رمضان ،قرآن اور زوالِ اُمت

 اُمت مسلمہ جسمانی اعتبار سے ڈیڑھ ارب انسانوں پر مشتمل وہ جماعت ہے جو ایمانی، روحانی، اعتقادی، عملی، معاشی ،سائنسی،معاشرتی اور اخلاقی اعتبار سے ایک بے روح وجود کی شکل اختیار کر چکی ہے ۔اس کے علماء اور دانشوروں نے بے شمار اسباب بیان کئے ہیں اور اس پر سینکڑوں اور ہزاروں کتابیں لکھی جا چکی ہیں ۔خالقِ انسان نے مسلمانوں کو جو اعلیٰ ترین نعمت ’’قرآن‘‘کی شکل میں عطا کی اس کو مسلمانوں نے یا تو ثواب کی نیت سے تبرکاََ پڑھا یا خالص توشہ آخرت مان کر اس کی دنیا ئی امور میں مداخلت کوخلافِ شان سمجھا حالانکہ قرآن آخرت میں فلاح کی وہ واحد ضامن کتاب ہے جس پر عمل صرف اسی دنیا میں کر کے ہر فرد کو طوعاََ یا کرہاََ آخرت ہی کی طرف کوچ کرنا ہے جہاں دنیا میں گذری زندگی کے متعلق قرآن کی روشنی میں ہی احتساب ہوگا ۔رمضان کے مقدس مہینے کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ ’’شہر القرآن‘‘ہے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے ’’ماہِ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا اس میں(قرآن میں )ہدایت اور حق و باطل کے امتیازکی واضح نشانیاں ہیں (البقرۃ:185)گویا رمضان المبارک کی عظمت یہی ہے کہ اس میں اﷲ تعالیٰ نے اپنا وہ کلام نازل کیا ہے جو علم کے اعتبار سے اس ’’تاریک شہر‘‘ میں واحد ’’چراغ ِ راہ‘‘ ہے ۔یہ چراغ ِ ہدایت رات کے وقت جن لمحات میں نازل ہوا اﷲ تعالیٰ نے ان کی شان پورے رمضان سے بلند فرما کر واضح فرما دیا کہ ہم نے اس کو(قرآن ِ مقدس کو)شب قدر میں نازل کیا ،اور تم کیا جانو کہ شب قدر کیا،شبِ قدر ہزرا مہینوں سے بہتر ہے (سورۃ القدر:1,2) ۔

رمضان گیارہ مہینوں سے افضل ہے اور شبِ قدر ہزار وں شبوں سے بہتر ہے اور دونوں کی افضلیت کا سبب ایک ہی ہے اور وہ ہے ان میں قرآن کا نازل کیا جانا۔اس کی فضیلت و عظمت کے پیش نظر اس رات کو ثواب حاصل کرنے کے لئے حضورﷺنے اپنی امت کوتلاش کرنے کی تلقین فرمائی کہ اس رات کو ماہ رمضان کی طاق راتوں میں تلاش کرتے ہو ئے مغفرت حاصل کرو ۔آپﷺ نے فرمایا ’’جس شخص نے ایمان اور اخلاص کے ساتھ ثواب کے حصول کی غرض سے شبِ قدر میں قیام (عبادت)کیا تو اس کے سارے پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے (صحیح بخاری و صحیح مسلم )گویا کہ رمضان اور شبِ قدر کی عظمت یہ ہے کہ ان میں قرآن مقدس کا نازل کیا گیا ہے ۔اب سوال اس انسان کا پیدا ہوتا ہے جس کے لئے نہ صرف قرآن نازل کیا گیا بلکہ اس کی ’’عملی رہنمائی‘‘کے لئے اﷲ تعالیٰ نے خاتم النبیین ﷺ کوبھی مبعوث فرمایا اس کو بھی اﷲ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات قراردیکر عزت بخشی اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے ’’اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ان کو خشکی اور تری میں سواری دی اور پاکیزہ روزی عطا کی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی (بنی اسرائیل :70)یہی انسان اگر ایمان کے بعد عملی زندگی میں اس قرآن کو عملایے تو اﷲ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق اس کو دنیا میں عزت دیکر آخرت میں سر خرو فرمائے گا۔شرط بس عمل کی ہے وعظ و نصیحت کی نہیں گرچہ وعظ و نصیحت بھی اپنی جگہ درست اور ضروری ہے مگر اس کا یہ بھی ہر گز مطلب نہیں ہے کہ ہمارا معاملہ عمل کے برعکس صرف وعظ و نصیحت ہی تک محدود رہے ۔

