وماالحیوۃ الدنیا الا متاع الغرور

یہ دنیا دارالعمل اور پانی کا ایک بلبلہ ہے ،اس کی تمام رنگینیاں ودلفریبیاں عارضی اورناپائیدار ہیں ،ا س کی مال ومتاع اور ظاہری ٹیپ ٹاپ دل لگی اور دھوکہ کا سامان ہے جب کہ آخرت ہمیشہ ہمیش کی زندگی کا نام ہے جو حساب وکتاب اور جزاءوسزا کےدن سے عبارتہےجس دن حضرت انسان کو اپنے کئے ہوئے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیاجائے گا ،اس دن نہ تو کسی کے ساتھ ناانصافی ہوگی اور نہ ہی کسی پر ظلم وزیادتی کی جائے گی بلکہ ہر ذی روح کے تمام اچھے برے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیاجائے گا ،جیساکہ اللہ کا فرمان ہے کہ ﴿وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ﴾اور قیامت کے دن تمہیں تمہارے اعمال کا بھر پور بدلہ دیاجائے گا اورسب سے بڑا کامیاب وکامراں انسان وہی ہے جو کل نارجہنم سے بچالیاجائےاور بہشت کے اندر داخل کردیا جائے۔ جیساکہ فرمان الہٰی ہے : ﴿فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ﴾(آل عمران :۱۸۵)اوردوسری جگہ فرمایاکہ یہ دنیا کی زندگی تو محض کھیل تماشہ نیز دھوکے اوردل لگی کا سامان ہے۔

لوگو!یقینا اس دارفانی کے اندر بھیجے جانے کا ہمارا سب سے بڑا مقصد یہی ہے کہ ہم اشرف المخلوقات رب العالمین کی اس مقدس اور وسیع وعریض سرزمین پر اس کے بتائے ہوئے تعلیمات پر عمل کریں ،کتاب اللہ وسنت رسول اللہ کو اپنے لئے حرزجاں بنائیں ،ہمہ وقت رب کی بندگی وعبادت میں اپنے آپ کو مشغول ومصروف رکھیں ،ذکر واذکار نیز تسبیح وتہلیل کے ذریعہ ہمیشہ اپنے زبان کو تر رکھیں اور اس چند روزہ زندگی کے اندر کثرت سے اعمال صالحہ کرتے رہیں جو کل قیامت کے دن ہمارے کام آنے والے ہیں ۔ اس لئے کہ یہ دنیا تو چند روزہ زندگی کا نام ہے اور اس کی تمام رنگینیاں ورعنائیاں محدود دنوں کے لئے ہیں ،جب کہ اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے جہاں حضرت انسان کو ہمشہ ہمیش رہنا ہے جیسا کہ رب العزت کا فرمان ہے : ﴿وَمَا هَذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ﴾ یہ دنیا کہ زندگانی تو محض کھیل تماشا ہے البتہ آخرت کے گھر کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے،کاش یہ لوگ جانتےہوتے۔ (عنکبوت : ۶۴) اور دوسری جگہ فرمایاکہ :﴿ اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا وَفِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِنَ اللہ وَرِضْوَانٌ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ﴾ (حدید:۲۰)اے لوگو!اچھی طرح جان لو کہ دنیاکہ زندگی صرف کھیل تماشا زینت اور آپس میں فخر وغرور اور مال واولادمیں ایک دوسرے سے اپنے آپ کو زیادہ بتلانا ہے ،جیسے بارش اور اس کی پیداوار کسانوں کو اچھی معلوم ہوتی ہےپھر جب وہ خشک ہوجاتی ہے تو زرد رنگ میں اس کو تم دیکھتے ہو پھر وہ بالکل چوراچورا ہوجاتی ہے اور آخرت میں سخت عذاب اور اللہ کی مغفرت اور رضامندی ہے اور دنیا کی زندگی بجز دھوکے کے سامان کے اور کچھ بھی تو نہیں ۔
اللہ کےان واضح فرامین کو پڑھنے اور سمجھنے کے باوجود بھی آج انسان دنیا اور متاع دنیا کو اپنےزندگی کا مقصد ومحور بنائے ہوئے ہے اسی کے حصول میں ہمہ وقت سرگرم اور حلال وحرام کی تمیز کئے بغیر دنیا کمانے کے لئے تگ ودو اور محنت ومشقت کررہاہے دن رات اسی دنیا کے پیچھے بھاگ رہاہے اور جائداد وپراپرٹی نیز بینک بیلنس کرنے کے لئےآخرت کو فراموش کرکے اسی دنیا کو اپنا سب کچھ سمجھ بیٹھا ہے ،جب کہ یہ دنیا اور اس کی تمام آسائشیں عارضی اور غیرمستقل اور محض چند دنوں کے لئےہیںاور اس کی تمام مال ومتاع آخرت کے مقابلے میں رب العالمین کی نگاہ میں مچھر کے پر سےبھی زیادہ حقیر وبے معنی اور کمتر ہیں ،یہ دنیاتو دراصل ایک مسافر خانہ کی مانند ہے کہ جہاںایک مسافر چند گھنٹوں کے لئےقیام کرتاہے پھر اپنے منزل مقصود کی طرف رواں دواں ہوجاتاہے ۔ اسی دنیا کی حقیقت وحیثیت کو واضح کرتے ہوئے اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھماکو نصیحت کرتے ہوئے فرمایاکہ ’’كُنْ فِي الدُّنْيَا كَانكَ غَرِيبٌ ، أَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ ‘‘ تم اس دنیا میں ایک مسافراور پردیسی کی طرح رہواسی وجہ سے عبداللہ ابن عمر کہتے تھے’’ إِذَا أَمْسَيْتَ فَلاَ تَنْتَظِرِ الصَّبَاحَ ، وَإِذَا أَصْبَحْتَ فَلاَ تَنْتَظِرِ الْمَسَاءَ وَخُذْ مِنْ صِحَّتِكَ لِمَرَضِكَ وَمِنْ حَيَاتِكَ لِمَوْتِكَ‘‘کہ اے لوگو!جب تم شام کرلو تو صبح کا انتظار مت کرو اور جب صبح کرلو تو شام کا انتظار مت کرواور اپنی تندرستی کو بیماری سے پہلے غنیمت جانو اور اپنی زندگی کو موت سے پہلے غنیمت سمجھتے ہوئے( کثرت سے اعمال حسنہ کرلو) ۔(صحیح بخاری :کتاب الرقاق،ح؍۶۴۱۶)بلکہ آپ ﷺ نے دنیا سے بیزاری اور سایہ سے تشبیہ دیتے ہوئے فرمایاکہ’’مالی وللدنیاانما مثلی ومثل الدنیا کراکب ظل تحت شجرۃ ثم راح وترکھا ‘‘ (الصحیحہ للالبانی :۴۳۸) میرا اس دنیاسے کیا واسطہ میںتو ایک مسافر کی طرح ہو ں کہ جوچند گھنٹوں کے لئے کسی سایہ دار درخت کے نیچے بیٹھ کر کچھ دیر آرام کرنے کے بعد اپنی منزل کی طرف چل دیتاہوں ۔اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ یہ دنیا تو ایک سایہ کی طرح ہے کہ مسافر چند گھنٹوں کے لئے اس کے نیچے آرام کرنے اور اس کے سایہ سے استفادہ کرنے کے لئے اس کے نیچے رک جاتاہے ۔ ایک حدیث میں دنیا کی حقارت کو واضح کرتے ہوئے فرمایاکہ’’ اگر اللہ کی نگاہ میں اس دنیا کی کچھ حقیقت وحیثیت ہوتی تو کفارومشرکین اور گنہگاروں کو ایک گھونٹ پانی بھی نصیب نہ فرماتا‘‘ ۔ یہ دنیا تو دارالعمل اور آخرت کی کھیتی ہے اور آخرت ہمیشگی کا گھر اور دارالجزاہے ،یہاں جو بوئوگے (یعنی اچھے اعمال کروگے )کل قیامت کے دن وہی کاٹوگے (اسی کے عوض تمہیں بدلہ دیاجائےگا) ۔اگر اپنی اس چند روزہ زندگی میں اچھے اعمال کروگے تو رب العالمین تمہیں نامہ اعمال داہنے میں دے گا اور بہشت میں بلند وبالامقام پر فائزفرمائے گا لیکن اگر آج ہم اپنی اس مختصرسی زندگی میں کتاب وسنت کی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر شیطان لعین کے راستے کو اختیار کیا اور اس دارفانی کے اندر گناہوں پر گناہیں اور خطائوں پر خطائیں کیں تو یقینا کل ہمارا نامہ اعمال بائیں ہاتھ میں پیٹھ پیچھے سے دیاجائے گا اور فرشتوں کو حکم دیاجائے گا کہ ایسے ناہنجاروں ونامرادوں کو گھسیٹتے ہوئے جہنم کی دہکتی ہوئی آگ میں پھینک دو چنانچہ فرشتے رب العالمین کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ہمیں اوندھے منہ جنہم میںڈھکیل دیں گے ۔

