کوئی حادثہ ہوتا ہے تو خواب خرگوش کے مزے لیتی انتظامیہ
ایک جھٹکے سے جاگ اٹھتی ہے۔بہت سے اشک بہائے جاتے ہیں۔ بہت سے اعلانات ہوتے
ہیں ۔ ویسے حادثات کی روک تھام کے بارے یک لخت غور ہونے لگتا ہے۔اس حادثے
کی بنیادی وجوہات تلاش کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ ہفتہ دس دن بڑے زور شور کا
مظاہرہ ہوتا ہے ۔ اسی دوران ایک اور حادثہ ہو جاتا ہے اور پھر سانحہ یہ
ہوتا ہے کہ نئے حادثے کے نتیجے میں پچھلے حادثے کے تمام اعلانات، سب
اقدامات ۔ سبھی غوروفکر اور ساری کاغذی کاروائیاں اپنی موت مر جاتی ہیں اور
اس حادثے سے متعلقہ ارباب پھریوں سو جاتے ہیں جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہیں۔
ولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشعال خان کا توہین مذہب کے نام پر ایک ہجوم
کے ہاتھوں قتل بہت سے سوال اٹھا گیا۔یہ کیسی توہین تھی۔ اس نے کیا بات کہی
جسے لوگوں کو بتا کر مشتعل کیا گیا اور کون اس کا عینی شائدہے یہ بات تحقیق
طلب ہے۔کیونکہ توہین کی بات میری سمجھ سے بالا ہے۔ شاعر لوگ کہتے ہیں۔با
خدا دیوانہ باش، با محمد ؑ ہوشیارباش۔یعنی جب رب العزت کی بات ہو تو جیسے
مرضی مانگو، جتنے کر سکتے ہو گلے کرو۔شکوے کرو۔ لیکن حضور رسالت ماب ؑ کے
بارے بات کرتے ہوئے ہوشیار ہو جاؤ کہ یہ ادب کا اعلیٰ تریں مقام ہے۔ میرا
ایمان ہے کہ کوئی بھی کلمہ گو حضور ؑ کے بارے بے ادبی کی جسارت کیا ۔ کوئی
ایسی بات سننا بھی گوارا نہیں کر سکتا۔ ایسے زیادہ تر واقعات دشمنی کا
شاخسانہ ہوتے ہیں۔ لوگ اپنے مخالفوں کو راستے سے ہٹانے کے لئے ایسے الزامات
کا استعمال جیسی گھٹیا حرکت کرتے ہیں۔ولی خان یونیورسٹی کے طلبا اور وہاں
کے ماحول پرلبرل ازم کی چھاپ ہے اور عملی طور پر بھی ایسا ہی ہے۔اسلئے وقتی
طور پر مذہبی جذبات کو جس طرح ہوا دے کر یہ سفاک کام کیا گیا،اس سے عام
آدمی کے ذہن میں بہت سے سوال اٹھتے ہیں، حکومت کو جن کا جواب تلاش کرنا ہے۔
ولی خان یونیورسٹی میں وائس چانسلر اور کچھ دوسرے سینئر افسروں کی حکومت کی
طرف سے تعیناتی ابھی نہیں ہوئی تھی۔ جونیئر لوگ جس طرح یونیورسٹی چلا رہے
تھے اس سے بہت سے طلبا میں بے چینی تھی، جس کے نتیجے میں طلبا اور انتظامیہ
میں چپقلش جاری تھی۔مشعال ایک باشعور طالب علم ہونے کی وجہ سے انصاف اور
انسانیت کے حوالے سے یونیورسٹی انتظامیہ کے خلاف ایک بھر پور آواز اٹھا رہا
تھا۔ اس کا مطالبہ تھاکہ یونیورسٹی کو ایڈہاک بنیادوں پر چلانے کی بجائے
باقاعدہ وائس چانسلر تعینات کیا جائے۔تمام بھرتیاں میرٹ پر کی جائیں۔بہت سے
لوگ جوکئی کئی پوسٹوں پر کام کر رہے ہیں وہ کس قانون کے تحت کر رہے ہیں ،انہیں
ہٹایا جائے۔ ولی خان یونیورسٹی بھی ایک سرکاری یونیورسٹی ہے مگر دوسری
سرکاری یونیورسٹیوں کی نسبت ، جو پانچ سے دس ہزار فیس لیتی ہیں ، ولی خان
یونیورسٹی طالب علموں سے پچیس ہزارفیس کیوں وصول کرتی ہے۔ان تمام معاملات
کے سلسلے میں وہ میڈیا سے مل کر بھی کام کر رہا تھا۔شاید انہی وجوہات کی
بنا پر یونیورسٹی کا ایک گروہ اس کی جان کا دشمن تھا۔ اس بات کا پتہ لگانا
بھی بہت ضروری ہے کہ توہین کا الزام بھی اسے سبق سکھانے کے لئے جان بوجھ کر
تو نہیں لگایا گیا۔ توہین کا الزام کسی پر لگا دیا جائے تو پھر جنونی لوگوں
کو روکنا ممکن نہیں ہوتا اور اس کا منطقی انجام وہی ہوتا ہے جو مشعال کا
ہوا۔اب یہ ضروری ہے کہ تفتیشی ادارے ان مفاد پرستوں کہ جنہوں نے الزام
