دنیا کے مشہور ومعروف تعلیمی ادارہ ’’دارالعلوم دیوبند‘‘
کے دارالافتاء کی جانب سے ایک سوال کے جواب پر بعض حضرات نے فتوی کی عبارت
میں حذف واضافات کے ساتھ سوشل میڈیا پر شیئر کرکے رمضان کے مبارک مہینہ میں
امت مسلمہ میں تفرقہ ڈالنے کی مذموم کوشش کی۔ یقینا اختلاف رائے کیا جاسکتا
ہے لیکن جس انداز سے اُس فتوی کو سوشل میڈیا پر شیئر کیا گیا وہ قابل مذمت
ہے۔ امت مسلمہ کے درمیان بغض وعناد اور دوریاں پیدا کرکے اپنی چودھراہٹ کو
باقی رکھنا ہی بعض حضرات کا بنیادی مقصد ہے، حالانکہ ضرورت ہے کہ دوسرے
مکتب فکر کی رائے کا احترام کرتے ہوئے ہی اپنی رائے پیش کی جائے تاکہ اسلام
مخالف طاقتیں اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ عید کے موقع پر ہر شخص کی
خواہش ہوتی ہے کہ اپنے اختلافات اور جھگڑوں کو بھلاکر اپنے اور غیروں سب کے
ساتھ عید کی خوشیوں میں شریک ہو، مگر بعض حضرات اپنے ذاتی مفادات کے لیے
خوشی کے موقع پر بھی امت مسلمہ کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ دارالعلوم دیوبند
کے دارالافتاء کا جواب بالکل صحیح ہے کیونکہ دنیا کا کوئی بھی مستند دینی
ادارہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا فتویٰ نہیں دے سکتا ہے۔ سوال کیا گیا: کیا
عید کے دن گلے ملنا حضور اکرم ﷺ سے ثابت ہے؟ مفتیان کرام نے جواب دیا: خاص
عید کے دن گلے ملنا حضور اکرم ﷺ سے ثابت نہیں ہے۔ اﷲ اور اس کے رسول سے سچی
محبت کرنے والا کیسے کہہ سکتا ہے کہ خاص عید کے دن گلے ملنا حضور اکرم ﷺ سے
ثابت ہے کیونکہ حدیث یا سیرت یا تاریخ کی کسی بھی کتاب میں یہ مذکور نہیں
ہے کہ خاص عید کے دن نمازِ عید سے فراغت کے بعد حضور اکرم ﷺ صحابۂ کرام سے
اور اسی طرح صحابۂ کرام ایک دوسرے سے گلے ملتے تھے۔ ہاں عیدالفطر کے موقع
پر ایک دوسرے کو دعا دینا ثابت ہے، چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ صحابۂ کرام
جب عید کے دن ملاقات کرتے تو آپس میں ایک دوسرے کو یوں کہتے۔ تَقَبَّلَ
اللّٰہُ مِنَّا وَمِنْکُمْ یعنی اﷲ ہمارے اور تمہارے اعما ل کو قبول کرے۔
اس لیے عید کے موقع پر دوست واحباب ومتعلقین اور دیگر مسلمانوں کو دعائیں
دینا یا ان کو مبارک باد پیش کی جاسکتی ہے۔ یقیناً کسی شخص سے ملاقات کے
وقت گلے ملنا تو جائز ہے، لیکن اُس کا عید الفطر سے کوئی تعلق نہیں ہے یعنی
گلے ملنا عید الفطر کے مسنون اعمال میں سے نہیں ہے۔
سوال کے جواب میں اس کے بعد تحریر کیا گیا: خاص عید کے دن گلے ملنے کو لازم
سمجھ کر کرنا بدعت ہے۔ ظاہر ہے اس بات سے کون اختلاف کرسکتا ہے کیونکہ
قیامت تک بھی کوئی اس بات کو غلط ثابت نہیں کرسکتا، یعنی خاص عید کے دن گلے
ملنے کو لازم سمجھ کر کرنا نہ صرف غلط ہے بلکہ دین میں ایک نئی بات پیدا
کرنا بھی ہے جو بدعت ہے۔ فتوی میں آگے تحریر کیا گیا: ہاں اگر کسی سے بہت
دنوں پر اسی دن ملاقات ہوئی ہو تو فرطِ محبت میں اس سے گلے ملنے میں کوئی
حرج نہیں، بشرطیہ عید کے دن گلے ملنے کو مسنون یا ضروری نہ سمجھتا ہو۔ بھلا
کون عالم اس عبارت سے اختلاف کرسکتا ہے؟ کیونکہ کسی بھی عمل کو مسنون یا
ضروری قرار دینے کے لیے قرآن وحدیث کی دلیل درکار ہے،جو موجود نہیں ہے۔
سوال کے دوسرے حصہ میں پوچھا گیا کہ اگر کوئی شخص عید کے دن ہم سے گلے ملنے
کے لیے آگے بڑھے تو کیا ہمیں گلے ملنا چاہئے؟ جس کا جواب لکھا گیا کہ اگر
کوئی شخص (جو عید کے دن گلے ملنے کو مسنون یا ضروری سمجھے) گلے ملنے کے لیے
آگے بڑھے تو حکمت وحسن تدبیر سے اسے سمجھادیں، لیکن کوئی سخت موقف اختیار
