سچ اور جھوٹ میں پھنسی کرپشن کہانی
(Raja Tahir Mehmood, Rawat)
کرپشن ایک ایسی دیمک ہے جو معاشروں کو کھا جاتی ہے
غریب ممالک کی عوام دہرے عذاب سے گزرتے ہیں ایک تو انکے حکمران ان کا خون
نچوڑتے ہیں اور دوسرا ان کے ٹیکس کی مد میں دیے گئے پیسے کو ایسے لوٹتے ہیں
کہ جیسے لوٹ کا مال ہو اب جبکہ دنیا بھر میں پانامہ لیکس کے انکشافات نے ان
کرپشن زدہ لوگوں کو پریشان کیا ہوا ہے اور دنیا بھر کے کئی چہرے اب بے نقاب
ہوچکے ہیں پانامہ لیکس کے انکشافات کے وجہ سے دنیا بھر میں کئی کرپٹ
حکمرانوں کے چہرے سامنے آئے ہیں ایسے میں پاکستان کی عوام بھی انھیں دکھی
قوموں میں شامل ہے پانامہ لیکس کی افشا ہونے والی ہزاروں دستاویزات سے پتہ
چلتا ہے کہ دولت چھپانے کے لیے کس طرح سے ’ٹیکس ہیون‘ کا استعمال کیا جاتا
ہے مالی رازداری کرنے والے سرفہرست دس ممالک میں سوئٹزرلینڈ، ہانگ کانگ،
امریکہ، سنگا پور، لگزمبرگ، لبنان، جرمنی، بحرین، متحدہ عرب امارات شامل
ہیں دیکھا جائے تو دنیا کے امیر ترین ممالک وہ سانپ ہیں جو غریب ملکوں کی
دولت کو ڈس رہے ہیں اور ان غریب ملکوں کے امیر حکمران دولت لوٹ ،لوٹ کر ان
ممالک میں انبار لگا رہیں اور ان انباروں سے ان امیر ملکوں کی معیشتیں
مضبوط سے مضبوط تر اوران غریب ملکوں کے بچے تک مقروض ہو چکے ہیں
بات اگر کی جائے پاکستان کی تو یہ حقائق بڑا دل دکھانے والے ہیں کہ پاکستان
میں ہر پیدا ہوانے والا بچہ مقروض ہے اس کے ذمے جو قرض ہے وہ ہر سال اسی
عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتا جاتا ہے اس سب کی بڑی وجہ کرپشن ہے جو بڑھتی ہی جا
رہی ہے آج حکومتی جماعت کے لیڈران کو پاکستانی عوام کے سوالوں کا جواب دینا
ہو گا کہ کہ ان کے پاس دولت کے انبار کہاں سے آئے اور وہ جو حلال دولت کی
بات کرتے ہیں تو اس کا ریکارڈپیش کرنے سے کیوں قاصر ہیں اب تمام جماعتیں اس
ایشو پر حکومتی جماعت کے خلاف ہیں دوسری طرف عوام کرپشن کا خاتمہ کرنا
چاہتی ہے کرپشن اور حکمرانی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے کیونکہ جو حکمران ملکی
دولت لوٹتا ہے پھر اگر اس پر ہاتھ پڑ جائے تو جمہوریت کے کھاتے میں ڈال کر
خود کو جمہوریت کی آڑ میں معصوم بنا کر پیش کرتا ہے ایسے حکمران کھبی نہ
کھبی بے نقاب ہو کر سامنے آہی جاتا ہیں آج کرپشن کے خاتمے کے لئے ضروری ہے
کہ تمام جماعتیں اپنے اندر بھی احتساب کا موثر نظام اپنائیں۔ پانامہ لیکس
پر سیاسی جماعتوں کے موقف سے انکار نہیں کیا جا سکتا جہاں تک اس بات کا
تعلق ہے کہ جمہوریت برقرار رہنی چاہیے اور کرپشن ختم ہونی چاہیے اس سے کسی
کو انکار نہیں ہے پوری قوم کرپشن کا خاتمہ چاہتی ہے لیکن یہ نہیں چاہتی کہ
کرپشن کے خاتمے کی آڑ میں ملک میں اس حد تک محاذ آرائی اور خلفشار پیدا کیا
جائے کہ جو جمہوریت کیلئے خطرہ بن جائے کرپشن کا خاتمہ کرکے جمہوریت کو
