ہاکی کے کھیل کا شماردنیا کےقدیم ترین اور مشہور کھیلوں
میں ہوتا ہے، کرکٹ کی طرح اس کی تاریخ بھی بہت پرانی ہے۔یہ پاکستان اور
بھارت کا قومی کھیل ہےجب کہ اس کھیل کا پہلا عالمی چیمپئن اور سب سے زیادہ
عالمی مقابلوں میں جیت کا اعزاز ہمارے ملک کے پاس ہے۔ پاکستان میں ہاکی کا
ماضی درخشاں رہا ہے، حال مایوس کن ، جب کہ مستقبل مزید بد حال نظر آتا
ہے۔قومی ہاکی ٹیم نے آج سے 66سال قبللندن سے اپنا بین الاقوامی سفر شروع
کیا تھا اور اب تک پندرہ بار اولمپکس کے ہاکی مقابلوں میں حصہ لیا اور تین
سونے، تین چاندی اور دو کانسی کے تمغے حاصل کیے اور اولمپکس گیمز میں ہاکی
کے کھیل کی پرچم بردار رہی ہے۔عالمی کپ کے 13مقابلوں میں سب سے زیادہ میں
پاکستان فاتح رہا۔ قومی ہاکی ٹیم نے انتہائی باصلاحیت کھلاڑیوں کو جنم دیا
ہے جو کئی عشرے تک عالمی ہاکی پر حکومت کرتے رہے لیکن اس کھیل کے معاملات
کو سیاسی انداز میں طے کرنے کی بناء پر یہ کھیل رو بہ زوال ہوتا گیا۔
قومی ہاکی ٹیم نے آزادی کے بعدلندن سے اپنے بین الاقوامی سفر کا آغاز کیا
اور پہلی مرتبہ1948ءء کے لندن اولمپکس میں پاکستانی ہاکی ٹیم نے علی اقتدار
شاہ دارا کی قیادت میں حصہ لیا ۔پاکستانی ٹیم نے گروپ سی میں بیلجیئم کو دو
ایک سے، ڈنمارک کو نو صفر سے، فرانس کو تین ایک سے اور ہالینڈ کو چھ ایک سے
شکست دے کر با آسانی سیمی فائنل میں جگہ بنا لی۔سیمی فائنل میں اس کا
مقابلہ میزبان ملک برطانیہ سے ہوا جس نے اسے صفر کے مقابلے میں دو گول سے
شکست دے دی۔تیسری پوزیشن کے لیے کھیلے گئے میچ میں ہالینڈ نے پاکستان کو
چار ایک سے ہرا دیا، جس کی وجہ سے پاکستان کے حصے میں اولمپکس مقابلے کی
چوتھی پوزیشن آئی۔
چار سال بعد1952ء میں پولینڈ کے شہر ہیلسنکی میں منعقدہ اولمپکس مقابلےمیں
بھی پاکستانی ہاکی ٹیم چوتھے نمبر پر آئی۔اس ٹیم کے کپتان نیاز خان
تھے۔سیمی فائنل میں اسے ہالینڈ نے ایک گول سے ہرا یا جب کہ تیسری پوزیش کے
لیے کھیلے گئے میچ میں پاکستان کو برطانیہ کے ہاتھوں ایک کے مقابلے میں دو
گول سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔1956ء میںآسٹریلیا کے شہر میلبورن میں ہونے
والے اولمپکس مقابلوںمیں عبدالحمید حمیدی کی کپتانی میں پاکستانی ہاکی ٹیم
نےماضی کی بہ نسبت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسری پوزیشن حاصل
کرکےچاندی کا تمغہ جیتا۔ اس ٹورنامنٹ میںسیمی فائنل میں اس نے برطانیہ کو 2
مقابلے میں 3گول سے شکست دی۔ فائنل مقابلہ بھارت سے ہوا جس میںاسے ایک گول
سے شکست ہوئی اور یہ سونے کا تمغہ حاصل کرنے سے محروم رہا۔1960ء کے روم
اولمپکسمیںپاکستان ہاکی ٹیم نے1960ء کے روم اولمپکسمیںپاکستانی ہاکی ٹیم نے
