لکھنؤ سے تعلق رکھنے والا،وادی طائف کا ایک خاموش داعی نہ رہا

موت کا وقت متعین ہے اور اپنے وقت پر ہی آتی ہے ۔ قدرت کا یہ قانون کبھی کسی کے لئےنہیں بدلا اور نہ ہی بدلے گا ۔ لوگ موت سے بے خبر اپنے اپنے کاموںمیں مصروف ہوتے ہیں اور اجل اپنے کام میں ۔ جب اجل کو بھی سب کے پاس آنا ہے تو موت سے بےخبری اچھی نہیں بلکہ مومن کو ہمیشہ مو ت کو یاد کرتے رہنا چاہئے اور اس کے لئے سدا تیار رہنا چاہئے تاکہ رب العالمین کے پاس جب جائیں تو آخرت کی تیاری ہوچکی ہواور ہمیں حساب وکتاب کے دن شرمندہ نہ ہوناپڑے ، دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال ملے اور جنت میں جانے کا مستحق قرار پائیں ۔

شہر طائف سے دنیا کا کون آدمی واقف نہیں ، آپ ﷺ کا دعوتی سفر تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھا ہوا ہے ۔ آپ ﷺ کی دعوت کا یہ اثر ہوا کہ یہاں کی نسلیں مسلمان ہوگئیں اور الحمد آج بھی طائف میں دعوت کا جو مزاج ہے وہ دوسرے خطوں کے مقابل امتیازی حیثیت رکھتا ہے ۔ دعوت وتبلیغ کے میدان میں یہاں کے دعوتی مراکز(اسلامک دعوۃ سنٹرز) کے بیحد خدمات ہیں ، یہاں پر مقیم مسلم وغیرمسلم کے لئے دعوت وتربیت کا انداز نرالا اور پیارا ہونے کے سبب لوگ بآسانی صحیح دین سے آشنا ہوجاتے ۔ مسلم شرک وبدعت سے تائب ہوجاتاہے اور غیرمسلم ،دین حق کو تسلیم کرلیتاہے ۔

طائف کی دعوتی فضا اور سازگاراسلامی ماحول سے متاثر ہونے والوں میں ایک نام محمد عارف بن حاجی عوض علی کا بھی ہے ۔ آپ لکھنؤ جان لسی ، محلہ چوک سے تعلق رکھتے تھے ۔ پاسپورٹ کے حساب سے آپ کی تاریخ پیدائش 10/اکتوبر 1967 ہے ۔ روزگار کے سلسلے میں نوجوانی میں ہی سعودی عرب آگئے ۔ آپ کا کاروبار گولڈ سے متعلق تھا۔جب یہاں آئے تو شادی نہیں ہوئی تھی ، گھر جاکر انہوں نے شادی کی ۔ تجربے کی بات ہے کہ جب کوئی سعودی عرب رہنے لگے اور یہاں کا موازنہ اپنے ممالک انڈیا ، پاکستان اور نیپال وبنگلہ دیش سے کرے تو دونوں ممالک میں زمین وآسمان کا فرق نظر آتا ہے ۔ یہی ہوا عارف صاحب کے ساتھ جب گھر سے شادی کرکے آئے تو وہاں کے شادی سے متعلق رسم ورواج کے متعلق پتہ لگانا شروع کیا تو انہیں معلوم ہوا کہ اسلام میں ان رسم ورواج کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ بس وہاں سے انکا ذہن بدلنا شروع ہوااور وہ دلیل کے ساتھ دین کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگے ۔ چونکہ یہ پہلے دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے ، ان بھائی سب دیوبندی ہیں ،لہذا ان کا بدلا دیکھ کر اپنی جانب مائل کرنے کی کوشش کرنے لگے ، طائف میں چھپ چھپ کر رہنے والے تبلیغی جماعت والے بھی اپنی جانب لانے کی بڑی کوشش کی مگر جسے اللہ دین کی سمجھ عطا کرے اسے کوئی راہ راست سے نہیں بھٹکا سکتا ۔ الحمد للہ ، اللہ تعالی نے ان کے دل میں یہ با ت ڈال دی تھی کہ جس بات کی دلیل ملے بس اسی کی پیروی کرنی ہے ،علماء کا احترام اپنی جگہ، ائمہ اربعہ کا تقدس مسلم ، بزرگان دین کی خدمات قابل مبارک باد مگر پیروی صرف محمد رسول اللہ ﷺ کی ہی کی جائے گی ۔ طائف دعوتی سنٹر سے جڑ گئے ، کتابوں کو جمع کرنا شروع کیا اور خود سے محنت کرکے دلائل وبراہین کی روشنی میں دین حق کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگے ، نتیجتا پکے سلفی ہوگئے ۔