مضبوط بنانے کی کوششیں ہونی چاہئیں اس کی آڑ میں کسی کو جمہوریت مخالف
عناصر کا آلہ کار نہیں بننا چاہیے یہ امر خوش آئند ہے کہ عوام جمہوریت کا
خاتمہ نہیں چاہتی ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت نے جس ادارے کو کرپشن ختم
کرنے پر لگایا ہو اہے اسے اتنا بااختیار بنایا جائے کہ وہ خود سے فیصلے لے
سکے اس کے لئے اگر کسی بڑے سے بڑے آدمی پر ہاتھ بھی ڈالا جائے تو کوئی شور
شرابہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اسی پالیسی کی وجہ سے ماضی میں بھی کئی بار
کرپشن کے خاتمے کے لئے چلائی جانے والی مہم متاثر ہوتی رہی ہے اور اس ملک
کا سب سے بڑا المیہ ہی یہی ہے کہ جب بھی کسی باثر شخص پر ہاتھ ڈالا جاتا ہے
تو کئی طرح کے شوشے سر اٹھا لیتے ہیں جس کی وجہ سے مجبورا وہ مہم روک دینی
پرتی ہے یا پھر ملتوی کر دی جاتی ہے۔
ماضی میں کرپشن کے خلاف چلائی جانے والی تمام مہمات کو اگر بروقت مکمل کر
لیا جاتا تو یقینا آج پاکستان میں کرپشن کا گراف انتہائی کم ہوتا اور کرپشن
کے خاتمے کے لئے قائم کیے جانے والے اداروں کو با ختیار بنایا جاتا تو آج
پانامہ لیکس اور دیگر کئی طرح کے کیسزسامنے نہ آتے مگر ہم لوگ شاید اس بات
کے عادی ہوچکے ہیں کہ جب سانپ نکل جاتا ہے تو لکیر پیٹنے کو ترجیح دیتے ہیں
اور اسی وجہ سے باقی دنیا ترقی کی طرف اور ہم پستی کی طرف جا رہے ہیں ۔آج
کے حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ اپنے وسائل میں رہ کر کامیاب ہونا ہے
تو سب سے پہلے کرپشن کے خاتمے کے لئے اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ وہ کرپشن جس
نے ہماری ترقی کو روک رکھا ہے جس نے ہماری آنے والی نسلوں کو مقروض
بنایاہوا ہے اس کوختم کیا جا سکے تاکہ ہر پاکستانی اپنی محنت سے پاکستان کو
ترقی یافتہ بنا سکے ہر پاکستانی کو پتا ہو کہ وہ جو ٹیکس دے رہا ہے وہ ملکی
ترقی پر خرچ ہو رہا ہے نہ کہ کسی کی جیب میں جا رہاہے اس مہم میں میڈیا اور
سول سوسائیٹی اہم رول ادا کر سکتے ہیں کرپشن ملکی ترقی کی سب سے بڑی دشمن
ہے اور اس کے خاتمے سے ہی ملکی ترقی ممکن ہو سکتی ہے دوسری صورت میں ستر
سالوں سے جو راگ آلاپا جا رہا ہے اسی کی گھونج سنائی دیتی رہے گی ۔ او ر
عوام کوکرپشن پلس جمہوریت کا کھیل کھیلاکر کو یوں ہی بے وقوف بنایا جاتا
رہے گا آج کے حالات ہم سے یہ تقاضا کرتے ہیں کہ ہم بھی اپنے حقوق کو سمجھتے
ہوئے کرپشن کو ختم کرنے میں کردار ادا کریں سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہیں
اس میں سیاسی وابستگی بلائے طاق رکھنی ہو گی اور سامنے صرف پاکستان کو
رکھنا ہو گا پاکستانیت کی سوچ سے اگر ہم احتساب کی بات کریں گے تو ہمیں سب
کچھ صاف نظر آنے لگے گاہمیں اب یہ سچ اور جھوٹ میں پھنسی ہوئی کرپشن کہانی
کو منطقی انجام تک پہنچانا ہو گا دوسری صورت میں شاید یہ موقع پھر کھبی نہ
آ سکے ۔ |
|