ہلکہ پھلکہ اختیار رکھنے والوں میں جو رواج آج کل مشہور
ہے وہ کانفرنس کا ہے۔آئے دن کسی نا کسی موضوع پر چند گنے چنے لوگوں کو مدعو
کرکے اور کچھ پیسے لے دے کر ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جاتاہے ۔ جس میں
شرکاء کی اکثریت حلقہ احباب سے ہوتی ہے سو ملنا ملانا بھی ہوجاتا ہے ،
کھانا پینا بھی کرلیا اور ساتھ ہی میڈیا میں کچھ تصاویری جھلکیاں بھی آجاتی
ہیں جس سے حاضری بھی لگ جاتی ہے ۔اور متعلقہ لوگوں کو بتایا جا سکتا ہے کہ
ہم نے بھی اس میں شرکت کی تھی۔یہ اوپر متعلقہ میں لکھے گئے اکثر لوگ غیر
متعلقہ ہوتے ہیں۔جن کا تعلق صرف اپنے ایجنڈے کا فروغ ہوتا ہے ۔وہ مختلف
کانفرنس میں مختلف ہوتے ہیں ۔ایران سے لیکر سعودی عرب اور ملایشیا سے لیکر
امریکہ تک ان متعلقہ لوگوں کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو سکتا ہے ۔غیر متعلقہ
کومتعلقہ بنانے والوں میں سے اکثریت کا تعلق اپنوں میں سے ہی نکلتا
ہے۔گزشتہ ماہ سندھ سے ایک دوست تشریف لائے ۔موصوف نے بتایا کہ پنجاب میں
کوئی کانفرنس ہے اور اس کانفرنس میں شرکت کے لیے انہیں سندھ سے مدعو کیا
گیا ہے ۔نا صرف مدعو کیا گیا ہے بلکہ سفری اخراجات بھی ہوائی ادا کیے گئے
ہیں ۔میرے دریافت کرنے پر فرمانے لگے کہ’’ اتحاد امت کانفرنس‘‘ ہے۔مجھے بھی
اشتیاق ہوا کہ کیوں نا اس کانفرنس میں حاضری دی جائے جو امت مسلمہ کے اتحاد
کے غرض سے ایک مدرسے میں منعقد کی جا رہی ہے۔دیے گئے وقت سے دو گھنے تاخیر
سے شروع ہونے والی اس کانفرنس میں محض 30 کے قریب شرکاء شامل تھے ۔جن میں
سے 15 سے 17 لوگ خود کو عالم اور پیر کہنے اور کہلاوانے والے تھے باقی کا
تعلق ا ن کے خدمت گزاروں میں تھا۔بڑی بڑی گاڑیوں میں بیٹھ کر تھوڑی دیر کے
لیے اس کانفرنس میں آنے والو ں نے ایک بہت معنی خیز انٹری کے بعد اپنی باری
پر بے حد بے معنی گفتگو کی ۔میرے سامنے میز پر رکھا اتحاد امت کے نام کا
لیبل چیخ چیخ کر مجھ سے تقاضا کر رہا تھا کہ میں بول اٹھوں کہ یہ کیسا
اتحاد امت ہے جس میں صرف ایک نظریہ فکر کے مولویوں اور پیروں کو اکٹھا کیا
گیا ہے ؟اور باقی تما م اختلاف رکھنے والوں کو نا صرف یکسر نظرانداز کیا
گیا ہے بلکہ ان کی غیر موجودگی میں ا ن کے خلاف گرج گرج کر بولا بھی جا رہا
ہے ۔کانفرنس ابھی جاری تھی کہ اذان عصر کا وقت ہوگیا۔اب میرے دل نے کچھ
امید باندھ لی کہ دماغ میں اٹھنے والے تمام سوالوں کا جواب اب اتحاد امت
