اللہ کے حقوق

اللہ تبارک وتعالیٰ کے ہم پر بے شمار احسانات ہیں جنہیں اگر ہم شمار کرنا چاہیں تو یہ ہمارے لئے ناممکن اور لامحال چیز ہےجیساکہ اس کا فرمان ہےکہ:﴿وَإِن تَعُدُّواْ نِعْمَتَ اللہ لاَ تُحْصُوهَا ﴾(إبراهيم:۳۴)اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکوگے‘‘۔مگرانسان ہے کہ رب کی ان نعمتوں پر اس کا شکر یہ ادا نہیں کرتااور اس کی تسبیح وتہلیل بیان کرکے اس کے حقوق وفرائض کی ادائیگی نہیں کرتاہے ۔
ویسے توبنی نوع انسان پر اللہ کےبہت سارے احسانات ہیں کہ اس نےہمیں عقل وشعورسے نوازا،ہماری رشدوہدایت کی خاطرہمارے درمیان اپنےبرگزیدہ پیغمبروں ، نبیوں ورسولوں کو مبعوث فرمایا جوانسانوں کو دینی تعلیمات ، شرعی احکام اور اس کی معرفت سے آگاہ کرتے رہے ۔اور کتاب وسنت کی تعلیمات کو بندوںتک بلا کم وکاست پہنچاتے رہے ۔جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے :﴿وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ﴾(سورہ نحل:۳۶)’’ہم نے ہر امّت میں ایک رسول بھیجا (اس بات کا حکم دے کر )کہ صرف اللہ کی عبادت کریں اورغیر اللہ کی عبادت سے بچیں‘‘۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ نےانسانوں کواس بات کی خبر دی ہے کہ اس نے لوگوں کی ہر جماعت میں ایک ایسا رسول بھیجتا رہاہےجو اس کلمہ کی تبلیغ کریں جس میں صرف ایک اللہ کی عبادت کا حکم ہے اور غیراللہ کی عبادت سے ممانعت ہے۔اور دوسری جگہ اللہ نےانسان کے مقصد تخلیق کی طرف اشارہ کرتےہوئے ارشاد فرمایاکہ :﴿ومَا خَلَقْتُ ٱلْجِنَّ وَٱلْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴾’ ہم نے انسانوں اورجناتوں کو صرف اپنی ہی عبادت وبندگی کے لئے پیدا کیاہے‘‘اور آگے اللہ نے فرمایاکہ’’ ہم نے تجھے اس دنیا میں پیدا کرکے تجھ سےروزی اور کسی دنیاوی چیز کے طلب گار نہیں ہیں‘‘﴿مَآ أُرِيدُ مِنْهُم مِّن رِّزْق َمَآ أُرِيدُ أَن يُطْعِمُونِ ﴾میں ان سے کوئی روزی نہیں چاہتا ہوں اور نہ ہی چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں‘‘ بلکہ اللہ کی ذات تو وہ ہےجو کائنات کی تمام مخلوق کو روزیاں دیتی ہےاس کا ارشاد گرامی ہےکہ﴿ِان اللہ ھوَ الرزّاقُ ذُو ٱلْقُوةِ الْمَتِين﴾بے شک الله ہی بڑا روزی دینے والا زبردست طاقت والا ہے (سورۃ الذاریات،آیت۵۶ا۔۵۸)خالق تو اپنے مخلوق سے صرف اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم بنی نوع انسان عبودیت کہ ہر پہلو سے اس کے سچے وپکے بندے بن جائیں۔اور خالص اسی کی عبادت وبندگی کریں ،اس کے علاوہ کسی اور کے سامنے اپنے جبین نیاز کو خم نہ کریں اور نہ ہی کی اور کےسامنے دست سوال دراز کر یں،اگر ہمار ے سامنے کچھ حاجات اور پریشانیاں ہیں توان تمام پریشانیوں کو اسی سے بیان کریں اوراسی سے استغاثہ ومدد طلب کریں ، دن کے اجالے اور رات کی تاریکی وتنہائی میںاسی کے سامنے رواور گڑاکرمدد طلب کریں،اس لئے کہ و ہی دعائوں کو سننے اور قبول کرنے والا ہے ۔جیسا کہ اس کا فرمان ہے ’’ادعونی استجب لکم ‘‘اے میرے بندو! مجھے پکارومیں تمہاری پکارکو قبول کروں گا،اسی لئے اللہ کے رسولﷺ نے عبداللہ بن عباس کو یہ تعلیم دی تھی کہ ’’اذاسلت فاسل اللہ واذاستعنت فاستعن باللہ ‘‘جب تم سوال کروتو اللہ سے سوال کرو اور جب مدد طلب کرو تو اسی اللہ سے مدد طلب کرو، جو تمہاری دعائوں کو سننے والا اور تمہاری مدد کرنے والاہے ۔
