روزے کے جائزومستحب امور

روزہ کے جائز امور:مندرجہ ذیل باتوں سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔
بھول کر کھاناپینا، سہوا قے کرنا، طاقت رکھنے والوں کا بیوی سے بوس وکنار کرنا،خود بخود خون آنا مثلا نکسیر ، زخم یا طبی معائنہ کی غرض سے تھوڑا سا خون نکالنا، غیرمقوی انجکشن لگانا، سرمہ لگانا، کلی کرنا ، ناک میں پانی ڈالنا، سر پہ پانی ڈالنا، نہانا، ضرورتا کھانے کا ذائقہ چکھنا بشرطیکہ معدے میں نہ جائے ، احتلام ہوجانا، حالت جنابت میں صبح ہوجانا، - کان اور آنکھ میں قطرے ڈالنا(ناک کے قطرہ کے متعلق اختلاف ہے یہ عمل رات میں کرے تو بہترہے)،غیرقوی الاثرٹوتھ پیسٹ کرنا وغیرہ ۔
روزہ کے مستحب امور:
یہاں رمضان سے متعلق ان امور کا ذکر کیا جاتاہے جن کا انجام دینا مستحب وپسندیدہ ہے ۔
٭ تمام قسم کی طاعت وبھلائی پر محنت کرنا: مثلا تلاوت قرآن کریم ، اور اس میں تدبروتفکر،بکثرت صدقہ وخیرات،ذکرالہی اور فرائض وواجبات کے علاوہ نفلی عبادات پر محنت کرنا۔
٭ افطار میں جلدی کرنا: نبی ﷺ کا فرمان ہے : لایزال الناس بخیرماعجلوا الفطر( بخاری) اس وقت تک لوگ بھلائی کی راہ پر گامزن رہیں گے جب تک کہ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے ۔
اور اس سے یہودونصاری کی مخالفت مقصود ہے ۔ "لان الیھود والنصاری یوخرون"کیونکہ یہودونصاری افطاری میں تاخیر کرتے ہیں ۔
٭ تازہ کھجور سے افطار کرنا: عن انس کان النبی ﷺ یفطر علی رطبات قبل ان یصلی فان لم یکن فعلی تمرات فان لم تکن تمرات حسا حسوات من ماء (احمد وابوداؤد وحسنہ البانی)
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز مغرب سے پہلے تازہ کھجوروں سے افطار کیا کرتے تھے ،اگر تازہ کھجوریں نہ ملتیں تو خشک کھجوروں سے افطار کرلیا کرتے تھے ، اگر خشک کھجوریں میں میسر نہ ہوتیں تو پانی کے چند گھونٹوں پر ہی روزہ افطار کرلیا کرتے تھے ۔
٭ افطار کے وقت دعا کرنا: ویسے دعا ہروقت مشروع ہے اور دعا عبادت ہے مگر بعضاوقات دعا کے لئے بہت اہم ہیں ، ان میں ایک افطار کا وقت بھی شمار کیاجاتاہے ، اس کی متعدد دلیلیں ہیں ان میں سے ایک یہ ہے ۔
ثلاثٌ لا تُرَدُّ دعوتُهُم ، الإمامُ العادلُ ، والصَّائمُ حينَ يُفطرُ ، ودعوةُ المظلومِ(صحيح الترمذي:2526)
ترجمہ : تین قسم کے لوگوں کی دعا رد نہیں کی جاتی ہے ۔ ایک منصف امام کی ،دوسرے روزہ دار کی جب وہ افطارکرے، تیسرے مظلوم کی ۔
٭ سحری میں تاخیرکرنا: بغیر سحری کے بھی روزہ درست ہے مگر نبی ﷺ نے خود بھی سحری کھائی ہے اور دوسروں کو بھی سحری کی ترغیب دی ہے اور فرمایاہے سحری کھاؤ کیونکہ اس میں برکت ہے ۔مسلم شریف کی روایت میں ہے ۔
فصلُ ما بين صيامِنا وصيامِ أهلِ الكتابِ ، أكْلةُ السَّحَرِ(صحيح مسلم:1096)
ترجمہ: ہمارے اور اہل کتاب کے روزے کے درمیان سحری کا فرق ہے ۔
٭ روزے کی حالت میں گندے اخلاق اور بری باتوں سے بچنا ۔ اگر کوئی گالی دے تو کہہ دیں میں روزے سے ہوں ۔
إذا أصبَحَ أحدُكُم يومًا صائمًا ، فلا يرفُثْ ولا يجهَلْ . فإنِ امرؤٌ شاتمَهُ أو قاتلَهُ ، فليقُلْ : إنِّي صائمٌ .
