2005ء کے زلزلے میں پہلی بار میں نے فلاح انسانیت
فاؤنڈیشن والوں کو خدمت خلق میں مصروف دیکھا ۔لمبی داڑھیوں اور ٹخنوں سے
اوپر شلوار نے مجھے ان کی طرف کھینچا ۔یہ ایک فطرتی عمل تھا کیونکہ عالمی
میڈیامخصوص شکل کو دہشت گرد کے طور پر متعارف کروارہا تھا اور میں ان کے اس
رُخ سے متعارف ہورہا تھا ۔2005ء سے لے کر اب تک میں ان کے کام کے پیچھے
پیچھے سرگرداں رہاہوں۔پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیاں بھی ہوئیں جن میں
اسلام کو بدنام کرنے کی خاطرداڑھی والوں کا استعمال کیا گیا ۔یہ ایک سوچا
سمجھا منصوبہ تھا جس کی وجہ سے بلاشبہ مسلمانوں کا جینا محال ہوا اور اسلام
پر لوگوں کو انگلیاں اٹھانے کا موقع ملا ۔پاکستان میں این جی اوز کا سیلاب
بھی آیا جس میں اکثریت بغیر کسی شک و شبے کے اسلام و پاکستان دشمنی کے
ایجنڈے پر تھیں ۔ایسے میں فلاح انسانیت فاؤنڈیشن ایسی پاکستانی تنظیم کا
ہمارے پاس ہونا تائید ایزدی ہی تھا ۔اسلام مظلوموں ،مجبوروں اور مسکینوں کی
مددوحمایت کرنے کی تعلیم دیتا ہے اور عملاََ نبی رحمۃ اللعالمین ﷺنے اس کام
کوکرکے مسلمانوں کے سامنے مثال بھی رکھی ۔مسلمان کو حالت جنگ میں بھی
انسانیت کے اصولوں کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے تو پھر کیسے ممکن ہے کہ مسلمان
کسی نہتے غیر مسلم کوقتل کرے اور تکفیری ٹولہ تو اس سے بھی بڑھ کر کلمہ گو
افراد پر ہی نعرہ تکبیر پڑھ کر پھٹ جاتاہے۔داڑھی ، ٹخنوں سے اونچی شلواراور
برقع کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بدنام کرنے کی خاطر دہشت گردی کو اسلام
کا لبادہ اوڑھایا گیا اور دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی انہیں دہشت کی
علامت سمجھا جانے لگا ۔قرآن مجید میں اﷲ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ’’
اﷲ بہترین تدبیر کرنے والا ہے ‘‘فلاح انسانیت فاؤنڈیشن جیسی تنظیمیں ایک
طرح سے اﷲ کی تدبیر ہی ہیں ۔کفار کے منصوبے کے جواب میں مسلمانوں کی فلاحی
ورفاہی تنظیمیں میدان میں آئیں اور کفار کے منصوبوں کو خاک میں ملانا شروع
کردیا ۔فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کا ذکر خیر کرنے کی وجہ ان کی شکل وصورت کے
متعلق ہونے والا پروپیگنڈہ ہے جس نے ان کی طرف کھینچا ۔ایک طرف اگر پھٹنے
والا بھی داڑھی والا ہو اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرنے والا بھی داڑھی والا
ہو اور دونوں ہی اسلام کو بطور مذہب پیش کریں تو لازمی طور پر دل مرہم پٹی
کرنے والوں کی طرف کھینچتا چلا جائے گا ۔
پاکستانی تنظیم جہاں پاکستان میں خدمت خلق میں مصروف عمل ہے وہیں شام ،
صومالیہ ، فلسطین ودیگر ممالک میں بھی مسلم امہ کے دکھوں کا مداوا کررہی ہے
۔گذشتہ سال کے آخر میں شروع ہونے والا امدادی آپریشن شام میں اب بھی جاری
وساری ہے ۔سال 2015ء میں افغانستان،کشمیر،انڈونیشیا،برما،صومالیہ،نیپال،شام
اورغزہ میں سحر وافطار،ونٹر پیکج،میڈیکل سہولیات ،یتیموں کی کفالت ،راشن
اور گھرتعمیر کرنے ایسی مختلف امداد فراہم کرنے والا ادارہ فلاح انسانیت
فاؤنڈیشن پاکستان ہی ہے ۔رنگ ونسل اور مذہب ومسلک کی تمیز کے بغیر فلاح
انسانیت فاؤنڈیشن کے رضاکار خدمت خلق میں مصروف ہیں ۔پاکستان میں شاید ہی