اگر ایک انسان جسے اللہ نےخالص اپنی عبادت کرنے کا حکم دیاہے اس کو چھوڑ کر کسی اورکو اپنا الہٰ اور معبود بناتاہے تو اس سے زیادہ احمق کون ہوسکتاہے،کیونکہ جو ہمارا خالق ومالک ہے ہم اسے چھوڑ کر کسی اور سے فریاد کیوں طلب کریں؟ جب کہ ہمارے اس بندگی وعدم بندگی سے اللہ کی ذات وصفات اور بادشاہت وسلطنت میں کچھ فرق پڑنے والابھی نہیں ہےاس لئے کہ اللہ کی ذات تو وہ ہے جو تمام کائنات کا خالق ومالک ،مدبر وپالنہار اور روزی رساں نیز ہر چیز سے بے نیاز ہے اور تمام اختیارات وکمالات کے ساتھ ساتھ ہر چیز کامالک ہے ،ایسی صورت میں اگر ایک انسان اس کی عبادت وبندگی کرتاہے تو اسی کا فائدہ ہے اور اگر اس کی نافرمانی کرتاہے تواسی کا نقصان اور خسارہ ہے ،جیساکہ اللہ کے رسول ﷺ نے ایک حدیث قدسی میں اس بات کی طرف اشارہ کیاہے: ’’ عَنْ أَبِى ذَرٍّ عَنِ النَّبِىِّﷺ فِيمَا رَوَى عَنِ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَنَّهُ قَالَ: يَا عِبَادِى إِنِّى حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلَى نَفْسِى وَجَعَلْتُهُ بَيْنَكُمْ مُحَرَّمًا فَلاَ تَظَالَمُوا يَا عِبَادِى كُلُّكُمْ ضَالٌّ إِلاَّ مَنْ هَدَيْتُهُ فَاسْتَهْدُونِى أَهْدِكُمْ يَا عِبَادِى كُلُّكُمْ جَائِعٌ إِلاَّ مَنْ أَطْعَمْتُهُ فَاسْتَطْعِمُونِى أُطْعِمْكُمْ يَا عِبَادِى كُلُّكُمْ عَارٍ إِلاَّ مَنْ كَسَوْتُهُ فَاسْتَكْسُونِى أَكْسُكُمْ يَا عِبَادِى إِنَّكُمْ تُخْطِئُونَ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَأَنَا أَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا فَاسْتَغْفِرُونِى أَغْفِرْ لَكُمْ يَا عِبَادِى إِنَّكُمْ لَنْ تَبْلُغُوا ضَرِّى فَتَضُرُّونِى وَلَنْ تَبْلُغُوا نَفْعِى فَتَنْفَعُونِى يَا عِبَادِى لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ كَانُوا عَلَى أَتْقَى قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنْكُمْ مَا زَادَ ذَلِكَ فِى مُلْكِى شَيْئًا يَا عِبَادِى لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ كَانُوا عَلَى أَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مَا نَقَصَ ذَلِكَ مِنْ مُلْكِى شَيْئًا يَا عِبَادِى لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ قَامُوا فِى صَعِيدٍ وَاحِدٍ فَسَأَلُونِى فَأَعْطَيْتُ كُلَّ إِنْسَانٍ مَسْأَلَتَهُ مَا نَقَصَ ذَلِكَ مِمَّا عِنْدِى إِلاَّ كَمَا يَنْقُصُ الْمِخْيَطُ إِذَا أُدْخِلَ الْبَحْرَ يَا عِبَادِى إِنَّمَا هِىَ أَعْمَالُكُمْ أُحْصِيهَا لَكُمْ ثُمَّ أُوَفِّيكُمْ إِيَّاهَا فَمَنْ وَجَدَ خَيْرًا فَلْيَحْمَدِ اللَّهَ وَمَنْ وَجَدَ غَيْرَ ذَلِكَ فَلاَ يَلُومَنَّ إِلاَّ نَفْسَهُ ». قَالَ سَعِيدٌ كَانَ أَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلاَنِىُّ إِذَا حَدَّثَ بِهَذَا الْحَدِيثِ جَثَا عَلَى رُكْبَتَيْهِ)(صحیح مسلم :کتاب البروالصلۃ ،باب تحریم الظلم۔۶۷۳۷،۲۵۷۷) ترجمہ : ۔۔۔اے میرے بندو! اگر تمہارے اول وآخراور اسی طرح تمام انسان اور جن اس ایک آدمی کے دل کی طرح ہو جائیں جو تم میں سب سےزیادہ متقی وپرہیز گار ہو(یعنی کوئی بھی نافرمان نہ رہے )توا س سے میری حکومت اور بادشاہی میں کچھ اضافہ نہیں ہوگا ۔اے میرے بندو! اگر تمہارے اول وآخراور اسی طرح تمام انسان اور جن اس ایک آدمی کے دل کی طرح ہو جائیں جو تم میں سب سےبڑا نافرمان اور فاجر ہو تواس سے میری حکومت اور بادشاہی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی ،اے میرے بندو! اگر تمہارے اول وآخراور انسان اور جن سب کے سب ایک میدان میں جمع ہوجائیں اور مجھ سے سوال کریں اور میں ہر انسان کو اس کے سوال کے مطابق عطا کردوں تواس سے میرے خزانے اور بادشاہی میں اتنی ہی کمی واقع ہوگی جتنی سوئی کے سمندر میں ڈبوکر نکالنے سے سمندر کے پانی میں ہوتی ہے ،اسی طرح