إنِّي صائمٌ(صحيح مسلم:1151)
ترجمہ: جب تم میں سے کوئی روزے کی حالت میں ہو تو گندی باتوں اور نادانیوں سے پرہیز کرے ، اگر کوئی تماہرے ساتھ گالی گلوج اور قتال کرے تو کہہ دو میں روزے سے ہوں ، میں روزے سے ہوں۔
من لمْ يَدَعْ قولَ الزورِ والعملَ بِهِ ، فليسَ للهِ حاجَةٌ في أنِ يَدَعَ طعَامَهُ وشرَابَهُ .(صحيح البخاري:1903)
ترجمہ : اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا اور دغا بازی کرنا ( روزے رکھ کر بھی ) نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔
٭لوگوں کو افطار کرانا: نبی پاک ﷺ نے فرمایا:
مَن فطَّرَ صائمًا كانَ لَهُ مثلُ أجرِهِ ، غيرَ أنَّهُ لا ينقُصُ من أجرِ الصَّائمِ شيئًا(صحيح الترمذي:807)
ترجمہ: جس شخص نے کسی روزہ دارکو افطارکروایاتواس شخص کوبھی اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا ثواب روزہ دار کے لئے ہوگا،اورروزہ دارکے اپنے ثواب میں‌ سے کچھ بھی کمی نہیں کی جائے گی۔
٭ عمرہ کرنا: رمضان شریف میں عمرہ کا ثواب حج کے برابر ہے ، ایک دوسری روایت میں نبی ﷺ کے ساتھ حج کرنے کے برابر کہا گیا ہے ۔
٭مسواک کرنا: آپ ﷺ کا دستور ہمیشہ مسواک کیا کرتے تھے اور رمضان شریف
میں بکثرت کیا کرتے تھے ۔عمار بن ربیعہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يستاك وهو صائم مالا أحص أو أعد(رواه البخاري معلقا)
ترجمہ: میں نے نبی ﷺ کو روزے کی حالت میں شمار کرنےسے زیادہ مسواک کرتے دیکھا۔
اسے امام بخاری نے تعلیقا روایت کیا ہے ۔
٭ بچوں سے تربیت کے طور پر روزہ رکھوانا : اگر بچہ روزہ رکھنے کی طاقت رکھتاہوتو اسے عادتا روزہ رکھوانا چاہئے ۔ ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم اپنے بچوں سے روزہ رکھواتے تھے اور ان کے لئے کھلونے رکھتے ، جب بچے کھانے کے لئے روتے تو ہم انہیں وہ کھلونے پیش کردیتے یہاں تک کہ افطار کا وقت ہوجاتا۔ (بخاری)
٭ اعتکاف : اعتکاف رمضان میں کئے جانے والے ان اعمال میں سے ہے جس کی تاکید آئی ہے ۔ اور یہ ان سنتوں میں سے سنت مؤکدہ ہے جس پہ نبی ﷺ نے ہمیشگی برتی ہے اور آخری عشرے میں اس کی تاکید کی ہے ۔ اس کی دلیل حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ہے کہ نبی ﷺ ہرسال رمضان میں دس دن کا اعتکاف کیا کرتے تھے ، انتقال کے سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا۔(بخاری)

Maqbool Ahmed Salfi
About the Author: Maqbool Ahmed Salfi Read More Articles by Maqbool Ahmed Salfi: 315 Articles with 315173 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.