اہم تاریخی فتح حاصل کی ۔عبدالحمید حمیدی کی قیادت میں پاکستانی ٹیم نے
فائنل میں نصیر بندہ کے خوب صورت گول کی بہ دولت بھارت کو ایک گول سےشکست
دے کر پہلی بار اولمپکس چیمپئن شپ جیت کر سونے کا تمغہ حاصل کیا۔1964ء میں
اولمپکس مقابلوں کی میزبانی ایشیاء کے حصے میں آئی اور جاپان کے شہر
ٹوکیوکے ہاکی کے اولمپکس مقابلے میں پاکستانی ٹیم اپنے اعزاز کا دفاع کرنے
میں ناکام رہی اور فائنل میچ میں روایتی حریف، بھارت نے اسے ایک گول سے
شکست دے کر یہ مقابلہ جیت لیا۔اس ٹیم کے کپتان بریگیڈئیر(ر) منظور حسین
عاطف تھے۔1968 میں میکسیکو میںمنعقد ہونے والے اولمپکس گیمز میں پاکستان
ہاکی ٹیم نے طارق عزیز کی قیادت میں شرکت کی اور مختلف ٹیموں کو ہا کر سیمی
فائنل تک رسائی حاصل کرلی جس میںاس کا مقابلہ جرمنی سے ہوا اور وہ اسے ایک
گول سے شکست دے کر فائنل میں پہنچ گئی۔ فائنل میں پاکستان کا مقابلہ اپنے
ہی گروپ کی ٹیم آسٹریلیا سے ہوا جس میں پاکستان ، ایک کے مقابلے میں دو
گول سے کامیابی حاصل کر کے دوسری مرتبہ اولمپک کا فاتح قرار پایا۔
1972ء کے میونخ اولمپکس میں پاکستان کو انتہائی ناگفتہ بہ صورت حال کا
سامنا کرنا پڑ، اس ٹورنامنٹ میں نہ صرف ہماری قومی ٹیم کو اولمپکس چیمپئن
شپ کےاعزاز سے محروم کیا گیا بلکہ اسے پابندی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔اسد
ملک کی قیادت میں ہماری قومی ٹیم اس ٹورنامنٹ میں سیمی فائنل کے مرحلے تک
پہنچ گئی تھی۔ سیمی فائنل میں اس کا مقابلہ بھارت سے ہوا جسے شکست دے کر وہ
فائنل میں آئی جہاں اس کا مقابلہ میزبان ٹیم جرمنی سے تھا۔فائنل مقابلہ
بہت سخت تھا، اس کے علاوہ امپائرنگ بھی جانب دارانہ تھی، جسکے نتیجے میں
پاکستانی ٹیم کو ایک متنازعہ گول کی وجہ سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔اس میچ
میں پاکستان ہاکی ٹیم ، کھیل کے آغاز سے ہی ارجنٹائن کےامپائر، سرویٹو اور
آسٹریلیا کے رچرڈ جیول کے متنازعہ فیصلوںسےسخت ناراض تھی اورجب میچ کا
فیصلہ اس کے خلاف گیا تو اس نے اپنی ناراضی کا اظہار میڈلزکی تقسیم کے وقت
کیا۔ ایوارڈز کی تقریب میں پاکستانی کھلاڑیوں نے اپنے چاندی کے تمغوں کو
توڑ ڈالا اور کچھ نے تو انہیں اپنی ہاکی اسٹکس اور جوتوں پر گھمانا بھی
شروع کردیا، جب کہ شہناز شیخ نے میڈل اپنے جوتے پر وصول کیا ، جس پر عالمی
ہاکی فیڈریشن نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے پاکستانی ٹیم پر پابندی عائد
کر دی جو پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدرایئرمارشل نور خان کی سخت کوششوں کے
نتیجے میں کچھ عرصے بعد ختم ہو سکی۔ تاہم کپتان اسد ملک پھر کبھی بھی بین
الاقوامی ہاکی ٹیم کا حصہ نہ بن سکے ۔ 1973ء کے عالمی کپ کے لیے پاکستان کو