مسند احمد میں ایک دوسری حدیث قدسی ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے :’’ عن أبي هريرة قال قال النبيﷺ قال الله عز و جل : يا بن آدم تفرغ لعبادتي أملأ صدرك غنى وأسد فقرك وإلا تفعل ملأت صدرك شغلا ولم أسد فقرك ‘‘(مسند احمد :۲؍۳۵۸،والسلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ :۱۳۵۹)اے ابن آدم تومیری عبادت کے لئے فارغ ہوجا،میں تیرا سینہ تونگری سے بھر دوں گا اور تیری حاجتیں پوری کردوں گا ،اگر تو نے ایسا نہ کیا تو میں تیرے سینے کو اشغال سے بھر دوں گا اور تیری حاجت مند ی کا راستہ بند کروں گا۔
ان نصوص سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ ہی ہمارا خالق ومالک اور روزی رساں ہے ،جس کے ہم پر بہت سارے حقوق عائد ہوتے ہیں ۔ جس میں سے سب سے پہلا حق تو یہی ہے کہ ہم خالص اسی کی عبادت کریں اور غیراللہ کی عبادت وبندگی سے کنارہ کشی اختیار کریں ،جیساکہ اس کا فرمان اورحکم ہےکہ :﴿ وَاعْبُدُوا اللہ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ﴾(النساء:۳۶)اور اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائو ،اور دوسری جگہ فرمایاکہ :﴿ وَقَضَى رَبّک أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ﴾(بنی اسرائیل :۲۳)اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکاہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا۔اور سورہ زاریات کے اندر فرمایاکہ:﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴾ہم نے انسانوں اور جناتوں کو صرف اپنی ہی عبادت کے لئے پیداکیاہے ‘‘(الذاریات :۵۶)۔مذکورہ تمام آیتیں اللہ کے حقوق (عبادت) کی ادائیگی کی طرف آمادہ کرتی ہیں ،جو ہر حال میں ہمارے لئے لازم وضروری ہے ۔ اسی طرح اللہ اور بندوں کے حقوق کے تعلق سےایک مشہور حدیث ہے جس کے راوی حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ ہیں کہتے ہیں کہ : كُنْتُ رِدْفَ النَّبِيِّ ﷺعَلَى حِمَارٍ يُقَالُ لَهُ عُفَيْرٌ فَقَالَ يَا مُعَاذُ هَلْ تَدْرِي حَقَّ اللہ عَلَى عِبَادِهِ وَمَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللہ قُلْتُ اللہ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ فَإِنَّ حَقَّ اللہ عَلَى الْعِبَادِ أَنْ يَعْبُدُوهُ ، وَلاَ يُشْرِكُوا بِه شَيْئًا وَحَقَّ الْعِبَادِ عَلَى اللہ أَنْ لاَ يُعَذِّبَ مَنْ لاَ يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا ، فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللہ أَفَلاَ أُبَشِّرُ بِهِ النَّاسَ قَالَ : لاََ تُبَشِّرْهُمْ فَيَتَّكِلُوا‘‘۔(کتاب: كتاب الصلح،باب اسم الفرس والحمار۔ح:۲۸۵۶)سیدنا معاذبن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم ﷺ کے پیچھے ایک گدھے پر سوار تھا جس کا نام’’ عفیر ‘‘تھا،آپ ﷺ نےفرمایا: اے معاذ! کیا تم جانتے ہو کہ اللہ کا حق اپنے بندوں پر کیاہے ؟ اور بندوں کا حق اللہ پر کیاہے ؟ حضرت معاذ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہاکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ اس کے بارے میں بہتر جانتے ہیں ۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا :کہ بے شک اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ بندے اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں ،اور بندوں کا حق اللہ تعالیٰ پر یہ ہے کہ جو بندہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتاہوتو وہ بندے کو عذاب نہ دے ۔پس میں نے (معاذبن جبل رضی اللہ عنہ )نے کہا !کہ اے اللہ کے رسول ﷺ کیا میں اس کی خوشخبری لوگوں کو نہ دے دوں ،تو آپ ﷺ نے فرمایاکہ نہیں !