دنیا کی تاریخ میں مختلف ادوار میں لوگ اپنے رہنے سہنے کے
طریقے، ایمان اور یقین کا ایک راستہ اپناتے تھے جو بعد ازاں مذہب کا روپ
دھار لیتا تھا۔کیونکہ مذہب ہی وہ چیز ہے جو انسان کو زندہ رہنے کے لیے اپنی
ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ اچھائی اور برائی، نیکی اور بدی،
حلال اور حرام میں تمیز سکھاتا ہے۔ بنی نو انسان کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی
ہے کہ وہ اپنی تخلیق کا مقصد جان سکے ، اپنے مقام کو پہچان سکے ، اپنے مقام
کا تعین کر سکے اور ظاہری دنیا سے پردے کے بعد اپنا رتبہ بلند کر نے کے لیے
مذہب کے بنیادی عناصر کو پہچان سکے۔
قرآن پاک میں اللہ کریم کافرمان ہے کہ؛
"اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں بھلائی عطا کر اور آخرت میں بھی
بھلائی عطا کر اور ہمیں جنم کی آگ کے عذاب سے بچا"
مذہب انسانی شعور کے لیے کار آمد ثابت ہوتا ہے تاکہ انسان کو اس حوالے سے
علم ہو سکے کہ کائنات میں اچھا کیا ہے اور برا کیا ہے۔مذہب ایک احساس کا
نام ہے جو کسی مقدس بالاتر اور ان دیکھی ذات کا وجود دل و دماغ میں پیدا
کرتا ہے۔مذہب ایک ازلی اور ابدی حقیقت کو تسلیم کرنے کا نام ہے جس کا تعلق
انسانی زندگی کے ساتھ گہرا ہوتا ہے۔مذہب اس جستجو کا نام ہے جو انسانی
زندگی کے حقیقی مقاصد اور بنیادی اصولوں کے ادراک کے لیے کیاجاتی ہے۔ مذہب
بنیادی طور پر عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی راستہ، طریقہ،اعتقادیا چلنے
کی جگہ ہیں۔ہندی میں مذہب کو دھرم اور انگریزی میں ریلیجن ( )کہا جاتا ہے۔
مذہب کے حوالے سے ارتقائی اور الحامی نظریات کو اہمیت حاصل ہے۔
بقول ساحر بخاری
"مذہب انسانی راہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتا ہے،مذہب تقوی اور پرہیز گاری
کا درس دیتا ہے۔
مغربی مفکرین کے مطابق ارتقائی نظریہ سے مراد مذہب بتدریج مختلف منازل طے
کرتے ہوئے تکمیل پذیر ہوتا ہے –مظاہر پرستی سے پہلے کا دور،مظاہر پرستی کا
دور ، جانوروں کو مقدس جاننے کا عقیدہ اور ان کی پوجا کرنا۔اباواجداد کی
اندھی تقلید کرنا،فرضی دیوتاوں کی پوجا کرنا اور بت پرستی کا عمل کرنا یہ
سب مذہب کے ارتقائی نظریہ کے مختلف مراحل ہیں ۔
ارتقائی نظریے کہ حوالہ سے لیاقت علی عظیم نے یوں لکھا ہےکہ؛
"ابتداء میں ضروریات زندگی نے اس بات کو جنم دیا ہے کہ لوگ سورج ،چاند ،
ستارے ،بارش،پھلدار درختوں کے فوائد کو دیکھ کر ان کی پوجا شروع کر دیتے
تھے"۔
ارتقائی نظریہ کی روح سے انسان جنم لیتے ہی مذہب کے تصور سے ناآشنا ہوتا
ہے۔اور مذہب کی ابتدا ء مظاہر پرستی سے ہوتی ہے۔اللہ نے ہر قوم کے لیے نبی
بھیجے ۔تاکہ جسمانی ضروریات کو بھی پورا کیا جا سکے۔تمام انبیاء نےتوحید
اور عبادت الہی کا درس دیا یعنی ابتدا ء میں ہی انسانی مذہب میں توحید کا
درس تھا۔
جبکہ الہامی نظریہ کے مطابق مذہب ارتقاء کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ حضرت آدم
علیہ السلام کو اللہ کریم نے زمین پر اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا اور وحی کے
ذریعے احکامات نازل کیے گویا کہ انسان پہلے سے ہی توحید پرست تھا۔
ساحر بخاری کا کہنا ہے کہ ۔
"وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب نسل آدمؑ روئے زمین پر پھیلتی چلی گئی
تو بعض لوگ گمراہ ہو کر بے دین اور بت پرست ہوتے چلے گئے"۔
یعنی ابتداء میں انسان توحید پرست تھا اور بعد میں گمراہ ہو ا اور بت پرستی
او ر دیگر مظاہر کی پرستش میں مبتلاء ہوا۔
مذہب اور تہذیب کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔جہاں بھی انسانی زندگی میں سلیقہ
،حسن و زیبائش نظر آتے ہی وہاں مذہب کا چرچ ضرور ہوتا ہےہر مذہب تہذیبی
ثقافتوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔دنیا بھر میں تہذیب، ثقافت ،تمدن اور کلچر سب پہ
تمدن کی چھاپ نظر آتی ہے۔مذہب انسان کی اولین اور اہم ترین ضرورت ہےاس کا
ثبوت اس امر سے ملتا ہے کہ انسا نی تاریخ میں کو ئی معا شرہ تہذیب یا قو م
ایسی نہیں ہے کہ جو مذہب سے با لا تر ہو۔
ساحر بخاری کے مطابق پلوٹار ک نے لکھا ہے کہ؛
"کسی انسا ن نے کو ئی ایسی با ت نہیں دیکھی جس میں مذہب نہ ہو "
دنیا میں ہر قوم ،نسل،یا طبقہ کوئی نہ کوئی مذہب رکھتا ہے۔عالم و جائل،
شریف و بدمعاش ،شاہ و گدا ،افریقہ کاوحشی اور یورپ کا تعلیم یافتہ فرد اس
لحاظ سے برابر ہیں کہ ان کا کوئی نہ کوئی مذہب ہے۔کشمیر عرصہ دراز سےاتحاد
،محبت اور بھائی چارے کے سبب نہ ختم ہونے والی ثقافت کی عملی مثال ہے ۔
کشمیر جس طرح دنیا میں اپنی خوبصورتی کی وجہ سے مشہور ہےاسی طرح کشمیری قوم
بھی اپنی خصوصیات کی وجہ سے منفرد ہے۔ جنگ کا میدان ہو یا امن کا زمانہ
،علم و فن کا میدان ہو یا سیاست کااس سر زمین کے باشندوں نے اپنی عظمت کے
پرچم کو ہمیشہ بلند کیے رکھااور عالمگیر شہرت پائی ۔کشمیر کی روح پرور فضا
اتنی سحر انگیز ودلفریب ہے کہ غلام احمد مہجور پکار اٹھا
اندی اندی سفید نگر دیرار سنگ مرمر
منز باگ سبز گوہر گلشن وطن چھ سونوی
(یعنی میرا وطن بہت خوبصورت ہے اس کی ہر یالی اس کی خونصورتی کاباعث ہے)
پنڈت جوہر لال نہرو کشمیر کی خونصورتی سے تاثر ہو کر یہاں تک کہہ گیا کے؛
"Kashmir hunted me"
کشمیر کی خوبصورتی کی تعریف ہر کسی نے اپنے اپنے الفاظ میں کی چاہے وہ شاعر
ہو،دانشور ہو، یا پھر سیاست دان جہاں کشمیر خوبصورتی کی بدولت مشہور ہوا
وہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پانچ ہزار سال پرمحیط تاریخ کشمیر اپنے
اندر مختلف ادوار کے ساتھ ساتھ مختلف مذاہب کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔
پروفیسر محمد رفیق بھٹی کے مطابق؛
"تاریخ مذاہب کا بغور مطالعہ کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ کشمیر دنیا کے
تمام بڑے مذاہب
کے پیروکاروںکی آماجگاہ ہے۔ یہاں کے رہنے والوں نے ہر نئی مذہبی تحریک پر
کشادہ دلی اور
خندہ پیشانی سے لبیک کہا"
الطاف پرواز اس حوالہ سے یوں رقمطراز ہیں کہ؛
"کشمیر زمانہ قدیم سے ہی علم و فضل کا گہوارہ تھا۔لوگ حصول علم کے لیے آتے
اور آ کر آباد ہو جاتے تھے"
کشمیر کو علم و فضل کا گہوارہ ہونے کا اعزاز زمانہ قدیم سے ہی حاصل
ہے۔باشندگان کشمیر کو تہذیب و تمدن کے ابتدائی مراحل کی تکمیل اور اس خطہ
کی سر گزشت کے نقوش فراہم کرنے کے لیے ہزاروں برس کا سفر طے کرنا
پڑا۔محقیقین آج بھی سر زمین کشمیر کے گم گشتہ رازوں اور پر اسرار واقعات کی