لہذا اےذی شعورو ! دنیا کی ان رنگینوں ودلفریبیوں اور اس کے جھمیلے میں نہ پڑو اورآخرت کی فکر کروجہاں نہ آپ کے اہل وعیال کام آئیں گے نہ مال ودولت اور نہ ہی دنیاکی جاہ ومنصب کچھ کام آئے گی بلکہ وہاں تولوگ پریشانی اور نفسی نفسی کے عالم میں ہوںگےلوگ اپنے گناہوں کے بالمقابل پسینے میں شرابور ہوںگے جہاں لوگ ایک ایک نیکی کے لئے ترس رہے ہوں گے وہاںنہ آپ کی یہ دنیاوی جاہ ومنصب، مال ودولت اور اہل وعیال کچھ کام نہ آئیں گےبلکہ بھائی اپنے بھائی سے ،والدین اپنی اولادسے دور بھاگ رہےہوں گےکہ کہیں میرا بھائی ،میرا باپ ،میری ماں ،میری بیوی ،میرا شوہر مجھ سے ایک نیکی نہ مانگ لے اور میری نیکیوں کے اندر کمی آجائے۔ اوربلکہ وہاں انسان اپنے اہل وعیال اوراپنا سب کچھ دنیاوی سرمایہ اور مال ومتاع فدیہ میں دے کر جہنم سے بچنے کی تدبیریں کرے گا لیکن وہاں یہ تدبیریں ،جاہ ومنصب اور مال ومتاع کچھ کام نہ آئیں گے لہذا اس آخرت کی فکر کروجو دارعقبیٰ ،ہمیشگی کاگھر اور دارلجزاء ہے اور دنیا کی تمام رعنائیوں سے کنارہ کشی اختیار کروکیونکہ یہ دنیا تو محض دھوکے کاسامان ہے۔ جیساکہ اللہ کافرمان ہےکہ ﴿ومَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ﴾ ۔

Abdul Bari Shafique Salafi
About the Author: Abdul Bari Shafique Salafi Read More Articles by Abdul Bari Shafique Salafi: 114 Articles with 148890 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.