جب انہیں یہ معلوم ہوگیا کہ کتاب وسنت پر صحیح سے عمل کرنے والے اہل حدیث ہی ہیں تو وہ اس پر جم گئے ، اپنے بیوی بچوں کوبھی مکمل اس رنگ میں ڈھال لیا اور دوست واحباب کو اس راہ پر لگانے کے لئے رات ودن کوشاں رہے ۔ گوکہ پیشے سے سیلزمین تھے مگر ان کا مشن خالص کتاب وسنت کو عام کرنا تھا، یہ بات ان کے متعلق سب نہیں جانتے تھے کیونکہ انہوں نے خود کو کبھی ظاہر نہیں کیا ، دعوت کا اجر لوگوں سے نہیں اللہ سے حاصل کرنا چاہتے تھے ۔ شادی کے بعد تقریبا بیس برسوں سے بیوی کے ساتھ سعودی عرب میں رہے مگراس قدر خاموشی سے دعوت کا کام کرتے ہیں کہ جاننے والے آپ کو آپ کے پیشے سے ہی جانتے تھے ۔ اس کا بڑا فائدہ یہ ہوا کہ دعوت کے میدان میں آپ کا کوئی حاسد نہیں رہا سوائے جاننے والے رشتہ داروں کے ۔ ایک لمبے عرصے سے آپ کے ساتھ اقامہ کا مسئلہ تھاجس کی وجہ سے بچوں کی تعلیم ، انڈیا کا سفر بلکہ سعودی عرب میں بھی طائف سے دوسری جگہ کا سفر نہیں کرپارہے تھے ۔ 2015 کے رمضان المبارک میں فیملی کے ساتھ اپنے دعوۃ سنٹر کے توسط سےمیں عمرہ پر لے کر گیا تومجھ سے کہنے لگے کئی سال سے عمرہ کرنے سے بھی محروم تھا الحمدللہ آج آپ کے سبب نصیب ہوا۔
طائف شہر کے سوق البلد میں آپ کی گولڈ کی دوکان اور رہائش تھی ، رہائش کے قریب ایک بڑی مسجد ہے جس میں وہ نماز ادا کیا کرتے تھے ۔ میری پہلی ملاقات اسی مسجد میں ہوئی ، اگر دعوت کی غرض سے میں وہاں نہ آتا تو پھر ان سے متعارف نہیں ہوپاتا کیونکہ یہ بہت بڑی مسجد ہے اور ہزاروں کی تعداد میں اس میں لوگ نماز ادا کرتےہیں ۔ میں اس مسجد میں ہفتہ وار عشاء کی اذان واقامت کے درمیان اپنے مکتب کے ایک شیخ سعید کے درس کا اردو میں ترجمہ کیا کرتا ، نماز کے بعد پہلے ہی روز مجھ سے ملے ،اس سےانکی دعوت اور دین کی طرف شدت رجحان کا پتہ چلتا ہے بلکہ اس ترجمہ سے فائدہ اٹھانے کے لئے بیوی بچوں کو بھی مسجد لایا کرتے تھے ۔