ایک نئی ٹیم تشکیل دینا پڑی۔
1976 کے مانٹریال اولمپکس میں پہلی بار ہاکی کے مقابلوں کا انعقاد قدرتی کی
بجائے مصنوعی گھاس ،یعنی آسٹرو ٹرف پرکیا گیا۔رشید جونیئر کی قیادت میں
جانے والی پاکستانی ٹیم کو سیمی فائنل میں آسٹریلیا نے ایک کےمقابلے میں
دو گول سے ہرا دیا۔تیسری پوزیشن کے لیے کھیلے گئے میچ میں پاکستان نے
ہالینڈ کو دو کے مقابلے میں تین گول سےشکست دےکرتیسری پوزیشن جیتی اور
کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔1980ء میں اولمپکس مقابلوں کی میزبانی روس کے حصے
میں آئی لیکن پاکستانی ہاکی ٹیم کی بدقسمتی کہ 1979ء میں افغانستان میں
روسی فوجوں کی موجودگی کے خلاف عالمی برادری نے روس کا بائیکاٹ کردیا،
پاکستان بھی اس میں پیش پیش رہا۔ اس دوران پاکستان ہاکی ٹیم اپنے عروج پر
تھی لیکن اسے بھی مغربی ممالک کی ہم نوائی میںماسکو اولمپکس کا بائیکاٹ
کرنا پڑا۔ہاکی کی صف اول کی ٹیموں کیعدم شرکت کافائدہ اٹھا کر بھارت نے
ماسکو اولمپکس کے فائنل میںا سپین کو ہرا کر1980ء کی اولمپکس چیمپئن کا
اعزاز حاصل کرلیا۔1984 میں لاس اینجلس میں ہونے والا اولمپکس ایک بار پھر
پاکستانی ہاکی کے لیے خوش قسمتی کا پیغام لے کر آیا۔ منظور جونیئر کی
قیادت میں پاکستانی ٹیم سولہ سال بعد تیسری مرتبہ اولمپک چیمپئنجیتنےکا
اعزاز حاصل کیا۔ سیمی فائنل میں پاکستان نے آسٹریلیا کوسینٹر فارورڈ حسن
سردار کے گول کی بدولت شکست دی۔
فائنل ، پاکستان اور جرمنی کے درمیان ہوا، جس میںجرمنی کی ٹیم کے چیلنج پر
ایک کے مقابلے میں دوگول سے اسے شکست سے دوچار کیا، میچ کافیصلہ کن گول
کلیم اللہ نے کیا۔1988ء کےکوریا کے شہر سیول میں ہونے والے اولمپکس مقابلوں
میںناصر علی کی قیادت میں شرکت کرنے والی پاکستان ہاکی ٹیم کا کھیل انتہائی
مایوس کن رہا۔ اس نےناقص کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پانچویں پوزیشن حاصل
کی۔یہ پہلا موقع تھا کہ پاکستانی ٹیم، سیمی فائنل تک بھی نہ پہنچ سکی۔1992ء
میں اسپین کے شہر بارسلونا میں اولمپکس مقابلے منعقد ہوئے جن میں پاکستان
ہاکی ٹیم نے شہباز احمد کی قیادت میں شرکت کی ۔ پاکستانی ٹیم سیمی فائنل تک
پہنچ گئی، جس میں اسے جرمنی کی ٹیم نے سیمی فائنل میں پاکستان کو جرمنی نے
ایک کے مقابلے میں دو گول سے شکست دی۔ تیسری پوزیشن کا میچ پاکستان اور
ہالینڈ کے درمیان ہوا جس میں اس نے ہالینڈ کو تین کے مقابلے میں چار گول سے
ہراکر کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔
اس کے بعد پاکستان ہاکی ٹیم اولمپکس گیمز میں تمغوں کی دوڑ میں ہمیشہ کے
لیے پیچھے رہ گئی۔1996 کے اٹلانٹا اولمپکس سے قبل ٹیم کے بیشتر کھلاڑیوں نے
پاکستان ہاکی فیڈریشن کے خلاف بغاوت کردی ۔ جس کے بعد اس ٹیم نے اولمپکس
