عیسائی مشنریز کے فکری و تعلیمی اہداف اور مسلم امہ کی ذمہ داریاں

مسلم امہ کی تباہی و بربادی کی جو سازشیں اہلِ مغرب نے رَچیں اُس کے کئی اہداف تھے۔اعتقادی،تعلیمی، تہذیبی، لسانی، نسلی، ثقافتی وغیرہم۔جن کی تکمیل کے لیے اُنھیں صدیاں لگ گئیں۔ اسی کے لیے انھوں نے عیسائی یہودی اختلافات کو پس پشت ڈال کر متحدہ محاذ قائم کیا اور’’ اسلام‘‘ کے مقابل تمام اقوام کو جمع کیا۔ عالمی جنگوں کا راست نقصان مسلمانوں کو پہنچا۔ دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں برطانوی اسلام مخالف پالیسیوں کے پیشِ نظر مسلمانوں کی ماضی کی سب سے بڑی سُپر پاور ’’سلطنتِ عثمانیہ ترکی‘‘ نے جرمنی کا ساتھ دیا۔ سامراجی سازشوں کے نتیجے میں برطانیہ کامیاب رہا، جرمنی شکست خوردہ۔ عثمانیوں کی قوت مزید کم زور ہوئی۔ اسی کے فوراًبعد حجازِ مقدس سے ترکوں کا انخلا ہوا۔ آج اس پاک سرزمیں پر امریکی فوج ہمہ وقت موجود ہے۔اسی طرح ہمفرے، لارنس آف عربیہ کے فتنے عرب میں ثمر آور ہوئے۔

قضیۂ فلسطین میں مسلم ممالک کی بے حسی اور اسرائیل کی دہشت گردی ساری دُنیا کے مسلمانوں کے لیے مستقل چیلنج ہے۔ اگر اس ضمن میں کوئی بیداری نہیں ہوئی تو اسی طرح فلسطینی پستے رہیں گے اور خدانخواستہ گریٹ اسرائیل کا منصوبہ کامیاب ہو گیا تو پھر مسلم مملکتوں کا براے نام وجود بھی ذلت کے چاہِ عمیق میں گم ہو جائے گا۔ اﷲ اس دن سے ہمیں بچائے۔

مشنری تعلیمی نظام کے مُضرات: تعلیمی رُخ سے مشنری اسکولوں کا قیام، مشنری تعلیم کا پروپیگنڈہ بڑا متاثر کن ہے۔ ہم نے بہت سے دین داروں کو بھی انگریزی اسکول وانگریزی نظامِ تعلیم سے متاثر دیکھا۔ یہ ٹریجڈی ہے کہ جو مذہبی و اخلاقی طور پر زوال پذیر ہیں اُنھیں کی ظاہری چمک دمک سے ہم متاثر ہوئے جاتے ہیں!امام یوسف بن اسماعیل النبہانی (م۱۳۵۰ھ/۱۹۳۲ء) فرماتے ہیں:
’’ اے عقل مند مسلمانو!تم مغربی حکومتوں کی ان کوششوں پرغور کروجو وہ اسلامی ملکوں میں اسکول کھولنے کے لیے کر رہے ہیں، ان پر سالہا سال سے کثیر سرمایہ صرف کر رہے ہیں۔اور ان کے امور و معاملات میں پوری توجہ دے رہے ہیں۔ اے میرے بھائی! کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ یہ اسلام دُشمن ممالک یہ سب کچھ اس لیے کر رہے ہیں کہ انھیں تمہارے مسلمان بچوں سے شفقت و محبت ہے اوروہ اس کی کامیابی کے خواہاں ہیں؟‘‘(ص۴۰،ارشاد الحیاری فی تحذیرالمسلمین من مدارس النصاریٰ،مشنری اسکولوں میں مسلم طلبا کا انجام،۲۰۱۴ء دہلی) ؂
اور یہ اہلِ کلیسا کا نظامِ تعلیم
اک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف

