مسلم سماج میں رائج برائیوں میں ایک اہم برائی غیبت ہے ،
غیبت کی تباہ کاریوں اور اس کےنقصانات کااندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ
قرآن کریم میں غیبت کر نے والے کو مردار کا گوشت کھانے والا کہا گیا ہے اور
حدیث پاک میں غیبت کو زنا سے بد تر فر مایا گیا ہے۔ قرآن کریم اللہ جل شانہ
نے ارشاد فرمایا:
وَ لَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا١ؕ اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ
يَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِيْهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ۠١ؕ وَ اتَّقُوا
اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِيْمٌ۰۰۱۲( )
ترجمہ:اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو۔ کیا تم میں کوئی پسند رکھے گاکہ اپنے
مرے بھائی کا گوشت کھائے، تو تمہیں یہ گوارا نہ ہو گا، اور اللہ سے ڈرو ،
بے شک اللہ توبہ قبول کر نے والا مہر بان ہے۔( کنزالایمان)
حدیث پاک میں فر مایا گیا :
عن ابی سعید و جابر قالا قال رسول اللہ ﷺ الغیبۃ اشد من الزنا قالو:یارسول
اللہ وکیف الغیبۃ اشد من الزنا قال ان الرجل لیزنی فیتوب فیتوب اللہ علیہ
وفی روایۃ فیتوب فیغفر اللہ لہ وان صاحب الغیبۃ لا یغفرلہ حتی یغفرھا لہ
صاحبہ۔( )
ترجمہ : حضرت ابوسعید اور حضرت جابر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول
اللہ ﷺ نے فرمایا کہ غیبت زنا سے زیادہ سخت (گناہ) ہے ۔ تو صحابہ نے عرض
کیایارسول اللہﷺ! غیبت زنا سے زیادہ سخت (گناہ) کس طرح ہے؟ تو نبی کریم ﷺ
نے ارشاد فرمایا: آدمی زنا کرتا ہے پھر توبہ کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس
کی توبہ قبول فرماکر اس کو بخش دیتا ہے لیکن غیبت کرنے والے کو اللہ تعالیٰ
اس وقت تک نہیں بخشے گا جب تک اسے وہ شخص نہ معاف کردے جس کی اس نے غیبت کی
ہے۔
غیبت کسے کہتے ہیں :
علامہ راغب اصفہانی المفردات میں غیبت کی تعریف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :
غیبت یہ ہے کہ ایک آدمی بلا ضرورت دوسرے شخص کا وہ عیب بیان کرے جو اس میں
ہو۔
امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث
پاک روایت کی ، حضرت عائشہ رضی للہ عنہا فر ماتی ہیں :
قلت لنبی صلی اللہ علیہ وسلم حسبک من صفیۃ کذا و کذا۔ قال عن مسدد، تعنی
قصیرۃ، قال صلی اللہ علیہ وسلم، لقد قلت کلمۃ لو مزجت بماء البحر لمزجتہ۔ (
)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے
عرض کیا کہ صفیہ میں سے فلاں فلاں چیز آپ کے لیے کافی ہے۔ ابو داؤد نے مسدد
سے روایت کیا کہ اس سے مراد قد کا چھوٹا ہونا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ
واٰلہ وسلم نے فرمایا:تم نے ایسا کلمہ کہا کہ اگر تم دریا کے پانی میں ملاؤ
تو اس کی حالت کو بدل دے۔
غیبت کی عادت اس زمانے میں اس قد رعام ہو گئی ہے کہ عوام تو عوام بڑے بڑے
علما و مشائخ اور عابد و زاہد لوگوں کا دامن اس گناہ سے آلودہ نظر آتا ہے۔
غضب یہ ہے کہ لوگ اس طرح غیبت کے عادی ہوگئے ہیں گویا غیبت ان کے نزدیک
کوئی گناہ کی بات نہیں ہے۔ شاید ہی ہمارکوئی مجلس ایسی ہو جو اس گناہ کی
نحوست سے خالی ہو۔
غیبت کی مذمت پر چند احادیث:
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنےفرمایا کہ جب معراج
ہوئی ایک قوم پر گزرا، جن کے ناخن تانبے کے تھے وہ اپنے منھ اورسینے کو نوچ
رہے تھے میں نےجبریل سے کہا یہ کون لوگ ہیں ؟ جبریل نے کہا یہ وہ لوگ ہیں
جو لوگوں کا گوشت کھا تے تھے( یعنی غیبت کرتے تھے) اور ان کی آبرو ریزی
کرتے تھے۔
امام ابوداؤد نے حضرت معاذ بن انس جہنی کی روایت نقل فر مائی کہ رسول اللہﷺ
نے فرمایا جو شخص مسلما ن پر کوئی بات کہے اس سے مقصد عیب لگانا ہو تو اللہ