مقابلے میں حصہ لیااورٹیماس کے حصے میںچھٹی پوزیشن آئی ۔2000ء کے سڈنی
اولمپکس میں پاکستانی ٹیم نے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کی تاہم اسے جنوبی
کوریا نے ایک گول سے ہرا دیا۔ تیسری پوزیشن کے میچ میں پاکستانی ٹیم
آسٹریلیا سے3کے مقابلے میں 6گول سے شکست کھا گئی،اس طرح یہ کانسی کے تمغے
سے بھی محروم ہوگئی۔2004 میں یونان میں منعقد ہونے والےایتھنز اولمپکس
میںاپنے گروپ میں تیسرے نمبر پر آنے کے سبب ہماری قومی ٹیم سیمی فائنل میں
نہ پہنچ سکی اور سہیل عباس کی ہیٹ ٹرک کی بدولت اس نے نیوزی لینڈ کو چارکے
مقابلے میں دوگول سے ہرا کر پانچویں پوزیشن حاصل کی۔2008ء کے بیجنگ اولمپکس
پاکستانی ہاکی ٹیم کے لیے انتہائی مایوس کن ثابت ہوئے کیوں کہ ان مقابلوں
میں اس نے بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بارہ ٹیموں کے مقابلے میں
آٹھویں پوزیشن حاصل کی۔ اس ٹورنامنٹ میںاپنے گروپ کی کمزور ٹیموں کینیڈا
اور جنوبی افریقہ کو ہرانے کے بعد ساتویں پوزیشن کے میچ میں اس کا مقابلہ
نیوزی لینڈ سے ہوا جس نے چارکے مقابلے میں دو گول سے شکست دے پاکستانی ٹیم
کو آٹھویں پوزیشن پر دھکیل دیا۔2012ء میں لندن اور 2016ء میں ریو ڈی جنیرو
اولمپکس میں پاکستان کوئی بھی پوزیشن حاصل کرنے سے محروم رہا۔
پاکستان ہاکی ٹیم کی عالمی کپ کے مقابلوں میں بھی خاصی بہتر پوزیشن رہی ہے
اوراس نے چار مرتبہ عالمی چیمپئن شپ کی جیت کا عالمیریکارڈ قائم کیا جسے
آج تک کوئی بھی غیرملکی ٹیم نہ توڑ سکی۔ ہماری ٹیم کو ہاکی کے پہلےعالمی
چیمپئن بننے کا بھی اعزاز حاصل رہا۔ عالمی کپ کے مقابلوں کاآغاز 1971ء سے
ہوا، جو پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر، ایئر مارشل (ریٹائرڈ) نور خان کے ذہن
کی اختراع تھی۔ انہوں نے اس کا ذکرورلڈ ہاکی میگزین کے پہلے ایڈیٹر پیٹرک
رولی سے کیا جنہوں نے اس پر انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن کے عہدیداروں سے اس پر
تبادلہ خیال کیا۔ 26؍ اکتوبر 1969ء کو عالمی کپ کی تجوبز آئی ایچ ایف کے
ایجنڈے میں شامل کرلی گئی۔ 12؍اپریل 1970ء میں برسلز میںمنعقد ہونے والے
اجلاس میںعالمی کپ کے انعقاد کا فیصلہ کیا گیا اوراکتوبر 1971ء میں پہلے
عالمی کپ کی میزبانی پاکستان کو دی گئی۔ پہلے عالمی کپ کے تمام اخراجات کی
ذمہ داری پاکستان نے برداشت کی اور اس کی ٹرافی بھی یہاں پر ہی تیار ہوئی
تھی۔ اسے رشید موجد نے ڈیزائن کیا اور پاکستان آرمی نے اسے بنا کر نور خان
کو دی جوبعد ازاں انہوں نے لاہور میں منعقدہ ایک تقریب میں انٹرنیشنل ہاکی
فیڈریشن کے صدر رینی فرینک کو پیش کی۔عالمی کپ کے پہلے تین ٹورنامنٹ دو‘ دو
