عالمی یوم یتامیٰ
(Atta ur Rahman Chohan, Islamabad)
او آئی سی کی تحریک پر پوری اسلامی دنیا میں ١٥ رمضان المبار ک کو “عالمی یوم یتیم“ منایا جارہا ہے۔ اس مناسبت سے لکھا گیا کالم، جس میں یتیم بچوں کی دیکھ بھال کی تجاویز دی گئی ہیں |
|
موجودہ دور میں ایام منانے کا رواج عام ہوگیا ہے۔ مدر
ڈے، فادر ڈے، ارتھ ڈے وغیرہ وغیرہ۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ جو کام ہمیں
روز کرنے چاہیے ان کی یاددہانی سال میں ایک بار تو ہو ہی جاتی ہے۔ مسلم
ممالک کی تنظیم او آئی سی نے 2013 میں ۱۵ رمضان کے دن کو ’’یوم یتیم‘‘ کے
طور پر منانے کا فیصلہ کیا۔ او آئی سی کی قرار دادمیں یتیم بچوں کی دیکھ
بھال پر رکن ممالک اور مسلم این جی اوز پر زور دیا کہ مسلم ممالک باالخصوص
دنیا بھر میں باالعموم دہشت گردی، بدامنی، قدرتی آفات اور دیگر وجوہات کی
بنا پر شرح اموات میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے اور یتیم بچوں کی تعداد
مسلسل بڑھ رہی ہے، اس لیے ان کی دیکھ بھال کا مستقل نظام وضع کیا جائے۔
گزشتہ دوسالوں سے اسلامی دنیا میں یہ دن پورے اہتمام سے منایا جارہا ہے۔
پاکستان میں یتیم بچوں کی تعداد تقریبا ۴۲ لاکھ ہے۔ کتنی بدقسمتی ہے کہ
ہمارے تعلیمی اداروں بشمول پرائمری، مڈل، ہائی، کالج اور یونیورسٹیوں میں
ان یتیم بچوں کے لیے نہ تو کوئی کوٹہ مقرر ہے اور نہ فیس میں کمی کا کوئی
قانون بن سکا۔ گزشتہ ۲۰ سالوں سے پاکستان دہشت گردی کا شکارہے ، جس کی وجہ
سے یتیم بچوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ یہ امر باالخصوص توجہ
طلب ہے کہ بیرونی جارحیت اور اندرون ملک دہشت گردی کے واقعات میں لقمہ اجل
بن جانے والے شہریوں کے بچوں کی دیکھ بھال کا سرے سے کوئی انتظام ہی نہیں۔
آزادکشمیر میں کتنے ایسے شہید ہیں جنہوں نے تحریک آزادی کشمیر کے لیے اپنی
جانیں دیں اور ان کے معصوم بچے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ ہماری
حکومتیں بڑے بڑے دعوے تو کرتی ہیں لیکن وطن پر جان نچھاور کرنے والے شہیدوں
کی بچوں کی کفالت کا کوئی انتظام ہم نہیں کر پائے۔ کنٹرول لائن پر آباد
پانچ لاکھ سے زیادہ آبادی براہ راست بھارتی گولوں کی زد میں ہے اور کتنے
لوگ بھارتی جارحیت کا نشانہ بن رہے ہیں اور کتنے بچے والدین کی شفقت سے
محروم ہو رہے ہیں، ایک ہم ہیں کہ خبر پڑھ کر چند سیکنڈ افسوس کا اظہار کرتے
ہیں اور پھر بھنگ پی کر سو جاتے ہیں۔ حکمران تو اقتدار کے مزے لینے سے فارغ
نہیں ہوتے لیکن عوامی سطح پر بھی کہیں کوئی تحریک نظر نہیں آرہی، کوئی منظم
کوشش نہیں کی جارہی۔ ذرائع ابلاغ منفی پہلو کو اجاگر کرنے میں لگے ہوئے
ہیں، کہیں سے ان یتیم بچوں کے لیے آواز اٹھتی سنائی نہیں دیتی۔
او آئی سی کا شکریہ کہ اس نے ہمیں کم از کم ایک دن منانے اور ان یتیم بچوں
کے حالات پر توجہ دینے کی کوشش کی۔ پاکستان میں غیر سرکاری سطح پر یتیم
بچوں کی خدمت کرنے والی چند ایک این جی اوز نے ’’پاکستان آرفن کیئر فورم‘‘
تشکیل دیا ہے۔جو اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے یتیم بچوں کی خدمت کررہے
ہیں۔ میری معلومات کے مطابق ساری این جی اوز مل کر بھی اب تک دو لاکھ سے
زائد بچوں کو اپنے نیٹ ورک میں نہیں لاسکیں۔ایک کام کا آغاز تو ہو چکا ہے
اور دن بدن پیش رفت جاری ہے۔ مجھے سرکاری سرپرستی میں چلنے والے ایس او ایس
ویلیج اور الخدمت فاونڈیشن کے آغوش ہومز دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ یقیناًیہ
