استغاثہ کی کاروائی۔۔۔۱ور FIR (حصہّ دوئم)

 اِس مضمون کے حصّہ اوّل میں جہاں سے تحریر ختم ہوئی تھی اب میں وہاں سے ہی آگے بات شروع کرونگا۔
طلبے سے قبل اگر ملزم یاملزمان کو یہ پتا چل جائے کہ اُن کے خلاف استغاثہ کی کاروائی چل رہی ہے تو وہ اِس میں فریق نہیں بن سکتے جب تک عدالت اِن کی طلبی کاحکم نہ فرمائے ۔طلبے کے فوراً بعد مجاز عدالت ملزم یا ملزمان سے عدالت میں حاضری کے سلسلہ میں دفعہ 91ضابطہ فوجداری کی رو سے ضمانت نامہ لیتی ہے جس کا انحصارمجاز عدالت پر ہوتا ہے کہ وہ ملزم یا ملزمان سے کتنی رقم کا ضمانت نامہ لے یہ ضمانت نامہ ملزم یا ملزمان بذاتِ خود نہیں دے سکتے بلکہ اِن کی طرف سے کوئی دوسرا شخص اِن کی ضمانت دے گابالکل اُسی طرح جب FIRکے بعد کوئی ملزم یا ملزمان عبوری ضمانت کے بعد مقدمہ کے چالان میں عدالت میں طلب کیے جانے پر پیش ہوتے ہیں اورعدالت اُن کے خلاف مقدمہ کی کاروائی کا باقاعدہ آغاز کرتی ہے بالکل اُسی طرح استغاثہ میں بھی ملزم یا ملزمان پر مقدمہ چلتاہے۔

کسی خاص صورتحال میں اگر مجاز عدالت چاہے تو وہ ملزم یا ملزمان کو اُن کی درخواست پر اصالتاً حاضری معافی بھی دے سکتی ہے یہ کاروائی دفعہ 205ضابطہ فوجداری کے تحت کی جاتی ہے۔

سائل پر لازم ہوگاکہ وہ ملزم یا ملزمان کی طلبے کے حکم کے بعد سائل پر لازم ہوگا کہ وہ تین روز کے اندراندر استغاثہ اور دیگر دستاویز کی نقول عدالت میں جمع کروائے نقول کی تعداد اتنی ہو گی جتنے ملزم یا ملزمان ہوں گے اِس کے بعد آئندہ تاریخ پیشی پر ملزم یا ملزمان کو نقول کی فراہمی کی جائے گی یہ کاروائی مجسٹریٹ دفعہ 241-A اور سیشن عدالت دفعہ 265-C ضابطہ فوجداری کے تحت کرے گی جس کے بعد مجسٹریٹ دفعہ 242اور سیشن عدالت دفعہ 265-Dضابطہ فوجداری کے تحت ملزم یا ملزمان پر فردِ جرم عائد کریں گی اِس کاروائی کے بعد اگرملزم یاملزمان اپنے کیے گئے جرم کا اقرار کرلیں تو وہ مجسٹر یٹ کی عدالت میں دفعہ 243اور سیشن عدالت میں دفعہE 265-ضابطہ فوجداری کے تحت سزا کے حقدار ہونگے جو ملزم یا ملزمان پر لگائے گئے الزام یا الزامات کے مطابق تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ یا دفعات کے تحت ہوگی۔
اگر ایسا نہ ہو تو سائل جوکہ استغاثہ میں مستغیث کہلاتاہے اپنی شہادت عدالت میں پیش کرے گا اور ملزم یا ملزمان اپنی شہادت پیش کرے گے جس کے بعد دونوں طرف کے وکلاء شہادت پر جرح کریں گے۔

دفعہ 248ضابطہ فوجداری کی رو سے سائل اپنے دائر کردہ استغاثہ سے دستبردار بھی ہوسکتا ہے ایسی صورتحال میں مجاز عدالت ملزم یاملزمان کو بری کردے گی ویسے بھی اگر مجاز عدالت یہ محسوس کرے کہ سائل کی اپنے دائر کردہ استغاثہ میں دلچسپی نہ ہے یاپھراور کوئی وجہ ہو تو مجاز عدالت ملزم یا ملزمان کے خلاف دفعہ 249ضابطہ فوجداری کے تحت کاروائی روکتے ہوئے استغاثہ داخل دفتر کرسکتی ہے یا بصورتِ دیگر دفعہ 249-A کے تحت مجسٹریٹ اور دفعہ 265-Kضابطہ فوجداری سیشن عدالت ملزم یاملزمان کو مقدمہ کے کسی بھی مرحلہ میں بری فرماسکتی ہے یا پھرعدالت استغاثہ کی کاروائی مکمل کرے گی اور جب شہادت مکمل ہو نے کے بعددفعہ 342ضابطہ فوجداری کے بیانات کی روشنی میں عدالت استغاثہ کا حتمی فیصلہ سنا دے گی جو یا تو ملزم یاملزمان کی سزا یابی یاپھر بریت پر مشتمل ہوگا۔

استغاثہ کی کاروائی کے بارے میں ہمارے معاشرے کے عام فہم لوگ ناواقف ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ شائد اِس کاروائی میں بھی پولیس کا عمل دخل ہوتا ہے مگر ایسا نہیں ہے پولیس اِس کاروائی میں بغیرحکم مجاز عدالت داخل نہیں ہوسکتی ہے اور اگر سائل اپنا استغاثہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوجائے توپھر پولیس صرف اتنا ہی کا م کرے گی کہ عدالت سے سزا پانے والے ملزم یا ملزمان کو گرفتار کرے ورنہ پولیس مجاز نہیں کہ وہ خوداِس کاروائی میں خود دخل دے سکے یہی نمایاں فرق ہے استغاثہ اور FIRمیں۔ میری رائے میں استغاثہ زیادہ بہتر ہے FIRسے کیونکہ اِس میں انصاف کے تقاضے پورے ہوتے ہیں۔
(ختم شد)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

Shahzad Imran Rana Advocate
About the Author: Shahzad Imran Rana Advocate Read More Articles by Shahzad Imran Rana Advocate: 68 Articles with 44190 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.