حقیقت کو آشکار کرنے کی جستجو میں مصروف عمل ہیں۔ تحقیق کے مطابق کشمیر میں
کئی مذاہب آئے اور تصوف کے کئی دبستان کھلےجن میں ناگ مت، ہندو مت، بدھ
مت،شیو مت،رشی مت اسلام اور سکھ مت قابل ذکر ہیں۔
محمد دین فوق نے کشمیر کے ابتدائی حالات کا ذکر کرتے ہو ئے کہا ہے کہ؛
" زمانہ قدیم میں کشمیر کوٹ راج کے مطابق چلتا رہا اور ابتدائی آباد کاروں
میں چندرا دیو اور دریا دیو ہیں
اور کوٹ راج میں ابتدائی سرداروں میں بھالو پرتاب،دسنہ نندن اور سورج ورما
قابل ذکر ہیں۔
ق م میں والئی جموں پورن کرن کے پوتےدیا کرن نےشخصی حکومت کی بنیاد رکھی۔"
3180کشمیر میں
کشمیر کے ابتدائی آباد کارناگ مت کے پیروکار تھے جو مظاہر فطرت کی عبادت کی
تلقین کرتے تھے۔ناگا کے جد امجدکا نام نیل ناگ تھا اور ان کی مذہبی کتاب کا
نام نیلہ مت پوران تھا۔
جگ موہن اس حوالے سے یوں بیان کرتے ہیں؛
"ناگ یا ناگا کشمیر کا قدیم ترین قبیلہ تھا۔کچھ دوسرے قبائل جن میں
کھش،ڈار،
بھٹہ،ڈوگر،پشاداور تانترے وغیرہ شامل ہیں یہ بعد میں ظاہر ہوئے"
ہندو مت جو کہ تشدد اور معاشرتی تفریق کا نمونہ ہے ساحر بخاری نےجون کلاک
کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ؛
"ہندومت کا کوئی بانی نہیں جس نے ان کو پیغام دیا ہے"
ہندو مت کی تاریخ کے حوالے سے پنڈت جواہر لعل نہرو نے کچھ اس طرح وضاحت کی
ہے؛
"اہل چین ،یونان اور اہل عرب کے برعکس ہندوستان کے لوگ مورخ نہیں تھے۔یہ
ہماری بد قسمتی ہے
اور اس نے یہ دشواری پیدار کر دی ہےکہ ہم گذشتہ واقعات کا زمانہ اور تاریخ
نہیں مقرر کر سکتے ہیں اور
یہ واقعات آپس میں بھی متضاد ہیں۔ہمارے پاس ایک کتاب ایسی ہےجسکو ہم تاریخی
کتاب کہہ سکتے ہیں
اور وہ ہے " کشمیر کی تاریخ " جو ہمیں ہندومت سے متعلق معلومات فراہم کرتی
ہے۔
ہندو مت میں ذات پات کے نظام نے ایک اودھم مچا رکھا تھا اور برہمنوں سے لوگ
ناخوش تھے ان حالات میں تبت کے راستے کشمیر میں داخل ہونے والے مذہب بدھ مت
کو کشمیر میں اس حد تک عروج حاصل ہوا کہ بدھ مت کو بطور سرکاری مذہب قرار
پایا۔بدھ مت مذہب کم اور پیچیدہ فلسفہ زیادہ ہے۔
پی ۔این۔کے بامزی اس حوالے سے لکھتے ہیں؛
"گوتم بدھ نے جانشین نندانے اپنی وفات کے وقت رشی مدھانیتکا کو طلب کرتے
ہوئے
گوتم بدھ کی یہ پیشن گوئی بتائی کہ بدھ دھرم کا اصل ارتقاء ارض کشمیر میں
ہو گا"
اسی پیشن گوئی کو پورا کرنے کے لیے رشی مدھانیتکا نےکشمیرآ کر بدھ مت کی
تبلیغ کی اور بدھ مت کو 12صدی تک کشمیر میں عروج حاصل رہا جس کے آثار آج
بھی موجود ہیں۔بدھ مت کے بعد کشمیر میں شیومت نے جنم لیا۔
اس حوالے سے سلیم خان گمی یوں رقمطراز ہیں ؛
"کشمیر میں اسلام کی اشاعت سے پہلے انتشار کی کفیت برپا تھی۔ بدھ مت اور
ہندومت
کے افکار و تصورات باہم دست و گریبان تھے اس کشمکش نے شیو مت کو جنم دیا"
شیو مت کے بعد رشی مت کا دور رہا ۔اسلامی مورخین کے مطابق رشی مت کشمیر میں
اسلامی اور غیر اسلامی ،مذہبی اور معاشرتی عوامل کے باہمی ربط و ضبط کا
نتیجہ ہے۔رشی مت کو کشمیر کا مقامی تصوف بھی کہا جاتا ہے۔
پروفیسر عبدالواحد قریشی نے اس حوالہ سے کچھ اس طرح لکھا ہے؛
"سید علی ہمدانی کے ہمراہ آنے والے سادات نے اسلام کی تبلیغ کی