ادارے بہت معیاری ہیں لیکن ان میں موجود بچوں کی تعداد چند ہزار ہے اور
ہمارے سامنے ۴۲ لاکھ بچے موجود ہیں۔
یہ بچے ہماری قوم کا مستقبل ہیں، اگر ان پر بروقت توجہ نہ دی گئی تو وہ کل
ہمارے لیے سرمایہ بننے کے بجائے رہزن اور ڈاکو بننے پر مجبور ہوں گے۔ اس کے
منطقی نتیجے کے طور پر ہمارے بچے ان رہزنوں کا شکار ہوں گے۔ یہ کتنا تکلیف
دہ پہلو ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان یتیم بچوں کی کفالت دراصل اپنے بچوں کا
مستقبل محفوظ کرنے کی کوشش ہے۔ یہ کام اتنا مقدس ہے کہ جہاں اپنے بچے محفوظ
ہوں گے وہاں ہمیں دنیا اور آخرت کا اطمینان اور جنت کی بشارت بھی ملے گی۔
دلوں کو سکوں اور آخرت میں راحت کیا کم صلہ ہے۔
انفرادی کوششوں کی اپنی جگہ اہمیت ہے لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں۔ اس لیے
ریاستی سطح پر اس معاملے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ
پرائمری سے سیکنڈری سطح پر یتیم بچوں کو سرکاری اداروں میں مفت داخلہ دیا
جائے اور کتب و سٹیشنری ہر سکول کا صدرمعلم مقامی کمیونٹی کے تعاون سے
فراہم کرے۔ تمام نجی تعلیمی اداروں کو پابند کیا جائے کہ وہ یتیم بچوں کے
لیے دس فیصد کوٹہ مقرر کریں، جن کو فری تعلیم دی جائے۔ میٹرک میں اچھے نمبر
لینے والے یتیم بچوں کے لیے تمام سرکاری اور نجی کالجوں میں کوٹہ مقرر کیا
جائے اور سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں میں یتیم بچوں کے لیے ایک فیصد کوٹہ
مقرر کیا جائے۔ سرکاری ہسپتالوں میں یتیم بچوں کا علاج معالجہ مفت ہو اور
نجی ہسپتالوں کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے ہاں آنے والے مریضوں کا دس فیصد
تناسب سے یتیم بچوں کا مفت علاج کریں اور ہرماہ ان تعلیمی اداروں اور
ہسپتالوں سے عمل درآمد کی رپورٹ لی جائے۔اس طرح کاروباری اداروں (قومی اور
ملٹی نیشنل) کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنی آمدن کا ایک فیصد یتیم بچوں کی
کفالت پر خرچ کریں گے اور اس مد میں خرچ کرنے والوں کو ٹیکس میں چھوٹ دی
جائے۔ مقامی اور بین الاقوامی این جی اوز کو پابند کیا جائے کہ ہر این جی
او اپنے ہاں یتیم بچوں کا شعبہ قائم کرے گی اور اپنے وسائل کا ایک حصہ اس
شعبے کے لیے وقف کرے گی۔
ذرائع ابلاغ بالخصوص الیکٹرانک میڈیا کے اشتراک سے یتیم بچوں کے لیے
فنڈریزنگ کی جائے اور ذرائع ابلاغ کو پابند کیا جائے کہ وہ یتیم بچوں کی
کفالت کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کریں۔ عوامی بیداری کے لیے ہر میڈیا
ہاوس روزانہ کم از کم دس منٹ کفالت یتیم کے لیے وقف کرے۔ مختلف مواقع پر
خصوصی فیچرز کی اشاعت اور یتیم بچوں کے لیے کام کرنے والے اداروں کی
سرگرمیوں کو اجاگر کیا جائے۔ اس طرح معاشرے میں اس مقدس کام کی اہمیت اجاگر
ہو گی اور صاحب خیر کی بڑی تعداد اس کام کی سرپرستی کرنے لگے گی۔
سرکاری اور نجی اداروں میں ملازمت میں بھی ایک فیصد کوٹہ یتیم بچوں کے لیے
وقف کیا جائے تاکہ وہ زندگی کی دوڑ میں معاشرے میں اپنا مقام حاصل کرسکیں
اور اپنے خاندانوں کے کفیل بن سکیں۔ سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں یتیم
بچوں کے مسائل پر تسلسل کے ساتھ تقریبات کا انعقاد کیا جائے اور کفالت یتیم
کو نصاب تعلیم میں شامل کیا جائے۔وفاقی سطح پر کفالت یتیم کے لیے جامع
منصوبہ بندی کی جائے اور صوبائی حکومتوں کے ذریعے نفاذ کیا جائے ۔ جو افراد
یتیم بچوں کی کفالت کررہے ہوں انہیں ٹیکس میں چھوٹ دے کر ان کی حوصلہ
افزائی کی جائے۔ |
|