شیطان آج بھی کھلا ہے

رمضان کا مبارک مہینہ جاری ہے۔بہت سے لوگ روزے سے ہوتے ہیں اور بہت سے فاقے سے۔ کہتے ہیں رمضان میں شیطان قید کر دئیے جاتے ہیں۔ مگر کیسے، کچھ سمجھ نہیں آتی اس لئے کہ مجھے روزوں کے باوجود بہت سے شیطان اس مقدس ماحول میں بھی چلتے پھرتے ہی نہیں بلکہ اپنے کمالات دکھاتے بھی نظر آتے ہیں۔کسی مارکیٹ میں چلے جائیں ۔رمضان سے پہلے جو چیز دس روپے میں دستیاب تھی، رمضان میں پندرہ روپے میں بھی ملنی مشکل ہے۔تاجر حضرات سارے سال میں اتنا نفع حاصل نہیں کرتے جتنا اس مقدس مہینے میں۔وہ لوگوں کی جیبیں کاٹتے ہیں۔ غریبوں کی مجبوریوں پر ترس نہیں کھاتے الٹا لوٹ مار اپنا حق جانتے ہیں۔میں نے یورپ میں دیکھا ہے کہ کرسمس سے پہلے ہر چیز سستی ہو جاتی ہے۔ وہاں کے ہر دکاندار کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے ہم مسلک اپنا مقدس تہواربڑی دھوم دھام سے منائیں۔چیزیں سستی ہوں اور ان کی پہنچ میں ہوں۔ وہ ان کے لئے آسانیاں پیدا کرتے ہیں۔ قران کی تعلیم بھی یہی ہے مگر ہم نے آسانیاں پیدا کرنا سیکھا ہی نہیں۔ہمارے لوگ اس قدر مہنگائی کر دیتے ہیں کہ ہمیشہ ہر عید پر مہنگائی اور مجبوری کے ہاتھوں کچھ خود کشیوں کی باز گشت ضرور سنائی دیتی ہے۔اس ظلم کرنے والے کو آپ انسان کہہ سکتے ہیں ۔کیونکہ سچ یہی ہے کہ یہ کام انسان نہیں کر سکتا،مسلمان نہیں کر سکتا۔ یہ شیطان کا کام ہے اور روزوں میں وہ دندناتا پھر رہا ہے۔

ایک دوست کے ساتھ ایک سرکاری محکمے میں جانا پڑا۔ دفتر کے چھوٹے افسر نے کام کے چھ ہزار مانگے۔ میرے دوست نے بحث شروع کر دی کہ زیادہ مانگ رہے ہو۔ کچھ کم کرو۔ افسر مسکرایااور کہنے لگا، میں روزے سے ہوں۔بحث نہ کریں۔ اس مہینے ہم کسی سے زیادتی کرتے ہی نہیں۔اس نے بڑے اہتمام سے ٹوپی بھی پہنی ہوئی تھی اور ہاتھ میں تسبیع لئے کچھ پڑھ بھی رہا تھا۔ کئی لوگوں کی موجودگی میں اس نے بڑی دلیری سے پیسے وصول کئے اور پھر فائل پر دستخط کر دیئے۔ میں اس اﷲ والے کی شکل دیکھ رہا تھا کہ رمضان کے مبارک مہینے میں کس قدر نعمتیں اور برکتیں دونوں ہاتھوں سے سمیت رہا ہے۔ایسے نیکوکار آپ کو ہر سرکاری دفتر میں نظر آئیں گے ۔ مگر انہیں کوئی زنجیر پڑی مجھے کبھی نظر نہیں آئی۔
ہماری مسجدیں نمازیوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی ہیں۔ہر مسلمان اپنے اﷲ کو خوش کرنے کے لئے سجدہ ریز ہے ۔رویے سے یوں لگتا ہے کہ اﷲ پر احسان عظیم کیا جا رہا ہے۔ لوگوں نے خود پر تقویٰ طاری کیا ہوا ہے۔ہر شخص پہلی صف میں کھڑا ہونے کی خواہش میں غریبوں ، مسکینوں اور بچوں کو پیچھے دھکیل رہا ہوتا ہے۔ اسے احساس نہیں کہ اﷲ نے نماز پڑھنے کا نہیں، نماز قائم کرنے کا حکم دیا ہے۔ جس کا بنیادی مقصد لوگوں کے درمیان میل جول، باہمی پیار، امیر اور غریب کے فرق کا خاتمہ، ایک دوسرے کے حالات سے واقف ہونا، لوگوں کے کام آنااور سماجی نا ہمواریوں کو ختم کرنا ہے۔صدقات، خیرات اور زکوۃ دیتے ہوئے ہم اپنی امارت کا احساس دلاتے ہیں۔ راشن اگر تقسیم کرتے ہیں تو لوگوں کی لمبی قطار لگواتے،انہیں گھنٹوں ذلیل کرتے اور پھر ایسے تھیلے میں راشن دیتے ہیں کہ جس پر ذاتی تشہیر کے لئے اپنا نام بڑا موٹا موٹا لکھا ہوتا ہے۔تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ اﷲ کو خوش کرنے کا ٹھیکہ ہمارے پاس ہے۔زکوۃ اور خیرات تو اﷲکا مال ہے اور یہ آپ اﷲکو دے رہے ہیں، کسی غریب پر احسان کیسا۔ سیاسی فرعونوں کے لہجے بھی رمضان میں کچھ نہیں بدلے۔لوٹ مار سے جو انہوں نے کمایا ہے وہ انہیں چین سے بیٹھنے ہی نہیں دیتا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اپنی حرام دولت کے زور پر وہ جنت خرید چکے۔ یقیناًیہ سب تکبر، یہ سب نمود و نمائش خالصتاً شیطانی کام ہیں جو اﷲ کو ہرگز پسند نہیں۔ مگر یہ رمضان کے اسی مقدس مہینے میں پوری زور شور سے جاری و ساری ہیں۔