اور اسی دوران خود کشمیر میں بھی مبلغ اسلام پیدا ہوئے"
کشمیر کی حدود میں داخل ہونے والا پہلا مسلمان حمیم بن سامہ تھاجو حمیم
شامی کے نام سے مشہور ہوا۔ڈاکٹر ایس ایم ناز کے مطابق ؛
" حمیم بن سامہ راجہ داہر کے بیٹے جے سیا کو لے کر 712 ء میں
کشمیر کے راجہ کے پاس کلر کہار پہنچا جو کشمیر کا حصہ تھا"
کشمیر میں لوہارا خاندان کا آخری حکمران ہرش دیو بت پرستی کا بہت مخالف تھا
اور پنڈت کلہن کے مطابق مختلف منادر توڑوا کر انکی دولت ملکی اخراجات کے
لیے استعمال کرتا رہا۔ اس نے اپنی فوج میں ترک مسلمانوں کو بھرتی کیا اور
ترک مسلمان آفیسران کے ہمراہ امام،درویش اور مولوی تشریف لائے اور اس طرح
مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔م
اکو پولو اس حوالہ سے لکھتا ہے ؛
"کشمیر میں مسلمانوں کی ایک باقاعدہ آبادی تھی وادی کے لوگ گوشت
کھانا چاہتےتو وہاں کے لوگ ان کے لیے جانور ذبح کر دیتے تھے"
ہندو بادشاہ سہدیو کے بعد رنچن شاہ کشمیر میں بادشاہ بنا جو بدھ مت کا
پیروکار تھا ۔اس نے عبدالرحمان بلبل شاہ کے ہاتھوں اسلام قبول کیا اور
سلطان صدرالدین کےلقب سے حکومت کی یوں سر زمین کشمیر میں پہلی اسلامی حکومت
کی بنیاد ڈالی گئی۔اس کی وفات کے بعد ہندو باشاہ حکمران بنے اور 1339 ء میں
شاہ میرکشمیر کا تخت سنبھالتے ہوئے سلطان شمس الدین کا لقب اختیار کیا۔
صابر آفاقی کے مطابق؛
" 14ویں صدی کے آغاز میں ہر چیز ہندو مت کے زوال کی نشاندہی کر رہی تھی"
کشمیر میں اسلام کے ظہور اور اشاعت کے حوالے سے پنڈت پریم ناتھ بزاز نے
لکھا ہے؛
"کشمیر میں اسلام کا ظہور ایک رحمت بن کر آیا اور سیاسی ،ذہنی اور روحانی
طور پر ایک انقلاب برپا ہوگیا
جس نے پستی میں گرے ہوئے کشمیری عوام کے ذہنوں کو بدل کر رکھ دیا ۔زندگی کے
ساتھ ساتھ ان کا
رویہ ہی بدل کر رہ گیا اور خود کو دوبارہ انسانوں میں شمار کرنے لگے۔اگر
چودہویں صدی میں کشمیریوں نے
اسلام قبول نہ کیا ہو تا تو نامعلوم ان کا کیا حشر ہوتا۔مسلم حکمرانی کا
آغاز کشمیر کے لیے نہایت مبارک اور
حوصلہ افزاء ثابت ہوا۔"
1819 ءتک کشمیر پر مسلم حکومت رہی اور مہاراجہ رنجیت سنگھ نے کشمیر پر قبضہ
کیا اور اس کے بعد کچھ سکھ جموں کشمیر میں آ کر آباد ہوئے ۔سکھ مت اصل میں
ہندو مت کی اصلاحی تحریک تھی جو بعد میں مذہب کا درجہ اختیار کر گئی۔
مذاہب کشمیر کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کےزمانہ قدیم میں کشمیرناگ
مت، ہندومت، بدھ مت،شیو مت،رشی مت، اسلام اور سکھ مت جیسے مذاہب کا گہوارہ
رہاہے۔ موجودہ دیاست جموں کشمیر چار حصوں یعنی آزاد کشمیر،گلگت
بلتستان،اقصائی چن اور بھارتی مقبوضہ کشمیر میں منقسم ہےاور اس میں اسلام،
بدھ مت اور ہندومت کے پیرو کار موجود ہیں۔بھارتی مقبوضہ کشمیر کے حصوں لداخ
میں٪50 بدھ مت ،٪47 اسلام اور٪3 دیگر مذاہب کے پیروکار ہیں، جموں میں٪66
ہندومت ،٪30 اسلام اور ٪4سکھ مت و دیگر مذاہب کے پیروکار ہیں، وادی ٪95
اسلام، ٪4 بدھ مت اور ٪1 دیگر مذاہب کے پیروکار ہیں ۔ آزاد کشمیراورگلگت
بلتستان،میں م٪99 اسلام او ٪1 دیگرتمام مذاہب کے پیروکار ہیں ۔ یہ بات کہنے
میں تو کوئی امر مانع نہیں ہے کہ موجودہ دیاست جموں کشمیرمیں مسلمانوں کی
تعداد سب سے زیادہ ہے۔ |