سال کے وقفے سے منعقد ہوئے۔ پھر 29 ستمبر 1974ء کو آئی ایچ ایفنے فیصلہ
کیا کہ عالمی کپ کے آئندہ ٹورنامنٹ چار چار سال کے وقفے سے منعقدہوا کریں
گے۔
1971ء میںپہلے عالمی کپ کی میزبانی کے لیے پاکستان کا انتخاب کیا گیا لیکن
یہاں بدامنی کی وجہ سے اس کاانعقادپاکستان کی بجائے اسپین کے شہر بارسلونا
میں ہوا۔ پہلے عالمی میں پاکستان ٹیم نے خالد لطیف کی قیادت میں شرکت کی
اور فائنل میںمیزبان ملک ا سپین کو شکست دے کر ہاکی کے عالمی چیمپئن کا
اعزاز حاصل کیااس میچ میں پاکستانی ٹیم نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا
اور فائنل میں اسپین کو 1۔ صفر سے شکست دے کر پہلا عالمی کپ جیت لیا۔میچ کا
واحد اور فیصلہ کن گول رائٹ بیک اختر الاسلام نے کیا۔ یہ ٹورنامنٹ جیت کر
پاکستان نے ہاکی کا گرینڈ سلیم بھی حاصل کیا۔ 1973ء میں ایمسٹرڈیم میں ہونے
والے عالمی کپ میں شرکت کرنے والی قومی ہاکی ٹیم نو آموز کھلاڑیوں پر
مشتمل تھی کیوں کہ 1972ء میں میونخ اولمپکس میں ہونے والے ناخوش گوار واقعے
کے بعد بیشتر کھلاڑی پابندی کا شکار تھے ، لیکن یہ ٹیم اچھے کھیل کا مظاہرہ
کرکے چوتھی پوزیشن حاصل کی۔1975ء کوالالمپور ملائشیا میں منعقدہ عالمی کپ
میں فائنل میں پاکستان کا مقابلہ بھارت سے ہوا۔ ایک متنازعہ گول کی بنیاد
پر بھارتی ٹیم فاتح قرار پائی اور پاکستان نے اس میچ میں دوسری پوزیشن حاصل
کی۔1978ء میںقومی ٹیم نے اصلاح الدین کی قیادت میں،ارجنٹائن کے شہر بیونس
آئرس میں کھیلے جانے عالمی کپ میںفائنل مقابلے میں ہالینڈ کو شکست دے کر
دوسری بار عالمی چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا۔1982ء میںہاکی کےعالمی کپ
کا انعقاد ممبئی میں ہوا جس میں پاکستانی ٹیم نے اختر رسول کی قیادت میں
دفاعی چیمپئن کی حیثیت سےا س ٹورنامنٹ میں شرکت کی۔ اس میچ میں پاکستان نے
بھارت کے خلاف کھیلتےہوئے اپنے اعزاز کا کامیابی سے دفاع کیا اور تیسری
مرتبہ عالمی کپ جیتنے کا اعزاز حاصل کیا۔ 1986ء میں لندن میں کھیلا گیا
عالمی کپ پاکستان کے لئے انتہائی مایوس کن رہا۔بارہ ٹیموں میں اس نے
گیارہویں پوزیشن حاصل کی۔1990ء میں میں پاکستان نے پہلی بار عالمی کپ کی
میزبانی کی۔لاہور میں کھیلے گئے اس ٹورنامنٹ کے فائنل میں پاکستان کو
ہالینڈ کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔1994ء میں پاکستان نےآسٹریلیا کے
شہر سڈنی عالمی کپ کے مقابلے میں شہباز احمد کی قیادت میں شرکت کی ۔ اس
ٹورنامنٹ میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چوتھی مرتبہ ہاکی کے
عالمی چیمپئن کا اعزاز حاصل کیا۔ اس فتح نے پاکستانی ٹیم پر بجائے مثبت کے
منفی اثرات مرتب کیے اور قومی ٹیم کی کارکردگی بد سے بدتر ہوتی گئی۔ 1998ء