والے دیں گے اور وہ کسی ایک کے پیچھے خدا کی نماز پڑھ لیں گے ۔مگر مجھے یہ
جان کر حیرت ہوئی کہ کچھ لمحہ قبل تک اتحاد امت کا چورن بیچنے والے ایک
دوسرے کے پیچھے نماز تک پڑھنے کے لیے تیار نہیں تھے ۔اور سب نے جا کر الگ
الگ نماز پڑھی۔اب دوبارہ کانفرنس کا آغاز ہوتا ہے ۔اور ایک فرقے کے اکابرین
کو لعن طعن کا سلسلہ شروع ہوگیا۔بڑے بڑے القابات والے نہایت چھوٹے کردار
والے ثابت ہوئے اور اچانک دو شرکاء اپنے حامیوں سمیت ایک دوسرے پر چلانے
لگے اور ایک دوسرے کو ان القابات سے نوازنے لگے کہ سننے والوں کے سر شرم سے
جھک گئے ۔ایک مخصوص میڈیا گروپ جو لگاتار کوریج دے رہا تھا اس واقعے کی
کوریج سے ناجانے کیوں باز رہا ۔میں نے اس ہال سے باہر جانا چاہا تو اس
کانفرنس کے اہتمام کرنے والوں میں سے ایک نے مجھے منت سماجت کرکے واپس میری
نشست پر بٹھادیا۔میں نے ایک صاحب سے آخر پوچھ ہی لیا کیا دو مکتبہ فکر یا
تین مکتبہ فکر کو کچھ لمحہ کسی وجہ سے ایک ساتھ بٹھا لینے سے امت میں اتحاد
آجائے گا ؟موصوف کے جواب نا دینے پر میں نے تین بار سوال دہرانے کی گستاخی
کی جس پر انہوں نے مجھ سے میری شناخت پوچھی ۔میں نے یکے بعد دیگرے کئی اور
سوال داغ دیے کیا مولوی اور خود کو پیر کہلوانے والے ہی صرف امت ہیں ؟؟کیا
ان کا اتحاد ہی امت کا اتحاد ہے؟؟اور امت کے جن مکتبہ فکر کو شامل نہیں کیا
گیا ان کے بغیر تو یہ اتحاد امت کی بجائے کچھ جماعتوں کا اتحادنہیں کہلائے
گا؟؟اب موصوف لال پیلے ہوکربولے ہم ان کو امت ہی نہیں مانتے نا ہی وہ امت
ہیں ۔ مجھے کچھ بات بڑھانے کا موقع مل گیا میں نے فورََا کہا ایسے ہی وہ آپ
کو امت نہیں مانتے تو جو کوئی اب اسلام لائے تو وہ کس امت میں شامل ہو کس
اتحاد کا حصہ بنے آپ کا یا دوسروں کا ؟؟ موصوف کے پاس دوبارہ سوائے چپ کے
کوئی جواب نا تھا ۔صاف نظر آرہا تھا کہ یہ لوگ کسی اتحاد کے لیے نہیں دیے
گئے کسی ایک ایجنڈے کے فروغ کے لیے کام کر رہے ہیں ۔اسی دوران کانفرنس ختم
ہوئی اور اختتامی لمحات میں سب سے ہاتھ ملانے پر مجھے کچھ مانوس چہرے نظر
آئے جن کا تعارف اور جن کی حقیقت کچھ اور تھی مگر آج ان کا متعلقہ شعبہ امت
کی نمائندگی تھا۔یہ ایک کانفرنس یا کسی ایک گروہ کسی ایک فرقے کسی ایک
جماعت کی بات نہیں ہے ۔یہ با ت رویے کی ہے جو غیر اخلاقی اور نا قابل قبول
ہے ۔یہ بات دھوکے کی ہے جو سادہ لوح لوگوں کو دیا جا رہاہے ۔یہ بات رجحان
کی ہے جو زور پکڑ رہا ہے ۔یہ بات سوچ کی ہے جو جنم لے رہی ہے ۔یہ بات اس