تعالیٰ اس کو پل صراط پر روکے گا جب تک اس چیز سے نہ نکلے جو اس نے کہی۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ
مسلمان کی سب چیزیں مسلمان پر حرام ہیں ، اس کا مال ، اس کی آبرو، اس کا
خون، آدمی کی برائی سے اتناہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر
جانے۔
غیبت کی قسمیں :
صدرا لشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ بہار شریعت میں غیبت کے
اقسام کے سلسلے میں تحریر فرماتے ہیںـ
‘‘ فقیہ ابواللیث نے فرمایا کہ غیبت چار قسم کی ہے، ایک کفر: اس کی صورت یہ
ہے کہ ایک شخص غیبت کر رہا ہے ، اس سے کہا گیا کہ غیبت نہ کرو ، کہنے لگا ،
یہ غیبت نہیں میں سچا ہوں ، اس شخص نے ایک حرام قطعی کو حلا ل بتایا دوسری
صورت نفاق ہے کہ ایک شخص کی برائی کرتا ہے اور اس کا نام نہیں لیتا مگر جس
کے سامنے برائی کرتا ہے وہ اس کو جانتا پہچانتا ہے ، لہذا یہ غیبت کرتا ہے
اور اپنے کو پر ہیز گار ظاہر کرتا ہے ، یہ ایک قسم کا نفاق ہے ۔ تیسری صورت
معاصیت ہے ، گو یا کہ غیبت کرتا ہے اور یہ جانتا ہے کہ یہ حرام کام ہے ،
ایسا شخص تو بہ کرے ، چوتھی صورت مباح ہے ، وہ یہ کہ فاسق معلن یا بد مذہب
کی برائی بیان کرے جب کہ لوگوں کو اس کے شر سے بچانا مقصود ہو تو ثواب ملنے
کی امید ہے۔ ردالمحتار۔( )
غیبت سننے کی ممانعت:
غیبت کر نے کی طرح غیبت سننا بھی حرام ہے:
صدرالشریعہ علیہ الرحمۃ والرضوان بہار شریعت میں تحریر کرتے ہیں :
‘‘ جس کے سامنے کسی کی غیبت کی جائے ،ا سے لازم ہے کہ زبان سے انکار کر دے
، مثلا کہہ دے کہ میرے سامنے اس کی برائی نہ کرو ۔ اگر زبان سے انکار کر نے
میں کو ئی خوف واندیشہ ہے تو دل میں اسے برا جا نے ، اگر ممکن ہو تو یہ شخص
جس کے سامنےبرائی کی جارہی ہے وہاں سے اٹھ جائے ، اس بات کو کاٹ کر کوئی
دوسری بات شروع کردے ، ایسا نہ کر نے میں سننے والا بھی گنہ گا ر ہو گا ،
غیبت کا سننے والا بھی غیبت کر نے والے کے حکم میں ہے۔( )
غیبت کے سلسلے میں شریعت مطہرہ کا حکم ہے کہ جس کی غیبت کی گئی اگر اس کو
خبر ہو گئی تو اس سے معافی مانگنا لازم ہے،اس سے معافی مانگے اور رب تعالیٰ
کی بارگاہ میں صدق دل سے توبہ کرے ، اور اگر متعلقہ شخص کوخبر نہ ہوئی تو
تو بہ وندامت کافی ہے ۔
غیبت کی مذموم عادت کی شکار سب سے زیادہ ہمارے سماج کی عورتیں ہیں ، جہاں
چند عورتیں اکٹھا ہوئیں وہیں غیبت کا دور شروع ہو گیا ،د نیا جہان کی باتیں
، محلے کی عورتوں کی بری عادتوں کا ذکر ان کے محفلوں کا لازمی حصہ ہو تا ہے
، یہ محفلیں کبھی کبھار خاندانی جھگڑوں کا بھی باعث ہو تی ہے اور بڑے مسائل
کھڑے ہو جاتے ۔ ہماری مائیں اور بہنیں فرصت کے اوقات میں فضول گوئی میں
اپنا وقت ضائع کر نے کے بجائے اگر قرآن پاک کی تلاوت کریں ، نماز روزے کے
مسائل کا مطالعہ کریں ، اپنے بچوں کی تعلیم وتر بیت پر توجہ دیں تو جہاں
غیبت کی قباحتوں سے محفوظ رہیں گی وہیں ایک صالح خاندان اور معاشرہ کی
تکمیل میں بھی اہم کردار اداکریں گی۔
غیبت سے بچنے کے طریقے :
• انسان ذکر خدا میں مشغول رہے۔ نماز میں خشوع و خضوع کی کیفیت اپنائے۔
• قرآن و حدیث میں غیبت پر کی گئی وعید کا تصور کرے۔
• موت کا تصور ہر وقت ذہن میں موجود رہے۔
• معاشرتی سطح پر عزت نفس کے مجروح ہونے کا تصور بھی ذہن نشین رہے۔
• غیبت کرنے والا شخص اپنی نیکیاں بھی اس شخص کو دے دیتا ہے جس کی وہ غیبت
کرتا ہے لہذا یہ تصور ملحوظ خاطر رہنا چاہیے کہ روز قیامت میرے پاس کیا رہے
گا۔
• سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ رب نے غیبت سے منع فرمایا اور رب کے احکام کو پس
پشت ڈال کر کامیابی سے ہم کنار ہونا ممکن نہیں۔
غیبت کی خباثتوں معاشرے میں ناچاقی ، بے چینی ،اختلاف وانتشار کا ماحول
پیدا ہو تا ہے لہذاہمیں غیبت سے باز رہنا چاہیے اور ایک صالح ، پاکیزہ اور
تعمیری معاشرہ قائم کر نے لیے ہمہ دم جد وجہد کر نی چاہیے۔
٭٭٭٭
|