﴾ محبوب کریم ﷺ نے فرمایا: بے شک اﷲ تعالیٰ نصف شعبان
کی رات کو آسمان دنیا پر نزول فضل رحمت فرماتا ہے اور بنی کلب کی بکریوں کے
بالوں سے زیادہ لوگوں کی بخشش فرماتا ہے ۔(ترمذی و ابن ماجہ حدیث ۱۳۸۵)معلوم
ہوکہ بنی کلب عرب کا وہ قبیلہ تھا جہاں بکریاں زیادہ پالی جاتی تھیں ۔
اعلان خدا وندی: بروایت حضرت علی ؓ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ جب شعبان کی
پندرہویں رات ہو تو اس میں قیام کرو(نوافل پڑھو) اور دن کو روزہ رکھو بے شک
اﷲ تعالیٰ اس رات (ازراہِ شفقت )آسمانِ دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے (یعنی
رحمت کے لحاظ سے اپنے بندوں کے قریب ہوتا ہے) اور غروب آفتاب سے طلوع آفتاب
تک فرماتا ہے:اَلَا مِنْ مُّسْتَغْفِرْفَاَغْفِرْلَہٗ ہے کوئی طالب بخشش (معافی
چاہنے توبہ کرنے والا) جسے میں بخشش دوں ۔اَلَا مِنْ مُسْتَرْزِقٍ
فَاَرْزُقْہٗ ہے کوئی طالبِ رزق جسے میں روزی دوں ۔اَلَا مِنْ مُّبْتَلِی
فَاَعَافِیْہ کیا کوئی آفت (مصیبت زدہ) ہے جسے میں عافیت عطا کردوں۔ ہے
کوئی فلاح حاجت و طلب والا(ابن ماجہ)
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلا ئیں کسے رہ روِ منزل ہی نہیں
اس حدیث پاک میں توبہ کا ذکر پہلے ہے قرآن میں بہت سی آیتیں توبہ کے بیان
میں موجود ہیں۔
اہلِ ایمان و اہلِ تقویٰ پر بھی توبہ و استغفار فرض ہے: ارشاد باری تعالیٰ
ہے نَبّئُی عِبَادِیْ اَنِّی اَنَا لْغَفُوْرُ الرَّحِیْم0وَاَنَّ عَذَابِی
ھُوَ لْعَذَبُ الْعَلِیْم0(ترجمہ: خبر دو میرے بندوں کو کہ بے شک میں ہی
ہوں بخشنے والا مہربان۔اور میرا ہی عذاب دردناک عذاب ہے (القرآن ،سورہ حجر۱۵/آیت
۴۹،۵۰)
ایک بار نبی کریم ﷺ جماعت صحابہ پر گزرے جو آپس میں ہنس رہے تھے ۔آپ ؐنے
صحابیوں سے فرمایا تم کو ہنستا ہوا کیوں دیکھتا ہوں۔ صحابہ کرام اس عتابانہ
کلام سے ڈر گئے۔ اسی وقت یہ آیتیں اتریں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایمان کا
دارومدار خوف و امید پر ہے۔ اس کی رحمت سے امید یعنی توبہ و معافی مانگنے
پر بخشش کا یقین اور اس کے عذاب سے ڈر و خوف لازم ہے۔ (نور العرفان صفحہ۱
۴۲)توبہ میں تین چیزوں کا جمع ہونا ضروری ہے۔ایک یہ کہ جو غلطی اور گناہ
سرزد ہوجائے اس پر ندامت اور شرمندگی کرے دوسرے یہ کہ جو گناہ سرزد ہوا ہے
اس کو فوراًچھوڑ دے تیسرے یہ کہ آئندہ گناہ نہ کرنے کا مکمل عزم و ارادہ
کرے۔ جب اس طرح توبہ کرلے تو توبہ کرنے والا شخص گناہ سے پاک ہوگیا۔حدیث
شریف میں ہے :اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَّا ذَنْبَ لَہٗ(ابن ماجہ