ایجنڈے کی ہے جس کا پرچار کیا جا رہا ہے ۔اور یہ بات اس نتیجے کی ہے جس کی
طرف ہمیں نہیں جانا چاہیے ۔ یہ بات اس خود ساختہ اتحادکی ہے جو اصل میں
تفریق ہے ۔یہ کیسا اتحاد ہے جس میں ایک جیسے سوچ رکھنے والوں کے گرو ہ بنا
کر انہیں ایک دوسرے کے سامنے کھڑا کیا جا رہا ہے ۔یہ کیسا اتحاد ہے جس کی
آڑ میں چند مخصوص لوگ اپنی نمائش دوکانداری کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔جولوگ ایک
دوسرے کو قبول کرنے لیے تیار نہیں جو لوگ ایک جیسی فکری اساس رکھنے کے
باوجود ایک جگہ نہیں بیٹھ سکتے وہ نظریاتی یا فکری اختلاف والوں کے ساتھ
کیسے بیٹھیں گے ۔ہمارا یہ المیہ ہے کہ ہم جوتا خریدتے وقت اس کا چمڑہ اس کا
تلوہ اسکی کمپنی اور اس کے متعلق تمام موجودہ معلومات لیتے ہیں ۔کپڑا
خریدتے وقت توہم اس میں لگے دھاگے اسے لیکر اس کے رنگ اس کی کئی اور
خصوصیات کا جائزہ لیتے ہیں مگر اپنے لیڈر ان کا انتخاب کرتے ہوئے ہم اتنا
بھی تکلف نہیں کرتے جتنا ایک جوتا یاایک سوٹ لیتے ہوئے کرتے ہیں۔ہم پر جو
مسلط کردیا جائے یا قابض ہوجائے ہم قبول کر لیتے ہیں ۔خواہ وہ مذہبی رہنما
ہوں یا وہ سیاسی رہنما ہوں ۔ان کو جانچنے ان کو اپرکھنے کا کوئی معیار ہم
نے روا نہیں رکھا۔یہ ہرگز صبر یا عاجزی نا ہے یہ سراسر نقصان ہے۔مثال کے
طور پر اگر کسی کا بلڈپریشر کم ہوگا تو وہ بلڈپریشر کم کرنے والی ادویات
نہیں لے گا اسے بلڈ پریشر کو نارمل کرنے والی ادویات کی ضرورت ہوگی اور اگر
اس نے بلڈ پریشر کم کرنے والی ادویات کھالیں تواس کی جان جانے تک کاخطرہ
پیدا ہوجائے گا ۔ایسا ہی اوپر بیان کیے گئے مسلے میں ہے ہم پہلے ہی انتشار
اور تفرقے کا دھڑے بندیوں کا شکار ہیں ایسے میں ہمیں ایک کرنے والے کی
ضرورت ہے نا کہ اپنی کمپنی کی مشہوری کے لیے مزید دھڑے بندی اور تفرقہ
پھیلانے والوں کی ۔ورنہ وہی ہوگا جیسا کہ پاکستان کے باہر سے چاہا جا رہاہے
۔ایک تو خود نسلی لسانی اور مذہبی اختلاف پر لڑ کر اپنا نقصان کریں ساتھ ہی
پوری دنیا میں شدت پسند اور دہشتگرد کا تمغہ لیکر پوری دنیا میں متنازعہ بن
جائیں ۔آپ بھی اپنے حلقہ احباب اور حلقہ اثر میں ایک بار دیکھ لیجیے گا کہ
کہیں ایسا کوئی گروہ ایسا کوئی ایجنڈا وہاں بھی موجود تو نہیں ۔اگر ہوتو اس
کی حوصلہ شکنی کیجیے اتفاق حسن اخلاق سے آئے گا اور ایک دوسرے کو قبول کرنے
سے آئے گا ۔اتفاق صرف ایک دوسرے کو عزت دینے سے آئے گا جو ہم کبھی کر نہیں
سکیں گے۔
|