ہم سب فضلو ہیں

جاوید ملک /شب وروز
اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ اس کا اصل نام کیا تھا برسہا برس سے وہ گاؤں والوں کیلئے فضلو ہی تھا اس کا اصل نام تو کہیں وقت کی دھول میں گم ہی ہوگیا تھا اب تواگرکوئی غلطی سے اسے اصل نام سے پکار بھی لیتا تو وہ دائیں بائیں دیکھنے لگتا گویا پکارنے والے کا مخاطب کوئی اور ہے ۔

اس کے ماں باپ اس وقت دنیا سے گزر گئے جب ابھی اُس نے ٹھیک سے چلنا بھی شروع نہیں کیا تھا۔ ایک بوڑھی دادی تھی جو سر سے پاؤں تک بیماریوں میں گھری ہوئی تھیں ۔ دو قدم چلتی تو سانس پھول جاتی اور پھر کھانسی کا ایسا دورہ پڑتا کہ الامان، ا ن کے گزر بسر کا واحد سہارا گاؤں والے تھے جو وقتاً فوقتا ًا ن کی امدادکرتے رہتے ۔ ان حالات میں فضلو کی تربیت کون کرتا جہاں دوقت کی روٹی کے لالے پڑے ہو وہاں تعلیم و تربیت خرافات کا نام ہوتی ہے ۔ ننگ دھڑنگ گاؤں کی گلیوں میں کھیلتے کودتے نہ جانے کب بچپن پر لگاکر اُڑگیا اب اس کے سارے ہم جولی سکول جانے لگے تھے اور یہ ہی وہ وقت تھا جب محرومیاں اسے برائی کی دلدل میں دھکیل گئیں ۔

وہ نشہ کرنے لگا تھا اور گاؤں کے کئی بزرگوں نے اسے چھپ چھپ کر نشہ کرتے ہوئے دیکھا تھا ایک دو نے اس کی دادی کو بھی بتایا مگر وہ لاچار بوڑھی جو خود چند قدم نہیں چل پاتی تھی اپنے پوتے کو کیسے روک لیتی ،دو چار روز گالم گلوچ کی تو نتیجہ یہ نکلا کہ وہ راتوں کو بھی گھر سے غائب رہنے لگا ۔

اس روز تڑکے تڑکے نمازی ابھی گاؤں کی واحد مسجد سے نماز پڑھ کر نکلے ہی تھے کہ پولیس کی کئی ہوٹر بجاتی گاڑیاں کچی پگڈنڈی پر دھول اُڑاتے گزر گئیں۔ پورے گاؤں میں خوف سرایت کرگیا آج تک گاؤں والوں نے اتنی بڑی تعداد میں پولیس کو گاؤں آتے نہیں دیکھا تھا ۔ تھانہ گاؤں سے کوسوں دور تھا کبھی کبھار کوئی ایک آدھہ پولیس والا نمبردارکی حویلی میں آجاتا تھا اور اس روز بھی سب سہم جاتے تھے کہ نہ جانے سرکار نے اب کون سا نیا قانون نافذکردیا ہے اور آج تو پولیس کی پوری فوج ہی گاؤں پر حملہ آور ہوگئی تھی۔

پھر سب نے دیکھا کہ پولیس نے فضلو کے گھر کو چاروں طرف سے گھیر لیا اور کچھ ہی دیر بعد چند پولیس والے دس،گیارہ سال کے فضلو کو گھسیٹتے ہوئے گھر سے باہر لائے اور اس کو گاڑی میں ڈال دیا ۔

اگلے روز گاؤں میں یہ خبر مشہور ہوگئی کہ فضلو ڈاکو تھا اور اس نے پورا گینگ بنا رکھا تھا جس نے سنا کانوں کو ہاتھ لگایا ۔ کئی سال گزرگئے لوگ فضلو اور اس واقعہ کو تقریباً بھول ہی گئے تھے کہ ایک روز فضلو اچانک گاؤں میں نمودار ہوگیا ۔ لیکن اب ہر شخص اس سے کنی کترارہا تھا کہ وہ فضلو نہیں فضلو ڈاکو تھا ۔ اس نے گاؤں کے ایک ایک شخص کے پاؤں پکڑے مسجد میں مولوی صاحب کے آگے بھی زارو قطار رویا کہ وہ بے قصور تھا چھوٹی موٹی چوری چکاری کی لت میں ضرور پڑگیا تھا مگر پولیس نے اسے ناکردہ گناہوں کی سزادی ان کو ایک قربانی کے بکرے کی تلاش تھی جس کے سر نہ حل ہونے والے سارے کیسوں کا بوجھ ڈال کر خود سرخرو ہوجاتے ۔ عدالت میں اس لاوارث کی کوئی پیروی کرتا تو سچ جھوٹ سامنے بھی آتا عمر کم تھی جس بنا ء پر صرف چال سال کی سزا ہوئی ورنہ تو پولیس نے دس پندرہ سال اسے جیل کی ہوا کھلانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی ۔