کتاب الزہد باب ذکر توبہ، حدیث نمبر ۴۳۰۴)جس نے گناہ سے توبہ کر لیا وہ
ایسا ہو گیا جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہیں۔ مولائے رحیم کا کرم دیکھئے صرف
یہ ہی نہیں کہ اس کی توبہ قبول فرمایا بلکہ وہ گناہ بھی معاف کردیا اور
نامہ اعمال سے وہ گناہ مٹا دیا۔ یہ اس کی رحمت ہی تو ہے ۔ ہم سب کو خصوصیت
کے ساتھ نوجوانوں کو غور کرنا ہے کہ اس ’’شب برأت ‘‘ میں اپنے گناہوں سے
توبہ کریں۔ اﷲ کی بارگاہ میں مغفرت چاہیں۔ جب رحمت الہٰی خود بندوں کو بلا
رہی یہ اس کا کرم و احسان ہے۔
جوانی میں توبہ کرنا پیغمبروں کی سنت ہے: صوفیا کرام فرماتے ہیں :جب انسان
گناہ گار ہوجائے ،گناہ کا زہر چڑھ جائے تو فوراً توبہ و استغفار کا تریاق (زہر
کی دوا جو فوراً اثر کرتی ہے) استعمال کرو،اسی وقت اس گناہ کا زہر اتر جائے
گا۔ حدیثوں میں جوانی کی توبہ اور گناہ سے فوراً توبہ کی فضیلت موجود ہے۔
شیخ سعدی شیرازیؒ فرماتے ہیں:وقت پیری گرگ ظالم می شود پرہیز گار در جوانی
توبہ کردن شیوۂ پیغمبری(جوانی میں توبہ کرو یہ پیغمبروں کا طریقہ ہے بڑھاپے
میں تو ظالم بھیڑیا بھی متقی و پرہیزگار بن جاتا ہے)۔اس لئے کہ اس وقت نہ
منھ میں دانت رہے نہ پیٹ میں آنت رہیں۔ اب تو ظلم کرنے کی طاقت ہی نہیں ۔
اس لئے اب پرہیزگار نہیں بنے گا تو اور کیا بنے گا۔ آدمی جوانی میں توبہ
کرے جب کی قوت اور طاقت موجود ہے اور گناہوں کا تقاضہ بھی شدت سے پیدا
ہورہاہے لیکن یہ سب ہوتے ہوئے اﷲ کے خوف سے آدمی گناہوں سے بچ جائے یہ کمال
ہے۔ توبہ کے لئے بوڑھے ہونے کی راہ دیکھنا یا متبرک دن و راتوں کا انتظار
کرنا سستی اور کاہلی ہے۔ ہم اور خاص کر ہمارے نوجوانوں کی طبیعت میں سستی
اور کاہلی آگئی ہے۔ ہم آج کے کام کل پر ٹالتے ہیں۔ ہم ’’پھر کبھی‘‘ کا شکار
ہیں۔ٹال مٹول ، تاخیر، تساہلی، سست روی ہمارے دین و دنیا و مستقبل کے لئے
انتہائی تباہ کن ہیں۔یہ نشہ آور چیزوں سے زیادہ نقصاندہ ہیں۔
امام عبد الرحمن ابن جوزی ؒ (۵۱۱۔۵۹۷ھ) نے اپنی کتاب منہاج القاصدین میں
توبہ کے باب میں الگ باب قائم فرمایا ہے۔ باب تسویف(آئندہ کر لوں گا) کے
بارے میں لکھا ہے: آئندہ پر ٹالنے والے بالعموم ہلاک ہوتے ہیں کیونکہ وہ
ایک ہی جیسی دو چیزوں میں فرق کر جاتے ہیں۔ آئندہ پر ٹالنے والے کی مثال اس
آدمی کی سی ہے جیسے ایک درخت ۔وہ دیکھے کہ درخت بہت مضبوط ہے، شدید مشقت سے
اکھڑے گاتو وہ کہے کہ میں ایک سال بعد اس کو اکھاڑ نے آؤں گا۔ وہ یہ نہیں
جانتا کہ درخت جتنی مدت باقی رہے گا، مضبوط ہوتا جائے گا اور خود اس کی عمر
