دین اسلام کے خلاف سازش کوئی نئی بات نہیں یہ سلسلہ روز
اول سے جاری ہے، ہر دور میں مختلف شکلوں میں اسلام اور اساس دین کو نقصان
پہنچانےکی کوششیںکی جاتی رہی ہیں ۔ لیکن بقول باری تعالیٰ کہ جب حق آجاتا
ہے تو باطل کے ٹھہرنے کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی ، یہی وجہ ہے کہ دین
اسلام کو مٹانے کی جتنی بھی کوششیں کی گئیں ،ناکام ہوئیں اور وہ اسی
قدرسرسبز و شاداب ہو کر پھلتا پھولتا رہا جس کا ثبوت یہ ہے کہ سناتن دھرم ،یہودیت
اور عیسائیت کے بعدمتعارف ہونے والے اس مذہب کے پیروکاروں کی تعداد دنیا
بھر میں عیسائیوں کے بعد سب سے زیادہ ہے اور آج مغربی اور یوروپی ممالک
میں اسلام انتہائی تیزی سے پھیلنے والامذہب بن گیا ہے ۔اسلام کی آفاقیت
اور عوامی سطح پر اس کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے مخالفین حق اس کے خلاف
معاندانہ کوششوں میں کچھ زیادہ ہی سرگرمی کا مظاہرہ کررہے ہیں ، انہی میں
وہ مدعیان نبوت و مہدویت بھی ہیں جوان فتنہ پروروں کے آلہ ٔ کار بنے ہوئے
ہیں جو اسلام کی بیخ کنی کے مقصد سےہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔
مرزا غلام احمد قادیانی کے بعد آج پھر وہی فتنہ شکیل بن حنیف کی شکل میں
بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے، عجیب بات ہے کہ یہ فتنہ ان طلباء کو خا ص طور سے
نشانہ بنارہا ہے جو عصری علوم کے متلاشی ہیں اوراسی کے حصول میں مصروف ہیں۔
دینی علوم سے بے رغبتی اور لاعلمی آج مسلم نوجوانوں کیلئے بہت بڑا مسئلہ
بن گئی ہےجوان فتنوںکا اصل سبب ہےاور وہی لاعلمی ان فتنہ پردازوں کیلئے
ایسی راہ داری بن گئی ہے جس کے ذریعے وہ داخل ہوکر دین اسلام کو سبوتاژ
کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں ۔یونیورسٹی او ر کالجز کی سطح پر علم حاصل
کرنے والے طلباءعام طور پر دین کی بنیادی تعلیمات سے نا آشنا ہوتے ہیں جس
کا بھرپور فائدہ اٹھاکر شکیل اور اس کے ہمنواقرآن و حدیث کی من مانی تشریح
کرتے ہوئے دور حاضرہ کو مہدی موعود کی آمد کا زمانہ بتاتے ہیں ۔بہار کے
دربھنگہ سے تعلق رکھنے والے شکیل بن حنیف کے معتقدین اسے عیسیٰ مسیح اور
مہدیٔ موعود قرار دےرہے ہیں اور اس بات کی تبلیغ کررہے ہیں کہ جو شخص ان کے
مہدی موعود ہونے سے انکار کرے گا وہ گمراہ اور کافر ہوگا ،لہٰذا مہدی ٔ
موعود حاضر کوتسلیم کرلینا اور ان کی اقتدا میں زندگی گزاردینے میں ہی فلاح
و نجات ہے ۔
فی الحال ممبئی ، اورنگ آباد اور مہاراشٹر کے کچھ دیگر مقامات کو ان فتنہ
پردازوں نے اپنا مرکز اور میدان عمل بنارکھا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ فرضی مہدی
ٔ موعود فی الحال اورنگ آباد شہر سے ۷ ؍ کلو میٹر دور پڑے گاؤں میں مقیم
ہے اور اس کا اصل نام شکیل بن حنیف ہے ، اس کے معتقدین کی ایک اچھی خاصی
تعداد ہے جو اپنی طرح کی تبلیغ و دعوت میں مصروف ہیں۔ایک سال قبل اندرا نگر
باندرہ ( ایسٹ ) کی مسجد فیض العلوم میں ان کی آمد و رفت بڑھی رفتہ رفتہ
یہ لوگ جب مزید پر پرزے نکالنے لگے تو وہاں کے ٹرسٹیوں اورمنتظمین نے نہایت
سنجیدگی کے ساتھ انہیں وہاں سے دوبارہ مسجد میں داخل ہونے پرسخت قانونی