لگایااور ان قاتلوں کو انجام تک پہنچائیں۔تاکہ مستقبل میں ایسی صورت حال کا
ازالہ ہو سکے۔
مسائل کے حوالے سے اگر جائزہ لیا جائے تو فیسوں کے علاوہ جن مسائل کی
نشاندہی مشعال نے کی تھی۔وہ مسائل ہر یونیورسٹی کے مسائل ہیں۔پنجاب میں
تیرہ کے لگ بھگ یونیورسٹیاں بغیر سر براہ کے کام کر رہی ہیں۔ہر یونیورسٹی
میں بعض لوگ کئی کئی عہدوں پر کام کر رہے ہیں۔بہت سے لوگ بغیر کام کئے
یونیورسٹیوں کے وسائل سے بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں انہیں کوئی پوچھ نہیں
سکتا۔ سال ہا سال سے میرٹ کا مذاق بنا ہوا ہے۔ مخصوص گروپ اپنے پسندیدہ
لوگوں کو جب چاہیں اور جس طرح چاہیں اور جہاں چاہیں بھرتی کر لیتے ہیں۔عملی
طور پر ہر یونیورسٹی میں چند ایک مافیاز کا راج ہے جو سیاسی عناصر کی پشت
پناہی سے سیاسی عناصر کے مفادات کے لئے کام کرتے ہیں۔ہر وائس چانسلر ان
لوگوں کے آگے بے بس ہوتا ہے اور ان کے ہاتھوں کھیلنے پر مجبور۔ اگر کوئی
وائس چانسلر ا ن عناصر کے خلاف قدم اٹھانے کی ہمت کرے تو اخبارات میں غلط
اور گمراہ کن خبریں چھپوا کر اسے بلیک میل کرنا بڑا آسان کام ہے۔ہمارے
تفتیشی ادارے کمزور لوگوں کے بارے بڑے مستعد ہیں ۔ وہ حرام خور لوگوں پر کہ
جن کے پاس پیسے ہوتے ہیں ہاتھ نہیں ڈالتے بلکہ مک مکا کرنا بہتر سمجھتے
ہیں۔ جبکہ کوئی استاد جو عام طور پر مالی طور پر کمزور ہوتا ہے اگر انتظامی
عہدے پر کام کر رہا ہو، اس کے تنکے کو شہتیر بنا کر پیش کرنا ان کے لئے
آسان ہوتا ہے کیونکہ ایک استادسے ان لوگوں کو کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ استاد ان
کا آسان ٹارگٹ ہوتا ہے۔ رہی اخلاقی قدریں تو شرم اور حیا جیسی باتوں پران
اداروں کے لوگ ایمان ہی نہیں رکھتے۔ بہت سی پریشانیوں سے بچنے کے لئے زیادہ
تر وائس چانسلر سیاسی لوگوں کی بات ماننے پر مجبور ہوتے ہیں بلکہ ان کا
سہارا ڈھونڈتے ہیں۔سچی بات تو یہ ہے کہ موجودہ دور میں وائس چانسلر لگنے کے
لئے سیاسی بیساکھیاں کا استعمال بہت ضروری ہو گیا ہے اور جو بھی لگتا ہے وہ
سیاسی شکنجے میں پھنسا ہی ہوتا ہے۔
یونیورسٹیوں کی بربادی کا بنیادی سبب غیر ضروری سیاسی مداخلت اور حکومت اور
سیاسی جماعتوں کا اپنے مقاصد کے حصول کے لئے طلبا کو استعمال کرنا
ہے۔پاکستانی یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرز کا تقررریسرچ کی بنیاد پر ہوتا
ہے۔انتظامی صلاحیت کا اس تقرری میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔بیرونی ڈگری اور
نام نہاد بیرونی تجربہ رکھنے والے فنکار اس تقرری کے لئے مد مقابل ہوتے
ہیں۔ مقامی پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈراور مقامی تجربہ رکھنے والے لوگوں کو یکسر
نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔یونیورسٹیوں اور تعلیم کی بہتری کے لئے ضروری ہے
کہ مقامی تجربہ رکھنے والے لوگوں کو ترجیح دی جائے۔ اصولی میرٹ امیدوار کی
صلاحیتیں ہوں نہ کہ حکومتی وفاداری۔ریسرچ پیپرز کا انبار بھی انتظامی طور
پر کسی کے اہل ہونے کا ضامن نہیں ہوتابلکہ دیانتدار ریسرچر انتظامی معاملات
میں کمزور ہوتے ہیں۔وائس چانسلر انتظامی صلاحیت کے حامل لوگ ہوں اور مکمل
با اختیار ہوں۔انہیں یونیورسٹیوں کو ہر طرح کے تخریبی اور سیاسی عناصر سے
پاک کرنے کا ٹاسک مکمل سپورٹ کے ساتھ دیا جائے تو صورتحال یقیناً بہت بہتر
ہو سکتی ہے ۔مگر یہ صرف حکومت کی اپنی مخلصانہ کوششوں ہی سے ممکن ہے۔ |