رمضان میں جس قرآن کو نازل کیا گیا اس کے متعلق اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر اتارتے تو تودیکھتا کہ خوف الٰہی سے وہ پست ہوکر ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہم ان مثالوں کو لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ غور وفکر کریں۔(الحشر:21)ایک اور جگہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے ’’اور ہم نے قرآن میں ایسی چیزیں نازل کرتے ہیں کہ وہ ایمانداروں کے حق میں شفااور رحمت ہیں اور ظالموں کو اس سے زیادہ نقصان پہنچتا ہے (الاسراء :82) حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص کلام اﷲ کا ایک حرف پڑھے گا۔ ربُّ العالمین اس کے ہر ہر حرف پر ایک نیکی عنایت کرے گا۔ جو دس گنا بڑھ کر دس نیکیاں بن جائیں گی۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نہیں کہتا ہوں کہ الم ایک حرف ہے ۔ بلکہ الف ایک حرف ہے ۔ لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے ۔ (ترمذی: 2835) آپ صل اﷲ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:” تم میں سب سے بہتر وہ ہے جس نے قرآن پڑھا اور اس کو پڑھایا “۔( بخاری) حضرت نعمان بن بشیر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’میری امت کی سب سے افضل عبادت تلاوتِ قرآن ہے ۔‘‘(بیہقی، شعب الایمان: 2022)حضرت عبد اﷲ بن عمرو رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ’’قیامت کے دن روزہ اور قرآن دونوں بندے کے لئے شفاعت کریں گے ۔ روزہ کہے گا : اے میرے رب! میں نے اس شخص کو دن کے وقت کھانے پینے ) اور (دوسری نفسانی خواہشات سے روکے رکھا پس تو اس شخص کے متعلق میری شفاعت قبول فرما۔ قرآن کہے گا : اے میرے رب! میں نے اس شخص کو رات کے وقت جگائے رکھا پس اس کے متعلق میری شفاعت قبول فرما۔ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان دونوں کی شفاعت قبول کی جائے گی۔‘‘(مسنداحمد بن حنبل : 6626)

قرآن بے شک ایک عظیم’’ کتابِ رحمت‘‘ہے مگر یہ بعض کے لئے ذلت و خواری کا طوق بھی ہے جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’ظالموں کو اس سے زیادہ نقصان پہنچتا ہے‘‘ (الاسراء :82) نبی اکرم صل اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:” اﷲ تعالیٰ اس کتاب ( قرآن مجید ) کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو سربلند فرمائے گا اور دوسروں کو ذلیل کرے گا “۔ ( صحیح مسلم)اﷲ تعالیٰ کو یہ بھی ناپسند ہے کہ بعض معاملات و مسائل میں اس کے احکام کی پیروی کی جائے اور بعض کے لئے دوسری جانب رجوع کیا جائے۔اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے ’’کیا تم کتاب کے بعض حصے کو مانتے ہو اور بعض کا انکار کرتے ہو جو تم میں سے ایسا کرے گا اس کی سزا دنیا میں رسوائی کے سوااور کیا ہو سکتی ہے (البقرۃ:85) یہی وجہ ہے کہ قرآنی علوم کے حصول کی نہ صرف تلقین کی گئی بلکہ اسی علم کے پڑھنے پڑھانے والوں کی عظمت بھی بیان فرمائی ’’اﷲ سے اس کے بندوں میں وہی لوگ ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں (الفاطر:28)نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں تم میں سب سے بہتر وہ ہے جس نے قرآن پڑھا اور اس کو پڑھایا “۔ (صحیح بخاری )آج مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالیے تو معلوم ہوگا کہ ہم بدترین دور انحطاط سے گذر رہے ہیں اور اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ ہم نے قرآن کو ترک کیا ہے حضرت علی المرتضیٰ کرم اﷲ تعالیٰ وجہہ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہو ئے سنا ہے ’’خبردار عنقریب فتنے ظاہر ہوں گے ،میں نے عرض کیا اے اﷲ کے رسولﷺ ان سے نکلنے کا راستہ کیا ہے ؟آپؐنے فرمایا اﷲ کی کتاب جس میں تم سے اگلوں کی خبریں ہیں اور آپ کے بعد پیش آنے والے (حالات)کی اطلاع ہے،وہ تمہارے (واسطے) حکم بیان کرتی ہے ،وہ (حق و باطل)کو الگ الگ بیان کرتی ہے اور اس میں ہزل نہیں ہے جو کوئی اس کو تکبراََ ترک کردے گا اﷲ تعالیٰ اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردے گااور جو اس کے علاوہ کہیں اور سے رہنمائی چاہے گا اﷲ تعالیٰ اس کو گمراہ کر دے گا ،وہ اﷲ کی مضبوط رسی ہے ،حکیمانہ ذکر ہے ،اور صراط مستقیم ہے (دارمی)