جیل میں جاکر اچھے اچھے بگڑ جاتے ہیں مگر یہاں معاملہ اُلٹ ہوا فضلو ایسا سیدھا ہوا تھا کہ چند روز بعد گاؤں والوں کو بھی اس کی صداقت کا یقین ہونے لگا وہ محنت مزدوری کرتا گاؤں والوں کی خدمت میں بھی آگے آگے رہتا باقاعدگی سے نماز بھی پڑھنے لگا تھا اور مسجد کی صفائی ستھرائی میں بھی خادم کا ہاتھ بٹاتاتھا ۔

فضلو تو سدھر گیا مگر داغ کب دھلتا ہے اب وہ ریکارڈ یافتہ تھا اس لیئے جب بھی ارد گرد کسی بھی گاؤں میں چوری ،ڈکیتی راہ زنی کی کوئی واردات ہوتی پولیس اسے دھر لیتی دوچار روز کی چھترول کے بعد جب واردات کا کوئی اور سراغ ہاتھ لگتا تو اسے چھوڑدیاجاتا ۔ برسوں یہ ہی ترتیب رہی پولیس کی مار کھا کھا کر فضلو بے چارہ بے حال ہوچکا تھا ادھر کہیں واردات کی خبر اڑتی ادھر فضلو کے جسم میں خوف اتر آتا بہت سالوں کے بعد اس نے تھک ہار کر ایک نیا طریقہ ڈھونڈ نکالا اسے جیسے ہی اطلاع ملتی کہ کسی گھر چوری یا ڈکیتی کی واردات ہوئی وہ دوڑلگاتا اور متاثرین کے پاؤں پکڑلیتا رو روکر قسمیں کھا کر ان کو یقین دلاتا کہ اس واردات سے میرا دوردور تک کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے خداکیلئے مجھے پولیس سے بچالو ۔
آہستہ اہستہ فضلو کا یہ فعل معروف ہوگیا اب اگر کہیں بھی کوئی چھوٹی موٹی واردات ہوتی تو آدھہ گاؤں تماشہ دیکھنے پہنچ جاتا اور لوگ فضلو کی آہ وزاریاں سن کر قہقہے لگاتے اب گاؤں والوں کے ہاتھ تماشہ لگ گیا تھا اکثر جھوٹ موٹ ہی فضلو کو کسی گھر چوری کی اطلاع دی جاتی اور وہ بے چارہ سب کام چھوڑ سرپٹ دوڑتا کہ کہیں دیر نہ ہوجائے ۔

فضلو ایک دیہاتی کردار ہے لیکن میں اکثر سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہوں کہ بہ حیثیت قوم ہم سب ہی فضلو نہیں ہیں ۔ابھی چند روز قبل ٹی وی کی سکرین پر یک دم بریکنگ نیوز آگئی کہ برطانیہ کے شہر مانچسٹر میں ایک دھماکہ ہوگیا میرے سمیت تقریباًہر پاکستانی خجل ہوا پھرتا تھا کہ ابھی چند لمحوں بعد ہی خبر آئے گی کہ اس میں بھی فلاں پاکستانی ملوث تھا۔ اگلے ہی روز برطانیہ کے مختلف شہروں میں پاکستانی کمیونٹی نے مساجد میں دعائیہ تقریبات کا انعقاد کیا اور اس حادثے میں جاں ببحق ہونے والوں کے لواحقین سے زیادہ آنسو بہائے کہ مبادا مدعا ان کے گلے ہی نہ پڑ جائے ۔

پاکستانی تو پاکستانی ہم تو بحیثیت عالم اسلام بھی فضلو ہی بنے بیٹھے ہیں 21مئی کو سعودی عرب کے شہر ریاض میں پچاس کے لگ بھگ اسلامی ممالک کی کانفرنس کا انعقاد ہوا ۔ چالیس مسلم ممالک کے فوجی اتحاد اور پہلی اسلامی متحدہ فوج کے قیام کے بعد یہ پہلی کانفرنس تھی اور مضحکہ خیز خبر یہ ہے کہ اس کے مہمان خصوصی امریکی سربراہ ڈونلڈ ٹرمپ تھے جن کے مسلمانوں کے حوالے سے خیالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں اس کانفرنس میں پوری دنیا کو ایک سازش کے ذریعے دہشت گردی کی آگ میں جھونکنے والے امریکہ کے سربراہ کو یقین دہانیاں کرائیں جارہی تھی کہ ہم دہشت گردی کیخلاف جنگ کا ہر اول دستہ ثابت ہونگے ہائے ری بے بسی ہم سب جانتے بوجھتے بھی بھولے بن جاتے ہیں فضلو بن جاتے ہیں ۔#

Hafeez Usmani
About the Author: Hafeez Usmani Read More Articles by Hafeez Usmani: 57 Articles with 40700 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.