اس لیے کہ لوگ اسی پر بھروسہ کرلیں گے (اور اعمال حسنہ کم کریں گے)۔ اوریہ بات متحقق ہے کہ زمین وآسمان اور اس کے درمیان موجود تمام چیزوں کا خالق ومالک صرف وہی اللہ کی ذات ہے جو عرش پر مستوی ہے ،جو اپنی ذات میں اکیلا اور ایکتاہے ،اس کے اہل وعیال ہیںنہ ہی کوئی اس کا شریک وساجھی ہے ،اس کا فرمان ہے کہ اے نبی کہہ دیجئے:﴿قُلْ هُوَ اللہ أَحَدٌ ،اللہ الصَّمَدُ، لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ ،وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ ﴾(اخلاص : ۱،۴) کہ اللہ ایک ہے،اللہ بے نیاز ہے ،نہ اس سے کوئی پیدا ہوا نہ وہ کسی سے پیدا ہوا ،اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے۔
ان صفات عالیہ کے ساتھ وہ اس بات کا متقاضی ہے کہ صرف اسی کی عبادت وبندگی کی جائے اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے ،اس کے حقوق کی ادائیگی کی جائے اور شرک وبدعات کی غلاظتوں سے اپنے دامن کو بچایاجائے جس میں ہماری ہی کامیابی وکامرانی کا راز مضمر ہے ،جس سے ہمیں دنیا میں بھی عزت وبلندی ملے گی اور ہمیشہ ہمیش کی زندگی یعنی آخرت میں بھی جنت الفردوس کی شکل میں رب العالمین کی طرف سے سب سے عظیم تحفہ دیاجائے گا۔ لیکن اگر کہیں ہم نے اپنی اس محدود اور چند روزہ زندگی میں حقوق اللہ کی ادائیگی سے انحراف اور کنارہ کشی اختیار کی ،شرک وبدعات اور دنیاوی خرافات سے اپنے دامن کو نہیں بچایا تو دنیا وآخرت دونوں میں ہماری رسوائی ہوگی ۔جو ہمارے لئے سب سے بڑی ہلاکت وبربادی ہوگی، چنانچہ اسی اہمیت کے پیش نظر نبی آخرالزماں ﷺ نے اپنے صحابہ اور امتیوں کو بارہا حقوق اللہ کی ادائیگی کی طرف راغب کیا تھا اور شر ک جیسی قبیح خصلت سے متصف ہونے سے روکا اور ڈراودھمکایاتھا ۔ ابو درداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میرے خلیل جناب محمد رسول ﷺ نےمجھ کو نصیحت ووصیت کرتے ہوئے ارشادفرمایا کہ’’عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ ، قَالَ : أَوْصَانِي خَلِيلِي صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ أَنْ لاَ تُشْرِكْ بِاللَّهِ شَيْئًا ، وَإِنْ قُطِّعْتَ وَحُرِّقْتَ ، وَلاَ تَتْرُكْ صَلاَةً مَكْتُوبَةً مُتَعَمِّدًا ، فَمَنْ تَرَكَهَا مُتَعَمِّدًا ، فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْهُ الذِّمَّةُ‘‘ (سنن ابن ماجہ : کتاب الفتن ،باب الصَّبْرِ عَلی الْبَلاَءِ:ح؍ ۴۰۳۴)کہ اے بودرداء اللہ کے ساتھ کسی کو شریک مت کرنا ،چاہے تمہیں کاٹ کر ٹکڑےٹکڑے کردیاجائے یا تجھے آگ میں جلا دیاجائے اور جان بوجھ کر فرض نماز مت چھوڑنا اس لئے کہ جو اس کو جان بوجھ کر چھوڑ دے گا تو اللہ کی ذمہ داری اس سے ختم ہوجاتی ہے ۔
اس حدیث میںبھی اللہ کے حقوق کی کتنی تاکید کی گئی ہے کہ توحید الٰہی اور نماز کی خصوصیت کے ساتھ اہتمام کرنا جو دخول جنت کے اسباب میں سے ہیں ۔لہذامسلمانو! آج کے اس پرفتن دور میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اخلاص وللہیت کے ساتھ کتاب وسنت کی رسی کو مضبوطی سے تھامیں رہیں اللہ اور اس کے رسول کے حقوق کی حفاظت وپاسداری کریں اور جب تک زندہ رہیں عقیدہ توحیدکے ساتھ ساتھ ارکان اسلام پر گامز ن رہیں ۔
دعاہے کہ اللہ ہمیں جب تک زندہ رکھے ایمان واسلام پر زندہ رکھے اور خاتمہ بالخیر فرما۔ آمین!

Abdul Bari Shafique Salafi
About the Author: Abdul Bari Shafique Salafi Read More Articles by Abdul Bari Shafique Salafi: 114 Articles with 133313 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.