کوئی ایسا علاقہ ہو جہاں فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے رضاکار موجود نہ ہوں یا
ان کے کام سے کوئی واقف نہ ہو۔سیلاب ، زلزلہ ،حادثات اور دیگر مصائب
ومشکلات میں فلاح انسانیت والے خدمت خلق کرنے میں سب سے پہلے پہنچتے ہیں ۔خبروں
کے چینل جس طرح سے بریکنگ نیوز چلاتے ہیں کہ یہ خبر ہم سب سے پہلے اپنے
ناظرین تک پہنچارہے ہیں اس میں تو کچھ اونچ نیچ ممکن ہے لیکن FIFوالوں کے
متاثرہ جگہ پر جلدی پہنچنے میں ممکن نہیں۔پاکستان میں جہاں مسلمانوں کی
اکثریت ہے وہیں دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی موجود ہیں ۔ایسے میں فلاح
انسانیت فاؤنڈیشن نے اسلام کے زریں اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے ان کی خدمت
کرنا بھی ضروری سمجھا ۔ یہی وجہ ہے کہ تھر پارکر میں کھدوائے جانے والے
کنوؤں کی اکثریت ہندوؤں کی آبادی میں ہے جہاں سے مسلم وہندو پانی حاصل کرتے
ہیں ۔سیاست دانوں کی مسلسل غلطیوں اوربھارتی سازشوں کے بعد بلوچستان میں
بڑھتا احساس کمتری کس بھی وقت لاوا بن کر پھٹ سکتا تھا اور بلاشبہ کچھ لوگ
اس طرف آئے بھی اور انہوں نے پاکستان کے خلاف بغاوت کرنے کی کوشش بھی کی،
مسلمانوں پر پھٹے بھی اور بھارتی ہاتھ مضبوط بھی کئے ۔جہاں فوجی آپریشن
ضروری تھا وہیں ان پاکستانیوں کے دل جیتنے کے لیے کچھ بنیادی کام کرنا بھی
اشد ضروری تھا ۔ یہ جماعۃ الدعوہ کی ذیلی شاخ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن ہی تھی
جس نے آگ بڑھ کر اس کارخیر کو تھاما اور بلوچیوں کے دل جیت لیے ۔آج نواب
اکبر بگٹی جیسی شخصیات جماعۃ الدعوہ اور فلاح انسایت فاؤنڈیشن کے ساتھ چلنے
کو قابل فخر سمجھتے ہیں ۔
2016ء کی رپورٹ کے مطابق فلا ح انسانیت فاؤنڈیشن نے واٹر ریسکیو کے 265
آپریشن کئے جن سے مستفیذہونے والے افراد 39,580 ہے، اسی طرح روڈحادثات
میں752کے قریب فلاح انسانیت فاؤنڈیشن نے آپریشن کئے اور ریسکیو کئے جانے
والے افراد کی تعداد 5,613ہے ۔پاکستان میں آگ لگنے کے حادثات میں فلاح
انسانیت فاؤنڈیشن 157آپریشن میں شریک ہوئی ۔العزیز ہسپتال(مریدکے)، خدیجۃ
الکبریٰ ویلفیئر ہسپتال (گوجرانوالہ)،عائشہ ہسپتال(حیدرآباد)،دی ماڈرن
ہسپتال(کراچی)، طیبہ ہسپتال(گوجرانوالہ)،ملتان میڈیکل مشن ہسپتال(ملتان)،
الحمد میڈیکل کمپلیکس(فیصل آباد) اورچترال میڈیکل سنٹر جیسے ہسپتال فلاح
انسانیت فاؤنڈیشن کی زیرپرستی چل رہے ہیں ۔پاکستان کے مختلف علاقوں میں فری
میڈیکل کیمپس لگائے گئے جن 3,541جنرل کیمپ اور سرجیکل کیمپوں کی تعداد
110تھی جن سے 13,60,688پاکستانی مریضوں کو چیک کیا گیا اور 2,545آپریشن کئے
گئے ۔ اس کے علاوہ مختلف علاقوں میں77 فری آئی کیمپ لگائے گئے ہیں۔جس میں
ملک بھر سے آئی سپیشلسٹ ڈاکٹر کی زیرنگرانی آنکھوں کے فری 2,150 آپریشن کئے
گئے ہیں۔اس کے علاوہ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کی پورے پاکستان میں 183
ڈسپنسری چل رہی ہیں جس سے سالانہ 1.5ملین افراد مستفید ہورہے ہیں۔تھر پارکر
،بلوچستان ،بلتستان اور دیگر پاکستانی علاقوں میں 2,449کنویں لگوائے گئے
اور1,222کے قریب ہینڈ،الیکٹرک،سولر واٹر پمپس لگوائے گئے جن سے آج ہزاروں
لاکھوں افراد اپنی پیاس بجھا رہے ہیں ۔ ان میں سے اکثریت تھرپارکر او ر