آپ میں دعوت دین کا بے پناہ جذبہ تھا ،کسی سے ڈرنے والے ،یا حق چھپانے والے نہیں تھے ۔ جہاں بھی کسی میں کوئی کمی دیکھی وہیں اصلاح کرنے لگے اور دلیل سے مخاطب کو مطمئن کرتے ۔ جب کبھی دلیل کی روشنی میں کسی مسئلے کی تحقیق درپیش ہوتی اور خود سے فیصلہ نہیں کرپاتے تو مجھ ناچیز سےبھی اکثر رابطہ کرتے ۔ انہی کے پیشے سے جڑے ان کے ایک گہرے دوست رضوان نام کے ہیں جن کا تعلق پاکستا ن سے ہے ، آپس میں مسائل پہ اکثر بحث کیا کرتے اور مجھ سے ذکر کرتے کہ شیخ دیکھیں میں دلیل دے رہاہوں اور رضوان ماننے کو تیار ہی نہیں ہے ۔

ایک صاحب کے متعلق معلوم ہواکہ وہ نمازمیں رفع یدین نہیں کرتے تھے ، عارف صاحب نے نماز کے بعد انہیں پکڑ لیا اور سمجھانے لگے ، آپ کی محنت رنگ لائی اور دلیل پاکروہ بھی رفع یدین کرنے لگے ۔ آج وہ صاحب کہتے ہیں کہ میرا یہ عمل عارف بھائی کے لئے صدقہ جاریہ ہے ۔

آپ کی دعوتی کارگزاری کو اس مختصر سے مضمون میں بیان کرنامشکل ہے ۔ دولفظوں میں عارف صاحب کی اہلیہ کی زبانی یہ کہاجاسکتا ہے کہ جب سے صحیح اسلام کا پتہ چلا تب سے ان کا مقصد اسلام کے لئے ہی جینا اور اسلام کے لئے ہی مرنا ہے اور اسی نہج پر گھرکی بھی تربیت کی تھی ۔ مجھے اس کا اندازہ آپ کی وفات کے بعد ان کے اہل وعیال سے ہوا۔ وفات کا اس قدر شدید صدمہ مگر بیوی اور بچوں میں ہمت وحوصلہ، صبرواستقلال اور اللہ کی طرف التفاف وتوجہ پایا۔