سے لے کر 2014ء کے ورلڈ کپ تک قومی ٹیم کوئی بھی پوزیشن حاصل کرنے میں
ناکام رہی۔
پاکستان میں کئی ایسے ہاکی کے کھلاڑی پیدا ہوئے جن کے کھیل کی دنیا معترف
رہی ان میں سے چند کا ذیل میں ذکر ہے۔
قتدا ر علی شاہ دارا
پاکستان بننے سے قبل وہ بھارتی ہاکی ٹیم کے اہم کھلاڑی تھے۔ 1936ءکےمنعقد
ہونے والے برلن اولمپکس میں انہوں نےہندوستان کی نمائندگی کی اور فائنل میں
جرمنی کے خلاف ہیٹ ٹرک بنانے کا اعزاز حاصل کیا۔ قیام پاکستان کے بعد
1948ءکے لندن اولمپکس میں انہیں پاکستان ٹیم کی قیادت کرنے کا اعزاز حاصل
ہوا لیکن ٹیم کے بیشتر کھلاڑی ناتجربہ کار تھے جس کی وجہ سے قومی ٹیم کے
حصے میں چوتھی پوزیشن آئی۔۔ وہ اختر حسین اور لطیف الرحمن سمیت ہاکی کے ان
تین کھلاڑیوں میں شامل تھے جنہیں اولمپکس میں بھارت اور پاکستان، دونوں
ممالک کی نمائندگی کرنے کا موقع ملا تھا۔علی اقتدار شاہ دارا نے پاکستانی
ٹیم کے کوچ اور منیجر حیثیت سے بھیخدمات انجام دیں اور انٹرنیشنل ہاکی
فیڈریشن کے نائب صدر بھی رہے۔ انہوں نے 16 جنوری 1981ء کو کراچی میں وفات
پائی۔
نصیر بندہ
1960ء میں روم اولمپکس میں پاکستان ہاکی ٹیم کے ہیرو تھے۔عبدالحمید حمیدی
کی قیادت میں پاکستانی ٹیم نے فائنل میچ میں نصیر بندہ کے خوب صورت گول کی
بہ دولت بھارت کو ایک گول سےشکست دے کر پہلی بار اولمپکس چیمپئن شپ جیت
کرطلائی تمغہ حاصل کیا۔
منورالزماں
1971ء میں 19سال کی عمر میں ہاکی کیریئر کا آغاز کیا اور قومیہاکی ٹیم کا
حصہ بنے۔ ایک موقع پر جب تنویر ڈار زخمی ہوگئے تو منورالزماں نے اپنا پہلا
شاٹ لگایا۔ وہ اس میچ میں بھارت کے خلاف اپنی زندگی کا پہلا گول کرکے میچ
ونر کھلاڑی بن گئے۔ 1972ء اور 1976ء میں اولمپک مقابلوں میں شرکت کرنے والی
ٹیم کا حصہ رہے۔ انہوں نے اپنے ہاکی کیریئر کے 119میچوں میں 44گول اسکور
کیے۔ اپنے دس سالہ کیریئر میں انہوں نے 10گولڈ میڈل، 3سلور میڈل اور ایک
کانسی کاتمغہ حاصل کیا۔حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں بعد از مرگ ’’پرائیڈ
آف پرفارمنس‘‘ کا صدارتی ایوارڈ دیا گیا۔
اصلاح الدین
رائٹ ونگر کی حیثیت سے کھیلتے تھے۔ 1967ء س۔ 1978ء تک پاکستان ہاکی ٹیم کا
حصہ رہے 1978ء کے عالمی کپ میں قومی ٹیم کی قیادت کی اور پاکستان عالمی کپ
جیتا۔ اسی سال انہوں نے ایشین گیمز اور چیمپئنز ٹرافی جیت کر گولڈ میڈل اور
گرینڈ سلیم حاصل کیا۔ انہوں نے اپنے کیریئر کے دوران 130میچوں میں شرکت کی
، جن میں 117گول اسکور کیے۔ 1972کے اولمپکس میں چاندی، 19765میں کانسی کا
تمغہ جتوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ 1971ءکا عالمی کپ جتوانے میں بھی ان کی
کاوشیں قابل ذکر ہیں جن کو سراہتے ہوئے انہیں پرائیڈ آف پرفارنس اور ستارہ
