیادہ اجر کسے ملے گا، فرمایا ۔اﷲ کا زیادہ ذکر کرنے والے کو ۔ ( مسند احمد)

روایا ت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نیکیاں کمانے کا مہینہ ہے ، اس ماہ نوافل کا اجر فرض کے برابر جبکہ فرض کا اجر ستر گنا کردیا جاتا ہے ۔ اس ماہ کے آخری عشرے میں ایک عظیم رات کا نزول ہوتا ہے جو ہزا ر راتوں سے بڑھ کر ہے ، اس میں اﷲ کی جناب سے خاص برکتوں اور رحمتوں کا نزول ہوتا ہے ۔ رسول ﷺ نے فرمایا کہ ؛ لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرو۔

ماہ مبارک کی آمد سے قبل اس کے مقام ، اس کی عظمت ، اس کی فضیلت ، اس کے مقصد اور اس کے پیغام کو ذہن میں تازہ کرلیا جائے تو اس کی برکت اور فضیلت سے بھر پور فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے ۔ ہم اپنی زندگی ، صحت اور جوانی میں اس ماہ مبارک کو غنیمت جان لیں کہ ہمیں ایک بار پھر نجات پانے کا موقع مل رہا ہے ۔ اپنے گناہوں سے سچی اور پکی توبہ کا ایک اور ذریعہ دستیاب ہوررہا ہے ۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ ہم خود کوواجبات اور مستحبات کی ادائیگی اور مکروہات اور لغویات سے اجتناب کا عادی بنالیں ۔ نامز کی پابندی کی جائے ، تلاوت کلام پاک کریں ، قرآن کریم کو ترجمے سے پڑھنے اور تفسیر کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کریں ۔ قیام الیل کی رمضان میں بڑی فضیلت ہے اور ثواب کے حصول کا بہترین طریقہ ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے رویت ہے کہ نبی ﷺ لوگوں کو رمضان کی راتوں میں ناز کی ادائیگی کی ترغیب دیا کرتے تھے ۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ جس نے رمضان المبارک میں ثواب کیلئے حالت ایمان کے ساتھ قیام کیا توا س کے سابقہ تمام گناہ بخش دئے جاتے ہیں ۔ یہ ماہ تقویٰ اور پرہیز گاری اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ صلہ رحمی کا درس بھی دیتا ہے ، رسول خدا رحمت العالمین یوں تو غیر رمضان میں بھی سخاوت میں کم نہیں تھے البتہ رمضان میں اس میں نمایاں تیزی دکھائی دیتی تھی ، آپ ﷺ ماہ رمضان میں خزانوں کے منہ کھول دیتے اور بے کس اور نادار لوگوں کی بھر پور معاونت فرمایا کرتے ۔یہ مہینہ جہاں ثواب کمانے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے وہیں خلق خدا سے حسن سلوک کی تعلیم بھی دیتا ہے ۔ روزے میں بھوک پیاس کا احساس اس جانب بھی ہماری توجہ مبذول کرواتا ہے کہ معاشرے نادرار افراد کس طرح بے کسی کی زندگی گذار رہے ہیں ان کی داد رسی پر خصوصی توجہ کیسے دی جاسکتی ہے ۔ ہمیں اپنے کردار اور اخلاق سے کس طرح خلق ِ خدا کو فائدہ پہنچانا ہے یہ روزہ ہی ہمیں بتلاتا ہے ۔

آئیے ہم اﷲ کے اس عزیز ترین مہینے کا استقبال شایان شان طریقے سے کریں اور اپنے معاملات کا تعین اس طرح سے قبل از رمضان کرلیں کہ زیادہ سے زیادہ وقت عبادات اور دینی مشاغل کیلئے فارغ کرنے کی کوشش کریں اور اپنے رب کو راضی کرتے ہوئے اپنی نجات کا باعث بنالیں ۔
 

Mujahid Shah
About the Author: Mujahid Shah Read More Articles by Mujahid Shah: 60 Articles with 43333 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.