کارروائی کی وارننگ دیتے ہوئے رخصت کردیا ، اس واقعے کےٹھیک ایک سال بعد
۲۰؍رمضان کو کچھ نوجوان وہیں کی ایک دوسری مسجدغوثیہ ( کیپری بلڈنگ ) میں
اعتکاف کی غرض سے آئے، وہاں موجود لوگوں نےکہا ، آپ مسجد کے ذمہ داران سے
بات کرلیں ، بس انہی باتو ں کو موضوع بناکر ان نوجوانوں نے وہاں خوب ادھم
مچایا اور سرکشی کی اور زبردستی اعتکاف میں بیٹھنے کی کوشش کی ، یہاں تک کہ
ہاتھا پائی کی نوبت آگئی ۔ اس دوران مسجد اور مسجد کے باہرکافی لوگ جمع
ہوگئے جوبے حد مشتعل تھے اور بار بار ٹرسٹیان سے مطالبہ کررہے تھے کہ وہ ان
شرپسندوں کو ان کے حوالے کردیں ، اس سے قبل کہ بات زیادہ بگڑتی اور حالات
مزید خراب ہوتےاورمسلمانوں کی رسوائی ہوتی ، ،خاص طور سے بہرام کے ہوشمند
اور متحرک شوشل ورکر اور مسجد کے ٹرسٹی سید جیلانی علی نے زبردست حکمت عملی
کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی نہ کسی طرح ان نوجوانوں کو وہاں سے سمجھا بجھا کر
نکال باہر کیا ۔
بہرام باندرہ کا گنجان آبادی والامتوسط طبقہ کے لوگوں کا علاقہ ہے جہاں کے
بیشتر مکانات جھونپڑوںپر مشتمل ہیں معاشی طور پر کمزو ر علاقہ ہونے کے سبب
بچوں میں تعلیم کی بےحد کمی ہے اور کچھ ہے بھی تو صرف عصری تعلیم ، دینی
تعلیم نہیں کے برابر ہے۔شرپسند ایسے ہی علاقوں کو اپنا نشانہ بناتے ہیں اور
بڑی حد تک کامیاب بھی ہوتے ہیں۔ اس وقت یہاں شکیل بن حنیف کے پیروکاروں کی
تعداد ۳۰؍تک پہنچ گئی ہے جن میں زیادہ تر نوجوان انجینئراور ڈاکٹرہیں۔گذشتہ
چندماہ پیشتر بہرام کے ایک فعال اور متحرک مذہبی کارکن بابو بھائی نے اس
طرح کے فتنہ پردازوں کے خلاف قانونی کارروائی کرتے ہوئے نرمل نگر پولس
اسٹیشن میں عرضداشت داخل کی تھی ،پولس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے اس
معاملے کی ابتدائی تفتیش کی لیکن اسے ان شرپسندوں کے خلاف کوئی گواہ نہ مل
سکا نتیجتاً اسے اپنی کارروائی روکنی پڑی اور وہ عرضداشت ٹھنڈے بستے میں
چلی گئی ۔ اسی طرح گذشتہ دنوں دہلی کی شاہی مسجد بھوگل ایریا میں بھی سات
شکیلی اعتکاف میںبیٹھے ہوئے تھے جنہیں وہاں کے ایک مصلی اسد ربانی نے پہچان
لیا اور وہاں کے ائمہ و دیگر ذمہ داران نے فوری کارروائی کرتے ہوئے نصف شب
کو ہی ان نوجوانوں کو وہاں سے نکال دیا اسی طرح اور بھی بہت سی مسجدوں میں
یہ لوگ اعتکاف میں بیٹھے ہوئے ہیں ان میں سے ایک جگہ مئو اعظم گڑھ بھی ہے
لیکن وہاں کے مسلمان ان شکیلیوں کی سازشوں سے لاعلم ہیں ۔ تازہ شکیلی فتنہ
اور آرایس ایس لیڈر اندریش کمار کی مسلم راشٹریہ منچ کے ذریعے اسلام کی
بیخ کنی یہ سب ایک ہی سکے کے الگ الگ رخ ہیں جنہیں سمجھنے اور جاننے کے لئے
دل و دماغ کو کھلا رکھنے کی ضرورت ہے ۔افسوسناک مرحلہ یہ بھی ہے کہ
مسلمانوں کی ایک خاص تعداد بھی اندریش کمار کی آلہ ٔ کار بنی ہوئی ہے ۔ان
فتنوں کے تدارک کیلئے دینی علوم کی معرفت لازمی ہے۔قصوروارصرف مسلم نوجوان
ہی نہیں وہ والدین بھی ہیں جو خود دینی تعلیمات سے نا آشنا ہیں اور اپنے
بچوں سے بھی غافل ہیں ۔یاد رکھیں اگر اس پر فوری توجہ نہ کی گئی تو آگے چل
کر یہ فتنہ انتہائی تباہ کن ہوسکتا ہے ۔ |