نہ کریں کہ جس کی وجہ سے کوئی فتنہ برپا ہوجائے، یعنی اگر کوئی شخص
باوجویکہ عید الفطر کی نماز پڑھنے کے لیے ساتھ ہی گیا ہے یا گھر کا ہی فرد
ہے یا دن رات ساتھ ہی رہتا ہے اور عید کی نماز سے فراغت کے بعد گلے ملنے
لگے تو پہلے سمجھائیں کہ یہ عمل مسنون یا ضروری نہیں ہے لیکن اس کے باوجود
اگر وہ گلے مل لے تو ہنگامہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اب آپ خود فیصلہ کریں
کہ مسئلہ مذکورہ میں دینی رہنمائی طلب کرنے پر قرآن وحدیث کی روشنی میں اس
کے علاوہ کیا جواب دیا جاسکتا تھا؟ ظاہر ہے کہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا جواب
نہیں دیا جاسکتا ہے۔ ہاں دیگر بدعات کے مرتکب حضرات نے اپنی بدعات پر پردہ
ڈالنے کے لیے اس نوعیت کی شرپسندی کا سہارا لیا۔
سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والی امیج میں مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کے لیے یہ
عبارت بڑھاکر لکھی گئی: (مسلمانوں یاد رکھو! دیوبند کے نزدیک ہر بدعت
گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔) حالانکہ سب لوگ جانتے
ہیں کہ یہ دونوں حضور اکرم ﷺ کے فرمان ہیں۔ نیز دیوبند والے نہ کوئی دینی
بات اپنی طرف سے کہتے ہیں اور نہ ہی اُن کو اپنی طرف سے کوئی دینی بات کہنے
کا حق ہے۔ دیگر بدعات کے ارتکاب کرنے کی وجہ سے فرمان رسول کو دیوبند کی
طرف منسوب کردیا، حالانکہ سارے نبیوں کے سردار اور سب سے افضل بشر حضرت
محمد مصطفی ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہر بدعت گمراہی ہے۔ نبی کے اس فرمان کو
مشہور محدث امام مسلم ؒنے اپنی کتاب صحیح مسلم میں ذکر کیا ہے۔ حدیث کی
دوسری مشہور کتاب (نسائی) میں مذکور ہے کہ انس وجن کے نبی حضور اکرم ﷺ نے
ارشاد فرمایا: ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔ غرضیکہ ہر بدعت گمراہی
ہے، اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے، یہ دیوبند کے کسی عالم کا قول
نہیں، بلکہ یہ تو اُ س ذاتِ اقدس کا کلام ہے جس کے اسوہ پر عمل کرکے حوض
کوثر کا پانی نصیب ہوگا، آپ ﷺ کی شفاعت ملے گی اور جنت الفردوس میں داخلہ
نصیب ہوگا ان شاء اﷲ۔ اور آپ ﷺ کے طریقہ کو چھوڑ کر دوسرے طریقہ کو اختیار
کرنے میں ناکامی کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ عید کے دن غسل کرنا، مسواک کرنا، حسب استطاعت عمدہ
کپڑے پہننا، خوشبو لگانا، صبح ہونے کے بعد عید کی نماز سے پہلے کھجور یا
کوئی میٹھی چیز کھانا، عید کی نماز کے لئے جانے سے پہلے صدقۂ فطر ادا کرنا،
ایک راستہ سے عیدگاہ جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا، نماز کے لئے جاتے
ہوئے تکبیر کہنا یہ سب عید کی سنتوں میں سے ہیں۔ نماز عید سے فراغت کے بعد
ایک دوسرے کو دعائیں دینا یا مبارک بادی دینا بھی صحابۂ کرام سے ثابت ہے۔
لیکن خاص عید کے دن نمازِ عید سے فراغت کے بعد گلنے ملنا ساری کائنات میں
سب سے افضل بشر حضور اکرم ﷺ کا عمل نہیں ہے، اور نہ ہی صحابۂ کرام ایک
دوسرے سے اس موقع پر گلے ملتے تھے۔ کسی شخص سے بہت دنوں پر عید کے دن ہی
ملاقات ہوئی ہو تو گلے مل سکتے ہیں، لیکن خاص عید کے دن نماز عید سے فراغت
کے بعد گلے ملنا ضروری یا دین کا مسنون عمل نہیں ہے۔ یعنی اگر نماز عید سے
قبل ایک ساتھ ہی نماز پڑھنے کے لیے گئے ہیں اور خطبہ بھی ایک ہی ساتھ بیٹھ
کر سنا ہے، اس کے باوجود گلے ملنا صحابۂ کرام، محدثین، مفسرین اور علماء کا
عمل نہیں ہے لیکن اگر کوئی شخص آگے بڑھ ہی جائے تو گلے مل سکتے ہیں۔ |