فطری طور پر رمضان المبارک میں نیکیوں کی طرف عام
آدمی کا رجحان بھی بہت زیادہ ہو جاتا ہے، جن مساجد میں گنتی کے نمازی ہوتے
ہیں، رمضان میں وہاں جگہ نہیں ملتی، جمعتہ المبارک کی تو بات ہی کیا ہے۔
اسی طرح نماز تراویح میں آغاز میں بہت سے نمازی ہوتے ہیں، مگر روز بروز ان
کی تعداد میں کمی واقع ہوتی جاتی ہے، اور پھر آخری ابال جمعتہ الوداع کے
موقع پر آتا ہے، جس روز مساجد میں تل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی۔ یہ تو اُن
لوگوں کی کہانی ہے جو مساجد میں کبھی کبھار ہی جاتے ہیں، جو لوگ مستقل
نمازی ہیں، ان کے خشوع وخضوع میں بھی اسی حساب سے اضافہ ہوتا ہے۔ پورے
معاشرے پر نیکیوں کے اس موسم کا بہت گہرا اثر ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ
مہینہ تربیت کے لئے ہوتا ہے، اس میں کئے جانے والے عوامل کو سال بھر جاری
رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے، مگر مایوسی اس وقت ہوتی ہے، جب رمضان میں تمام تر
نیکیوں پر عمل کرنے والے رمضان کے جاتے ہی پرانی ڈگر پر واپس آجاتے ہیں،
مساجد خالی، رویے جارحانہ، معاملات میں گڑ بڑ اور دوسرے بھی تمام کام شروع
کردیئے جاتے ہیں۔
رمضان میں اپنے ہاں ایک نیکی عمرہ کی ادائیگی ہے، اس کارِ خیر کے لئے
پاکستان سے ایک بڑی تعداد مکہ اور مدینہ پہنچتی ہے، اپنے ایمان کی تجدید
کرتی اور اسے تازگی بخشتی ہے۔ اس خبر سے پوری پاکستانی قوم آگاہ ہو چکی ہے
کہ دنیا بھر سے عمرہ کرنے والوں میں پاکستان دوسرے نمبر پر ہے۔ عمرہ کی
ادائیگی ایک عظیم نیکی ہے، جو صرف باوسیلہ لوگ ہی کر سکتے ہیں، پاکستان میں
چونکہ ایسے لوگوں کی کمی نہیں، ملک میں دو طبقات کی تعداد میں ہی اضافہ ہو
رہا ہے، امیر اور غریب۔ امیروں میں تاجر طبقہ عمرہ کی ادائیگی میں سب سے
زیادہ دلچسپی لیتا ہے، رمضان المبارک میں عمرہ کا ثواب یقینا بہت زیادہ ہے،
جبھی تو پوری دنیا سے مسلمان مکہ پہنچتے ہیں، مہینہ بھر وہاں رہتے، روزے
رکھتے، قیام و سجود سے لطف اندوز ہوتے، راتیں جاگتے اور اعتکاف کرکے نیکیاں
سمیٹتے ہیں۔ ملک کے اندر بھی دیکھا جائے تو غریبوں میں رمضان پیکٹ (جسے
پیکیج بھی کہا جاتا ہے) تقسیم کرنے میں اپنی قوم بہت آگے ہے۔ ہزاروں لوگ،
لاکھوں مستحق اور غریب خاندانوں کی مدد کرتے اور ثوابِ دارین میں اپنا حصہ
وصول کرتے ہیں۔ دل کھول کر مستحق لوگوں کی مدد کی جاتی ہے۔ دوسری طرف یہی
لوگ جو عمرہ ، افطاریوں اور غریبوں کی مدد سے نیکیاں سمیٹ رہے ہوتے ہیں،
عام زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں لاتے، شاید اس کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ ایک
طرف ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری سے عوام کا استحصال کرتے ہیں،
انہیں ہر چیز مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں تو دوسری طرف اسی پیسے سے عمرے
اورحج کرتے اور مذہب کے نام پر بڑی بڑی تقریبات منعقد کرتے ہیں۔
کسی فرد کو دوسروں کی مدد پر اکسایا نہیں جاسکتا، یہ اخلاقی اورمذہبی
معاملات ہیں، مگرتاجروں کو اجناس کے بھاؤ قابو میں رکھنے کے قانون پر عمل
کرنے کا پابند تو بنایا جانا چاہیے، ذخیرہ اندوزوں کے خلاف تو کارروائی عمل
میں لائی جاسکتی ہے، ملاوٹ کرکے اپنے مال کو بڑھاوا دینے والوں کو تو پکڑا
جاسکتا ہے۔ مگر کیا کیجئے کہ اپنے ہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔ یہ معاملہ صرف
تاجروں کا ہی نہیں، صنعتکاروں کا بھی ہے، بیوروکریسی کی آمدنیوں کا مسئلہ
بھی ہے۔ ناجائز کی آمدنیوں سے عمرے بھی جاری ہیں اور خدمتِ خلق کے کاروبار
بھی۔ رمضان المبارک انسان میں تبدیلی چاہتا ہے، یہ نہیں ہے کہ سارا سال ہی
رمضان جیسا ماحول رکھا جائے، ایسا ممکن بھی نہیں ہو سکتا، مگر یہ تو ہو
سکتا ہے کہ جوکچھ رمضان المبارک میں سیکھا جاتا ہے، اس پر عمل ہی ہو جائے،
جن برائیوں سے انسان رمضان میں رک جاتا ہے، دوسرے گیارہ ماہ میں بھی ایسا
ہی ہو جائے، نیکی اور قربانی کا جو جذبہ ایک ماہ اس کے اندر پیدا ہوتا ہے،
وہ باقی مہینوں میں بھی جاری رہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ حرام حلال کی تمیز
اور فرق تو مستقل ہونا چاہیے۔ اسلام میں نیکی ، بدی، کاروبار اور خدمات کے
الگ الگ خانے نہیں ہیں، ہر چیز اسلام کے دائرے اور اختیار میں ہے، اسی کے
مطابق کاروبار اور ملازمت کے تقاضے ہیں۔ رمضان کا تقاضا بھی یہی ہے کہ یہ
ایک تربیتی کورس ہے، جو اس میں سیکھا جاتا ہے، اسی پر عمل کرنے میں ہی
انسان کی اپنی اور پوری کائنات کی بھلائی ہے۔ |