آپ کو شوگر کا مرض لاحق تھا ، آنکھوں میں بینانی کی بھی شکایت تھی ، دل کے مرض میں بھی مبتلاتھے مگر دعوتی حوصلہ ہمشہ جوان رہا ۔ مہینہ پہلے دائیں پیر کی ایڑی پھٹنے سے اس میں زخم ہوگیا ، علاج کرنے سے مزید زخم بڑھتا چلا گیا شاید شوگر کے مریض کے لئے زخم ناسور بن جاتا ہے ۔ اسی زخم سے آپ کے مرض کی ابتداء ہوئی اور دھیرے دھیرے شدت مرض اختیار کرگیا، اٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے سے قاصر ہوگئےمگر اس حالت میں بھی طبیعت کے اعتبار سے ہشاش بشاش نظر آرہے تھے ، نمازوں کی وہی پہلے سی پابندی رہی جب رمضان آیا تو روزہ بھی رکھتے رہے ، وفات سے چند دن پہلے باربار قے آنے لگا تو روزہ توڑنا پڑا۔ ان دنوںسعودی حکومت کی طرف وطن بلامخالف قانون آیا ہے(جس کی میعاد قریب ختم ہونے کو ہے) اس کے تحت کسی اجنبی کے ساتھ کوئی معاملہ ہو وہ جوازات کے توسط سے بغیر کفیل وشرکہ کے اپناملک سفر کرسکتا ہے ۔ اقامہ سے متعلق سالوں سے مشکلات کا سامنے کرتے آرہے عارف صاحب کوگھروالوں اور دوست واحباب نے اپنے ملک چلے جانے کا مشورہ دیا جبکہ وہ قطعی طورپر سعودی سے جانا ہی نہیں چاہتے تھے ابھی تقریبا نو سالوں سے بچوں کے ساتھ انڈیا نہیں گئے تھے۔ بہرکیف ! جوازات سے انہوں نے رجوع کیا اوربچوں سمیت سب کا خروج لگ گیا، ادھر علاج بھی چلتا رہا ، خروج لگنے کے بعد اب یہ بہت غمگین رہنے لگے ، اندرہی اندر گھٹن سی محسوس ہونے لگی،انڈیا کا نام سن کر سہم جاتے ،بیوی کو باربار کہتے کہ شاید مجھے موت انڈیا کھیچ کر لے جارہی ہے ۔ زبان پرباربار موت کا ہی ذکر تھا،مرض کی شدت اس قدر بڑھ گئی کہ وفات سے دودن پہلے سے موت کی دعامانگنے لگ گئے تھے ۔گھروالوں سے کہتے میں چند دنوں کا مہمان ہوں ، کبھی کہتے کہ علاج ومعالجہ سے کم نہیں ہوگا کیونکہ میں ٹھیک ہی نہیں ہوسکتاہوں ۔ ادھر انڈیا جانے کی مکمل تیاری بھی ہوچکی تھی ۔سامان ساران پیک ہوچکا ہے ، اب ٹکٹ نکالنے کی دیر ہے اور ملک سفر کرجاناہے ۔ اس وقت وہ بستر مرگ پر ہونے اور عدم قیام کے سبب ویل چیر سے انڈیا لے جانے کا پلان تھا۔ شائد 10/جون کا ٹکٹ بھی بک ہوچکا تھا(جس کی حتمی خبر عارف صاحب کے علاوہ بیوی کو بھی نہیں تھی) مگر اجل کو وہیں آنی ہے جہاں مقدرہے اور اسی حالت میں آنی ہے جس میں اللہ نے فیصلہ کردیا ہے ۔ بالآخر10/رمضان المبارک 2038 مطابق 5/جون 2017 بروز سوموارمغرب کے وقت عارف صاحب کےدوست رضوان صاحب کا اچانک فون آیا کہ ابھی ابھی عارف صاحب کا انتقال ہوگیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔

منگل کو صبح سویرے میں طائف کے ہاسپیٹل کنگ فیصل میں گیا اور قسم الوفیات (میت سیکشن) سے میں نے رجوع کیاجہاں ایک کمرے میں باکسوں میں لاشوں کا ہی انبار لگا تھا ، کاؤنٹر سے باکس نمبر دیکھ کر وہاں کے عامل کے ذریعہ عارف صاحب کے چہرہ انور کاآخری دیدار کیا۔ عصر کی نماز کے فورا بعد طائف میں واقع وسیع وعریض تاریخی مسجد عبداللہ بن عباس میں نماز جنازہ ہوئی اور اس کے بغل میں موجود قبرستان میں اہالیان طائف نے نمناک آنکھوں اور حسرت آموز ہاتھوں سے سپردخاک کردیا۔باغیچہ طائف کا ایک پھول تو مرجھا گیا مگر اس کی بھینی بھینی خوشبو اہل طائف اس وقت تک محسوس کرتے رہیں اور ان کے مشام جان کو معطر کرتی رہے گی جب تک ان سے جداہونے والے خاموش داعی کی دعوت دین اثر یہاں باقی رہے گا۔

موصوف نے پچاس سال کی عمر پائی ،آپ نے اپنے پیچھے بیوی کے علاوہ تین غیرشادی شدہ اولاد عبدالوھاب، زینت اور مریم کو چھوڑا ۔ اللہ تعالی پس ماندگاہ کو صبر جمیل عطا فرمائے ، ان کی کفالت ومعیشت کا بہتر انتظام کردے ، جانے والے کے بشری لغزشوں کو معاف فرمائے ، ان کی دعوتی جدوجہد اور اعمال صالحہ کو قبول فرماکرجنت الفردوس میں جگہ عنایت کرے ۔ آمین

Maqubool Ahmad
About the Author: Maqubool Ahmad Read More Articles by Maqubool Ahmad: 320 Articles with 350653 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.