امتیاز دیا گیا۔ ان کا ’’اصلاح ڈیش‘‘ ہاکی کے حلقوں میں خاصا مقبول رہا۔
حسن سردار
انہوں نے ہاکی کیریئر کا آغاز 1980ء میںکیا۔ 1982میں بھارت میں ہونے والے
عالمی کپ مقابلے میں وہ سینٹر فارورڈ کے طور پر کھیلے اور ٹیم کی فتح میں
نمایاں حصہ لیا۔ 1982ء میں ہی دہلی میں منعقدہ ایشین گیمز میں پاکستان نے
بھارت کوایک کے مقابلے میں 7گول سے شکست دے کر کامیابی حاصل کی جس میںان کی
ہیٹ ٹرک بھی شامل تھی۔
کلیم اللہ
قومی ٹیم کے فارورڈ کھلاڑی، 1979سے 1986سک قومی ہاکی ٹیم کا حصہ رہے ۔ ا
نہوں نے اپنے ہاکی کیریئر میں 176میچ کھیلے جن میں 97گول اسکور کیے۔ 1984ء
میں لاس اینجلس اولمپکس کی جیت میں ان کا کردار انتہائی اہم رہا۔ اس میچ کے
فائنل میں ، فاضل وقت میں انہوں نے گول کرکے پاکستانی ٹیم کوفتح سے ہم کنار
کرایا۔
سمیع اللہ
لیفٹ ونگر کے طور پر پاکستان ہاکی ٹیم کے مشہور کھلاڑی تھے۔ گیند کو ہاکی
کی پر گھما کر تیز دوڑتے ہوئے مخالف ٹیم کی گول پوسٹ تک لے جانے میںسمیع
اللہ کو کمال حاصل تھا۔ ان کے برق رفتار کھیل کی وجہ سے ہاکی کے حلقوں
نےانہیں ’’فلائنگ ہارس‘‘ کا خطاب دیا تھا۔ 1970ء سے 1980ء تک قومی ٹیم کا
حصہ رہے۔1976ءمیں مانٹریال میں ہونے والے سمر اولمپکس میں ان کی برق
رفتارکارکردگی نے قومی ٹیم کو تیسری پوزیشن دلوانے میں اہم کردار ادا کیا۔
1978ء میں بنکاک میں ہونے والی ایشین چیمپئن شپ میں سونے کا تمغہ حاصل کیا۔
1982ء میں جب وہ پاکستان ہاکی ٹیم کے کپتان تھے، انہوں نے ہاکی کے کھیل سے
ریٹائرمنٹ لے لی۔
اختر رسول
ان کا ہاکی کیریئر 1971ء سے 1982ء تک کے عرصے پر محیط ہے، جس کے دوران
انہوں نے بے شمار ملکی و غیرملکی میچوں میں حصہ لیا۔ وہ سینٹر فارورڈ کی
پوزیشن پر کھیلتے تھے اور انہیں گیند پر گرفت رکھنے میں کمال حاصل
تھا۔1972میں میونخ اولمپکس میں چاندی کا تمغہ حاصل کیا۔ 1978ء میں ہاکی کا
عالمی کپ جیتنے والی قومی ٹیم کا حصہ تھے جب کہ 1982ء میں ممبئی میں ہونے
والے عالمی کپ کی قیادت کی اور جرمنی کو شکست دے کر فاتح ٹرافی جیتی۔ اس
میچ کے بعد وہ کپتانی سے ریٹائرمنٹ لے کر عام کھلاڑی کی حیثیت سے کھیلتے
رہے۔ انہیں حکومت پاکستان کی طرف سے پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا۔
شہناز شیخ
1969سے 1978ء تک قومی ہاکی ٹیم میں رہے ۔ وہ اپنے موو، مخالف کھلاڑیوں سے
گیند چھین کر ساتھی کھلاڑیوں کو پاس دیتے ہوئے تیز دوڑتے ہوئے مخالف ٹیم کی
گول پوسٹ تک پہنچ جاتے تھے۔ وہ اپنی ٹیم کو فتح سے ہم کنار کرانے میں اہم
کردار ادا کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ ایک بین الاقوامی ٹورنامنٹ میں ان کے
زخمی ہونے کے بعد کئی سال تک قومی ہاکی ٹیم کوئی میچ نہیں جیت سکی