گزرتی جائے گی، وہ کمزور ہوتا جائے گا۔ جب وہ طاقت ور ہونے کے باوجود درخت
کی کمزوری کی حالت میں اسے نہیں اکھاڑ سکتا تو جب وہ کمزور ہوجائے گا اور
درخت زیادہ طاقتور تو پھر اس پر کیسے غالب آسکے گا۔
ایک حدیث پاک میں ہے کہ ٹال مٹول شیطان کاشعار ہے جس کو وہ مسلمانوں کے
دلوں میں بٹھاتا ہے۔ امام جوزی ؒ فرماتے ہیں کہ عمر کے سانسوں میں ہر سانس
ایک نفیس جوہر ہے جس کا معاوضہ کوئی چیز نہیں ہوسکتی۔ مسلمانوں کو اپنی جان
کی خاطر اپنی جان کو آخرت کی خاطر ،دنیا کو بڑھاپے سے پہلے جوانی کو اور
موت سے پہلے زندگی کو کام میں لانا چاہئے۔داناؤں کی رجسٹروں میں ’’کل‘‘ کا
لفظ کہیں نہیں ملتا۔ البتہ بے وقوفوں کی جنتریوں میں یہ بکثرت مل سکتا ہے۔
کل کا لفظ ایسے لوگوں کے لئے ہے جو صبح سے شام تک خیالی پلاؤپکاتے رہتے ہیں
اور شام سے صبح تک خواب دیکھتے رہتے ہیں۔
شداد بن اوس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: عقل مند وہ آدمی ہے جو
اپنے نفس کو اپنے تابع رکھے اور موت کے بعد کام آنے والے عمل کرے اور عاجز
وہ ہے جو اپنے نفس کی خواہشات کے پیچھے لگ جائے اور اﷲ سے بھلائی کی امید
رکھے۔
حضرت عمرؓ نے فرمایا :قیامت کا حساب ہونے سے پہلے اپنے نفس کا محاسبہ کرو
اور اعمال کا وزن ہونے سے پہلے ان کو تولو اور بڑی پیشی کے لئے تیاری کرو۔
سورہ حاقہ میں ارشاد ربانی ہے: اس دن تم پیش کئے جاؤگے ،تم سے کوئی چیز
مخفی نہ رہے گی۔
توبہ ایمان والوں کے لئے تحفہ ربانی ہے: مولائے رحیم کا ارشاد ہے۔ھُوَ
الَّذِیْ یَقْبَلُ التَّوْبَۃَعَنْ عِبَادِہٖ وَیَعْفُوْعَنِ السَّیِّاٰتِ
وَیَعْلَمُ مَاتَفْعَلُوْن(ترجمہ: اور اﷲ وہی ہے جو بندوں کی توبہ قبول
فرماتا ہے اور گناہوں سے در گزر فرماتا ہے اور جانتا ہے جو کچھ تم کرتے
ہو۔القرآن،سورہ شوریٰ ۴۲/آیت ۲۵)۔اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ توبہ سے
گناہ کبیرہ معاف ہوتے ہیں ۔ توبہ و استغفار کی بڑی اہمیت اور فضیلت ہے۔
احادیث میں بھی اس کا ذکر کثرت سے موجودہے۔ ایک حدیث میں نبی ﷺ نے فرمایا:
یَا اَیُّھَاالنَّاسُ تُوْبُوْاِلٰی رَبِّکُمْ فَاِنِّیْ
اَسْتَغْفِرُواللّٰہُ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ فِی الْیَوْمِ اَکْثَرَ مِنْ
سَبْعِیْنَ مَرَّۃ0 لوگو بارگاہِ الہٰی میں توبہ استغفار کیا کرو میں بھی
اﷲ کے حضور روزانہ ستّر (۷۰) بار سے زیادہ توبہ کرتاہوں۔(بخاری شریف باب
استغفار ﷺ فی یو م لیل)حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے رسول ﷺ نے فرمایا :جادوگر،
