اسلام سے دور ہوتے مسلمان

وِن گیلپ انٹرنیشنل ایسوسی ایشن(WIN/GIA) ایک ریسرچ اینڈ پولنگ فرم ہے۔ سن 2014ء میں اس فرم نے ایک سروے کیا۔ جس کا عنوان تھا ’’ کیا مذہبی رجحانات دم توڑ رہے ہیں؟‘‘ اس سروے کے مطابق دنیا کی 59%آبادی اپنے آپ کو مذہبی کہتی ہے۔ 13%آبادی اپنے آپ کو دہریہ اور 23%آبادی کسی بھی مذہب سے لاتعلقی کا اظہار کرتی ہے۔اس تحقیق کے مطابق دہریے زیادہ تر چین، جاپان، اور مغربی یورپ میں ملتے ہیں۔ مذہبی میلانات والے علاقوں میں افریقا، مشرق وسطی، جنوب مشرقی ایشیا، جنوبی یورپ اور لاطینی امریکا کے علاقے شامل ہیں۔

اس سروے کی رو سے کم آمدنی والے افراد امراء کے مقابلے میں سترہ فیصد زیادہ مذہبی رجحانات رکھتے ہیں۔نیز کم تعلیم یافتہ لوگوں میں بھی مذہبی رجحانات زیادہ ہوتے ہیں۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ عمر رسیدہ افراد میں بھی یہ رجحان نوجوانوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔ زیادہ تر 65سال کی عمر تک پہنچنے کے بعد بوڑھوں میں یہ رجحان ترقی کر جاتا ہے۔

دنیا کے تمام مذاہب میں اسلام سب سے زیادہ تیزی کے ساتھ بڑھنے والا مذہب ہے۔ جو تقریبا 1.6%سالانہ کے حساب سے پھیل رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی آبادی بھی دن بدن بڑھ رہی ہے۔ جس نے اسلام مخالف اذہان کو چکرا کر رکھ دیا ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جتنی تیزی کے ساتھ اسلام پھیل رہا ہے۔ مسلمانوں کی زندگیوں سے اسلام اسی تیزی کے ساتھ نکلتا بھی جا رہا ہے۔ آپ کو اپنے اردگرد ہزاروں لوگ ایسے مل جائیں گے جنہیں کلمہ طیبہ تک صحیح طریقے سے یاد نہیں۔ اسلام کے ضروری مسائل جن کے بارے میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم (علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے)تک سے آگاہی نہیں ہے۔

گذشتہ دنوں ایک بزرگ سے ملاقات ہوئی جن کی عمر ستر سال کے قریب تھی۔ باتوں باتوں میں پتہ چلا کہ انہیں غسل جیسے اہم فریضہ کے مسائل سے آگاہی نہیں ہے۔ اسی طرح ایک پچاس سالہ عورت جو پانچ بچوں کی ماں تھی، اسے بھی ان مسائل کا کوئی علم نہ تھا۔ الیکشن کے دنوں میں ہمارے سیاسی لیڈروں کے دینی علم کا حال تو سب کے سامنے ہے۔ جنہیں اپنے نبی کریمﷺ کا نام تک نہیں آتا۔ پچھلی گورنمنٹ کے ایک وزیر صاحب کو سورۃ اخلاص یاد نہیں تھی۔اسی طرح ایک وزیر تعلیم کو قرآن مجید کے پاروں کی تعداد کا علم نہیں تھا۔ اور نوجوان حضرات کی حالت تو اس سے بھی پتلی ہے۔ مغربی تہذیب کی نقالی انہیں دن بدن دین سے دور کرتی جار ہی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے ہمارا دین دار طبقہ تفرقہ بازی اور مسالک کی حفاظت کی بجائے لوگوں کے بنیادی عقائد بچانے پر توجہ دے۔ انہیں اسلام کے بنیادی ارکان اور فرائض سے آگاہی دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ حجۃ الوداع کے مطابق ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر غائب تک دین کی بات پہنچائے۔ اس سلسلے میں وہ انفرادی و اجتماعی حیثیت سے جس طرح بن پڑے ،حصہ لے۔ علماء کرام رمضان المبارک میں ’’درس فقہ‘‘ کے عنوان سے محافل سجائیں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کی شرکت اس میں ضروری بنائیں۔ تاجر اپنے کاروبار کے اسلامی طریقے علماء کرام سے سیکھیں، اور زمیندار کاشتکاری کے اسلامی احکام سے آگاہی حاصل کریں۔ ملازم طبقہ اپنے فرائض کی نشاندہی کے لیے اسلامی احکام کا مطالعہ کریں۔ اور نوجوانوں کو دین سے روشناس کرانے کے لیے سکول و کالج کی سطح پر اسلامیات کو تین حصوں میں تقسیم کر کے پڑھایا جائے۔ جس میں ایک حصہ عقائد کا ، دوسرا اخلاقیات اور تیسرا حصہ بنیادی مسائل کا ہونا چاہیے۔

جب عوام اپنے مذہبی پیشواؤں سے تعلق جوڑیں گے تو دونوں فریقوں کی غلط فہمیاں دور ہوں گی، آپس میں محبت والفت بڑھے گی۔ اور مذہبی حلقے کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس بھی ہوگا۔ جس کا فائدہ یہ ہوگا کہ مذہبی و غیر مذہبی حلقوں میں پنپنے والے احساس محرومی کے جذبات اور تفرقہ بازی کی حوصلہ شکنی ہوگی، وطن کی محبت اجاگر ہوگی۔ اسلام کی حقیقی روح مردہ دلوں کو زندہ کر دے گی جس سے پوری دنیا کو اسلام کا حقیقی اور اصلی چہرہ دیکھنا نصیب ہوگا۔
کتنے نغمے ہیں جو پردوں میں چھپا رکھے ہیں
آپ چھیڑیں تو یہ سازِ دلِ ناساز کبھی

Abdus Saboor Shakir
About the Author: Abdus Saboor Shakir Read More Articles by Abdus Saboor Shakir: 53 Articles with 89521 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.