جب ہم قرآنی تعلیم کی بات کرتے ہیں تو بعض لوگوں کے ذہن میں ’’مدرسہ‘‘کی تصویر گھومنے لگتی ہے کہ علماء کا مطلب یہ ہے کہ اپنے بچوں کو اسکولوں اور کالجوں سے نکال کر مدارس میں داخل کرو ایسا ہرگز نہیں ہے ۔میں یہاں ایک غلط فہمی رفع کرنا ضروری سمجھتا ہوں اور وہ یہ کہ ’’مدارس اسلامیہ‘‘ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے لئے نہیں بنائے گئے ہیں بلکہ اس اقلیت کے لئے تعمیر کئے گئے ہیں جووالدین اپنے بچوں کو ’’ دینی علوم میں اختصاص اور تبحر ‘‘پیداکراکے عام مسلمانوں کو بروقت دینی رہنمائی بہم پہنچاکر اس کو اپنے لئے توشہ آخرت بنانا چاہتے ہوں اس لئے کہ عقل عام اس بات کا آسانی کے ساتھ ادراک کر سکتی ہے کہ ڈیڑھ ارب آبادی پوری کی پوری نا ہی مدارس میں رہ سکتی ہے نا اس کا تصور کیا جا سکتا ہے ۔ہاں یہ بات ضرور ہے کہ علماء کی تمنا یہ ہے کہ ہر مسلمان بنیادی دینی علوم سے اس قدر واقف ہو کہ عقائد و ایمانیات کے ساتھ ساتھ اس کو حلال و حرام اور جائز و ناجائز کی تمیز ہو اسی لئے جگہ جگہ شبینہ صباحی مکتبوں اور دینی اجتماعات کا اہتمام علماء اور دینی تنظیموں کی جانب سے کیا جاتا ہے ۔مدارس تخصص پیدا کرنے کے لئے قائم کئے جاتے ہیں ہر مسلمان کو عالم دین بنانے کے لئے نہیں ۔البتہ بدقسمتی یہ ہے کہ بعض شر پسند حضرات نے ہر نکڑ پر ایک کمرے میں چند بچوں کو بٹھا کر اس مقدس پیغمبرانہ کام کی صورت بگاڑ دی اور یہ سارا علماء کی طرف منسوب کیا جاتا ہے حالانکہ یہ قابل اصلاح مسئلہ ہے بے اعتنائی برتنے کا نہیں ۔برسبیل تذکرہ بات مدارس کی آگئی ورنہ عنوان کچھ اور ہے کہ دور حاضر میں بھی خیر القرون ہی کی طرح رمضان ہمارے درمیان تشریف لا کر پھر اگلے گیارہ مہینوں کے لئے رُخصت ہوجاتا ہے مگر ہمارے معاشرے پر وہ اثرات مرتب نہیں ہوتے ہیں جو رمضان اور قرآن کا خاصہ ہے یعنی حالات بدل جانا ۔

حالات بدل جانے کے الفاظ سے غلط فہمی نا ہو کہ کفر ہرجگہ اور ہمیشہ کے لئے مٹ جانامراد ہے نہیں ایسا نہیں ہے کفر و اسلام کی کشمکش لیل و نہار کی گردش تک جاری رہے گی ۔مراد یہ ہے کہ ہم عرصہ دراز سے تباہی اور بربادی کے شکار ہیں گویا آسمان ہم سے ناراض ہے اور زمین ہم سے روٹھ چکی ہے ۔ایسے میں خود اﷲ اور اس کا رسول ’’رجوع الی القرآن‘‘ کا حکم دیتا ہے اور ہم چندروزہ تلاوت و استغفار سے یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ بس ہوگیا جبکہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے ۔معاملہ توبہ کے بعد عمل کا ہے اور ہم نے دین کو مواعظ سے متاثر ہو کر چند آنسوں کے بعد دعاؤں اور تمناؤں تک محدود رکھا ہے ۔توبہ واستغفاراوروعظ و نصیحت کے بعد حرام اور ناجائز سے بچنامطلوب ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جہاں قرآن میں ایمان کی بات کی گئی ہے ٹھیک اسی مقام پر عمل کا بھی مطالبہ کیاگیا ہے ۔اسلام عمل کا دین ہے صرف دعوت و تبلیغ کا نہیں ۔رہا عمل کے بعد ’’اثر اور نصرت‘‘کاوہ بالکل وہی اور ویسا ہی آج بھی ہے جیسا پہلے تھابقول اقبالؒ
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں راہ دکھلائیں کسے؟رہرومنزل ہی نہیں
جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن ،تم ہو نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن تم ہو
میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے؟ میرے قرآن کو سینے سے لگایا کس نے؟
تھے تو آباء وہ تمہارے ہی ،مگرتم کیا ہو؟ ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو!
وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہو کر اور تم خوار ہو ئے تارکِ قرآن ہو کر