ایک آدمی ہر روز رو رو کر رب العزت سے فریاد کرتا کہ اے میرے رب ، میری رہنمائی کر کہ میں جنت میں جگہ پاؤں۔ ایک دن اس کے خواب میں ایک فرشتہ آیااور اسے ایک دو منزلہ عمارت کے پاس لے گیا۔پھر اسے ہدایت کی کہ دونوں منزلوں پر ایک ایک کمرہ ہے ۔ دونوں منزلوں کے دونوں کمروں میں دیکھ کر واپس آؤکہ کیا ہو رہا ہے۔وہ شخص پہلی منزل پر پہنچا۔ سامنے ایک دروازہ تھا۔ دروازہ کھولا تو خود کو ایک بڑے ہال میں موجود پایا۔ ہال میں ایک بہت بڑی میز تھی جسکے درمیان ایک برتن میں کوئی پکوان پڑا تھا۔ پکوان سے ایک بھینی بھینی خوشبو نکل رہی تھی۔ایک ایسی خوشبو جو انسان کی بھوک کو تیز کر دیتی ہے۔مگر عجیب بات یہ تھی کہ ہر شخص کے ہاتھ کے ساتھ ایک لمبا چمچ بندھا ہوا تھا ۔ اس چمچ سے وہ برتن سے اپنے لئے خوراک تو حاصل کر رہے تھے مگر جب وہ کھانے کے لئے چمچ اپنی طرف کرتے تو وہ چمچ ان کے کاندھے سے بھی کئی فٹ پیچھے چلا جاتا۔ انہیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کھا ئیں کیسے۔ وہ لگاتار زور آزمائی کر رہے تھے۔ ان میں سے کوئی بھی دوسرے کی طرف نہ دیکھ رہا تھا نہ دھیان دے رہا تھا۔بس نفسا نفسی کا عالم تھا۔ ان کے چہرے سے بھوک ،پیاس، نقاہت،بے چینی ،اضطراب اور بے بسی پوری طرح عیاں تھی۔ وہ سخت عذاب میں نظر آ رہے تھے۔ تھوڑی دیر یہ نظارہ دیکھنے کے بعد وہ دوسری منزل پر پہنچ گیا۔

دوسری منزل پربھی ویسا ہی دروازہ تھا۔ اس نے دروازہ کھولا تو منظر بھی تقریباً وہی تھا۔ بڑی گول میز پروہی دل لبھانے اور بھوک تیز کرنے والا پکوان پڑا تھا۔ میز کے ارد گرد اسی طرح لوگ بیٹھے تھے۔ ان لوگوں کے ہاتھوں کے ساتھ اسی طرح لمبے لمبے چمچ بندھے ہوئے تھے ۔ مگر پہلے ہال کی طرح یہاں لوگ خاموش نہیں تھے۔بلکہ خوش گپیوں میں مشغول تھے۔ان کے چہروں پر رونق اور بشاشت تھی۔ یہاں نفسا نفسی کا عالم بھی نہیں تھا۔لوگ اپنے چمچ سے خوراک اٹھاتے اور جو منہ آگے کرتا اس کے منہ میں ڈال دیتے۔ ہر شخص مطمن تھا۔وہ مسکراتا ہوا مڑا۔ اتنے میں اس کی آنکھ کھل گئی۔ اسے سمجھ آ گئی کہ اﷲکو وہ لوگ محبوب ہیں جو بانٹ کر کھاتے ہیں۔ ایک دوسرے کے کام آتے ہیں۔ نماز قائم کروشاید اسی اخوت اور بھائی چارے کا پیغام ہے۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500368 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More