کاہن سود خور اور بدکار یہ وہ لوگ ہیں کہ اپنے گناہوں سے توبہ کئے بغیر ان
کی مغفرت نہیں ہوتی۔(غنیتہ الطالبین صفحہ ۴۴۹)لہٰذا ایسے لوگوں کو چاہئے کہ
اپنے اپنے گناہوں سے سچی توبہ کریں،اس مبارک شب برأت کے فیضان سے مالا مال
ہوں۔
محروم و کم نصیب لوگ:بلا شبہ شب برأت (نجات کی رات) کو رحمت خدا وندی وافر
مقدار میں بندوں پر نازل ہوتی ہے اور گناہ گاروں کی بگڑی سنورتی ہے۔لیکن
چند ایسے افراد بھی ہیں جو بعض گناہوں کی وجہ سے اس رات کی برکات اور فضلِ
خداوندی سے محروم رہ جاتے ہیں۔ رشوت لینے والا، ظالم سپاہی،کاہن ،لوگوں سے
مال لے کر امراء کو دینے والا، لھو لعب کے لئے مزامیر رکھنے والا، مشرک،
دنیاوی عداوت رکھنے والا قطع رحمی کرنے والا، ازراہِ تکبر کپڑا ٹخنے سے
نیچے لٹکانے والا، والدین کا نافرمان، دائمی شرابی، جادو کرنے والا، بلا
وجہ کسی مسلمان سے تین دن سے زیادہ سلام و کلام نہ کرنے والا،زناکار،
جاندار کی تصویر بنانے والا، جھوٹی قسم کھاکر مال بیچنے والا، بدعتی جس کے
دل میں صحابہ کرام کا بغض ہو۔(بیہقی ما شبتہ باسنہ، مسند امام احمد شعب
الایمان جلد ۳/صفحہ ۳۸۳)
توبہ کرنے والا اﷲ کا دوست ہوتا ہے: اﷲ پاک ہمیشہ ہر قوم کے گناہ معاف کرنے
والا ہے۔ کافروں کی توبہ کفرسے، مومنوں کی توبہ گناہوں سے ،خیال رہے گناہوں
سے انکار کرنا بے حیائی اور ڈھٹائی ہے۔ گناہ کا اقرار کرنا نادم ہونا اچھی
بات ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ شب برأت اور دیگر مقدس ایام والی راتوں میں توبہ
زیادہ قبول ہوتی ہے لیکن گناہ کرنے کے بعد توبہ کو ان مقدس دنوں اور راتوں
کے لئے اٹھا رکھنا بدترین جرم و شقاوت ہے۔ کیا معلوم ایسے دن اور ایسی
راتیں آنے سے قبل ہی موت آجائے اور گناہوں کا بوجھ لے کر خدا کے حضور پیش
ہونا پڑے۔
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
شب برأت اور دیگر مقدس راتوں کو عبادت کے لئے جاگنے والے حضرات نماز عشاء
اور نماز فجر باجماعت اداکرنے کا خصوصی اہتمام کریں۔ اس رات زیادہ سے زیادہ
نوافل پڑھیں ، قرآن کی تلاوت کریں، زیارتِ قبور کو جائیں، تمام مرحومین کو
ایصال ثواب کریں، کثرت سے توبہ کریں، آتش بازی خرافات اور رات بھر گھوم پھر
کر وقت برباد نہ کریں۔ مسلمان اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں۔ سنجیدگی سے
اس رات کی فضیلت و برکات کو دامن میں سمیٹیں ۔ اپنے اور تمام عالمِ اسلام
کی بھلائی کے لئے دعا کریں۔ اﷲ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین! |