سادہ سی بات یہ ہے کہ رمضان تقویٰ پیدا کرتا ہے اور اس کی یہ خصوصیت اﷲ تعالیٰ بیان کرتا ہے جس نے ہم پرروزے فرض کئے ہیں ۔قرآن اس تقویٰ والے مہینے میں بطور انعام ہمیں ملا ہے ۔یہ شفاء ہے ،رحمت ہے اور حق و باطل کی تمیز بتانے والی کتاب ہے اگر نماز ،روزہ اور قرآن سے ہمارے طرف اﷲ کی رحمت و نصرت متوجہ نہیں ہوتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے عقائد،اعمال،افکار اور سب سے بڑھکر قلوب میں کہیں کجی ہے نعوذ باﷲ قرآن اور اس کے فرض کئے گئے اعمال و عبادات میں نہیں۔ان اعمال سے مسلمان میں خشیت ربانی پیدا ہوتی ہے اور دل کی دنیا بد ل جاتی ہے ۔اﷲ رنگ وروپ نہیں بلکہ دلوں کو دیکھتا ہے ۔ تزکیہ اور تطہیرقلوب کے یہ مضبوط اور محکم ذرائع ہیں ۔ اگر اس زوال پذیر اُمت میں انہی اعمال سے مطلوبہ تبدیلی نہیں آتی ہے تو گویا اس پر مقصودہ عمل نہیں کیا جاتا تاکہ آسمانی نصرت سے مردہ تن بدن میں نئی جان پیدا ہو جاتی اور قوم کے بہی خواہوں اور دانشوروں کو بھی درست راستہ سجھائی دیتا ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم کسی اور المیہ یا سزا کا انتظار کرنے کے بجائے اجتماعی طور توبہ و استغفار کے بعد علماء اور مسترشدین کی رہنمائی میں اپنی منزل کا تعین کر کے آگے بڑھنے کے لئے کمر کس لیں نہیں تو کشمیر سے یمن تک ،افغانستان سے فلسطین ،برما،شام اور عراق تک ہی معاملہ نہیں رکے گا بلکہ جہاں امن و امان اور آپسی ہمدردی و محبت نظر آتی ہے وہ بھی فنا ہو جائے گی۔اﷲ تعالیٰ کسی کے ایمان اور کفر سے بے نیاز خدا ہے وہ مالک الملک ہے محتاج نہیں ۔اس کو ہمارے اسلام اور کفر سے نہ کوئی فائدہ ہوتا ہے نا ہی کوئی نقصان ۔ہم جس عالمِ ارضی پر مقیم ہے اس کے اعمال کو فطرت سے اس طرح نتھی اور پیوستہ کیا گیا ہے کہ یہاں لمحوں نے خطا کی صدیوں نے سزا پائی اور گہیوں کے ساتھ گھن بھی پسا جاتا ہے لہذا اﷲ کا کچھ بگڑنے والا نہیں اگر ہم نے ہوش کے ناخن نا لئے تو ہمیں دورِ حاضر کے بدترین المیہ سے کوئی نکال نہیں سکے گا ۔اسلام میں رجوع کے سفر کا آغازتوبہ سے کیا جاتا ہے آج رمضان المبارک ہے اور توبہ کی قبولیت کا موسم اپنے جوبن پر ہے لہذا اسے فائدہ اٹھا کر تن اور من کو پاک بناتے ہو ئے آنے والے غیر رمضان میں بڑے چیلنجزسے نمٹنے کی تیاری بھی کرتے ہیں ایسا نا کہ حدیث نبوی کے عین مطابق ہم کو بھوک و پیاس کے علاوہ کچھ بھی نہ ملے اور غیر رمضان میں آفتیں گذشتہ آفتوں سے زیادہ تباہ کن ہوں ۔اﷲ تعالیٰ ہم سب کو اپنی آفات سے محفوظ رکھتے ہوئے توبہ اور رجوع الی القرآن کی توفیق عطا فرمائے ۔

altaf
About the Author: altaf Read More Articles by altaf: 116 Articles with 84379 views writer
journalist
political analyst
.. View More