تھی۔1971ء میں بارسلونا میں عالمی کپ جیتنے والی قومی ٹیم کے رکن تھے۔
1972اور 1976کے اولمپکس مقابلےکے اہم کھلاڑی تھے۔ 1975میں وہ رنر اپ ٹیم کا
حصہ رہ جب کہ 1978ء میں دوسری مرتبہ عالمی کپ جیتنے میں ان کا کھیل نمایاں
رہا۔ انہوں نے 68میچوں میں45گول کیے۔
حنیف خان
تیز رفتار کھلاڑی تھے، لاس اینجلس میں 1984کے سمر اولمپکس میں شریک ہوکر
طلائی تمغہ جیتا۔ پاکستان ہاکی ٹیم کے کپتان رہے1976میں مانٹریال اولمپکس
میں کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔ 2014میں انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا
گیا۔
اقتدا ر علی شاہ دارا
1936ءکے برلن اولمپکس میں انہوں نے غیر منقسم ہندوستان کی نمائندگی کی اور
فائنل میں جرمنی کے خلاف ہیٹ ٹرک کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ قیام پاکستان کے
بعد 1948ءکے لندن اولمپکس میں انہیں پاکستان کی قیادت کرنے کا اعزاز حاصل
ہوا۔ وہ اختر حسین اور لطیف الرحمن سمیت دنیائے ہاکی کے ان تین کھلاڑیوں
میں شامل تھے، جنہیں اولمپکس میں بھارت اور پاکستان، دو نوںممالک کی
نمائندگی کرنے کا اعزازحاصل ہے ۔قتدار شاہ دارا نے پاکستانی ٹیم کے کوچ اور
منیجر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں جب کہ انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن کے نائب
صدر بھی رہے۔ وہ 16 جنوری 1981ء کو کراچی میں وفات پاگئے
وسیم احمد
وسیم احمد پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ انٹرنیشنل ہاکی میچ کھیلنے والے
کھلاڑی ہیں۔ وہ اب تک 410 انٹرنیشنل ہاکی میچ کھیل چکے ہیں۔تین بار
اولمپکس، چارمرتبہ ورلڈ کپ، 12 بار چمپینز ٹرافی میں حصہ لیا۔انہیں
انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن نے دو دفعہ پلیئر آف دی ایئر کے لیے نامزد کیا جو
پاکستان کی قومی ہاکی ٹیم کے لیے ایک بڑا اعزاز ہے۔ 2014ء میںہاکی کے کھیل
میں اعلیٰ کارکردگی کے مظاہرے پر صدر پاکستان کی جانب سے ہاکی ٹیم میں
اعلیٰ خدمات پر گورنر پنجاب نے انہیں تمغہ امتیاز دیا۔1996ء میں جونیئر
قومی ہاکی ٹیم کے ہمراہ سِنگا پور میں جونیئر ایشیا کپ میں حصہ لیا اور یہ
کپ جیت کر گولڈ میڈل حاصل کیا۔1996انہیں قومی سینئر ہاکی ٹیم میں شامل کیا
گیا اور کپتان منصور احمد کی قیادت میں بھارت کے شہر چنائے میں منعقدہ
چمپئنز ٹرافی میں حصہ لیا، جس میں قومی ٹیم نے دوسری پوزیشن حاصل کر کے
سِلور میڈل حاصل کیا۔ 1998ء میں ہالینڈ میں ورلڈ کپ، 2000ء میں سڈنی
اولمپکس، 2002ء میں ملائشیا میں ورلڈ کپ اور 2004ء میں ایتھنز اولمپکس میں
حصہ لیا۔ 2004ء میں وہ قومی ہاکی ٹیم کے کپتان منتخب ہوئے، ان کی قیادت میں
پاک بھارت ہاکی سیریز میں پاکستان نے فتح حاصل کی ۔ |