بلوچستان کے علاقوں میں لگوائے جہاں پانی کی شدید قلت ہے ۔2016ء میں12ممالک
میں قربانیاں کرکے 17لاکھ کے قریب افراد تک قربانی کا گوشت پہنچایا گیا ۔
اس طرح مختلف جنگ زدہ مسلم ممالک کے مسلمانوں کو بھی پاکستانی تنظیم نے
عیدالاضحی کی خوشیوں میں شریک کیا ۔2016ء کی رپورٹس کے مطابق رمضان المبارک
کی مبارک ساعتوں میں یومیہ 1لاکھ افراد کے سحروافطار کے بندوبست کرنے کے
ساتھ ساتھ تھرپارکر، بلوچستان اور کوہستان جیسے علاقوں میں 14500خاندانوں
کو رمضان پیکج دیا گیا تاکہ افراد خانہ رمضان المبارک میں روزے رکھ سکیں
۔بلڈ ڈونر سوسائٹی ،ایمبولینس سروس، ریسکیوسروسز،فراہمی لباس پروگرام
،بہبوداسیران،ایگریکلچر فارمنگ،ایک جھونپڑا ایک ٹیچر کااور اس جیسے کئی
منصوبے پاکستان میں شروع ہیں جن سے بہت بڑی تعداداستفادہ کررہی ہے ۔اس
رمضان میں صرف فیصل آباد کی بات کی جائے تو الائیڈہسپتال، سول ہسپتال اور
فیصل آباد انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی سمیت دیگر علاقوں میں سحر وافطارکا
انتظام کیا گیا ہے جن سے لواحقین کی بہت بڑی تعداد کو باعزت طریقے سے کھانا
میسرآرہاہے ۔
فلاحی ورفاہی تنظیمیں معاشرے کا حسن ہوتی ہیں اور اگر یہی تنظیمیں نظریاتی
سرحدوں کی حفاظت کا کام بھی سنبھال لیں تو ملک دشمن قوتوں کو کانٹے کی طرح
چبھتی ہیں ۔فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کی خدمات کو جہاں عالمی سطح پر سراہا
جاچکا ہے وہیں بیرونی دباؤ پر اس کو واچ لسٹ میں بھی رکھا ہوا ہے ۔ہمسایہ
ملک میں انسانیت سوز مظالم کے باوجود انتہا پسند ہندوؤں کے خلاف عالمی سطح
پر بولنا گناہ کبیرہ سمجھا جارہا ہے جبکہ پاکستان میں مسلمانوں ، ہندوؤں
،سکھوں اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو ایک لڑی میں پرونے والوں کو نظر بند
کروایاہواہے۔فلاح انسانیت فاؤنڈیشن جیسی تنظیمیں ہمارااثاثہ ہیں اور ان کو
پھلتا پھولتا دیکھنے کے لیے ہمیں ان کے شانہ بشانہ چلنا ہوگا ۔غیر ملکی این
جی اوز کی آڑ میں جو گھناؤناکھیل کھیلاجارہا ہے ان کے آگے اس طرح کی
تنظیمیں ہی بند باندھ سکتی ہیں ۔اپنی تحریر کا اختتام لاہور کے لارڈ میئر
کرنل(ر) مبشر جاوید ’’ریسکیوایند سیفٹی ٹریننگ انسٹیٹیوٹ ‘‘(جس کا افتتاح
ہلال احمر پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر سعید الٰہی کیاتھا)کی افتتاحی تقریب کے
موقع پرکہے گئے الفاظ کے ساتھ کرتاہوں کہ انسانیت ہی اسلام ہے اور مسلمان
اس کا پرچار اور عملی مظاہرہ کرنے کا پابند ہے۔فلاح انسانیت فاؤنڈیشن اسی
نیک مقصد کے لئے کام کر رہی ہے۔ شہر لاہور میں مجھے یتیم بچے ،بے سہارا
لوگ، غریب، مریض، معذور نظر آتے ہیں، حادثات ہوتے ہیں ،آگ لگتی ہے۔مجھے
احساس ہوا ہے کہ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن ایک ایسی جماعت ہے جو سب سے پہلے
پہنچ کر لوگوں کی مدد کرتی ہے اور جانیں بچاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ قوم کو
فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کی طرح اپنے جذبے انسانیت کے لئے بڑھانے ہوں گے۔ذاتی
مقاصد کو کم اور انسانیت کی مدد کریں گے تو پھر خوشحالی بھی آئے گی اور ملک
بھی ترقی کرے گا۔ |