درحقیقت عیسائی مشنریاں مستقبل کومدِ نظر رکھ کر کام کرتی ہیں، انھیں پتا ہے کہ ہم جو آج پڑھا رہے ہیں وہ کل ثمر آور ہوگا اور پھر مسلم امہ میں دین سے بے زاری، آزاد خیالی، دھریت، لاادریت کا مزاج ظاہر ہوگا۔ ایسے ہی نظامِ تعلیم کی پیداوار رُشدی و تسلیمہ نسرین جیسے لوگ تھے، اور وہ افراد بھی جو مذہب کو محض روح کی تسکین کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ جن کے یہاں مذہب صرف انسان کی روحانی زندگی اور موت کے بعد کے احوال سے بحث کرتا ہے۔ وہ زندگی کے معاملات سے مذہب کو جدا سمجھتے ہیں۔ یہ سب کچھ مغربی نظامِ تعلیم کا اثر ہے۔ اسلام مکمل نظامِ حیات و نمونۂ زندگی ہے۔ حیات کا کوئی گوشہ اسلامی اصولوں اور قوانین سے باہرنہیں ہے۔ اسلام کی یہی خوبی مذاہبِ باطلہ کے لیے باعثِ حسد وعار ہے۔

عقائد میں تشکیک، شبہات کی نمود، اور اسلامی تعلیمات کو معاذاﷲ ماضی کے واقعات باور کرانا ان کا منشا ہے۔ مذہب کی تعظیم و قدر کا معاملہ جب مشکوک کر دیا جائے تو مذہب بیزاری ہی ظاہر ہوگی۔امام یوسف بن اسماعیل النبہانی فرماتے ہیں: ’’اسی کے ضمن میں ان (بچوں) کے سامنے اسلامی عقائد، مسلمانوں کی نمایاں شخصیتوں اور ائمہ دین کی برائیاں بیان کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ کبھی کبھار وہ سرورِ پیغمبراں حبیبِ ربِ عالَم وعالمیاں صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی تک تجاوز کرجاتے ہیں، یہ باتیں کئی سالوں تک مسلم بچے کے کان سے بار بار ٹکراتی ہیں، جس کے نتیجے میں وہ اسکول سے اس طرح نکلتا ہے کہ وہ دینِ اسلام اور اس کی حمیت سے بالکل ہی عاری ہو چکا ہوتا ہے۔‘‘(ص۴۱،نفس مصدر)
فکر سازی کے مُہیب اثرات: امام نبہانی فرماتے ہیں:عیسائی اقوام کے لیے ضروری ہے کہ ہر طریقے سے اسلام کی مخالفت کریں، اور ہر قسم کے ہتھیار سے اہلِ اسلام سے جنگ کریں اس کے بعد اس (محمد آفندی طلعت مصری، ماہر یورپیات ) نے رائے ظاہر کی کہ طاقت و قوت سے اسلام کا مقابلہ کرنا اسلام کو مزید پھیلنے کا موقع فراہم کرے گا! اس لیے اس کے کہنے کے مطابق اسلام کے ستون کو ڈھانے اور اس کی عمارت کو منہدم کرنے کا سب سے کارگر ذریعہ یہ ہے کہ مسلمان بچوں کو عیسائی اسکولوں میں تربیت دی جائے اور ان کی نشوونما کے دور سے ہی ان کے دل میں (اسلام سے متعلق) شک و شبہہ کے بیج ڈالے جائیں تا کہ ان کے عقائد اس طور پر بگڑ جائیں کہ ان کو پتا بھی نہ چلے۔(ص۴۳،نفس مصدر)

دین سے بیزاری کی عیسائی تدابیر: یہود و نصاریٰ نے نظامِ تعلیم کے ایسے ضابطے تشکیل دیے جن سے اخلاقی گراوٹ آئے، بے حیائی اور برے کاموں کو فروغ ملے۔ ایسے نظریات اختراع کر لیے جن سے عقائد تباہ ہو جائیں اور دینی حمیت رُخصت ہو کر رہ جائے۔ غالباً علم اور مذہب کی جدا جدا خانوں میں تقسیم کے پیچھے یہی فکر مضمر تھی کہ دینی علوم کا ماہر دوسرے علوم سے بے بہرہ ہو جائے اور دُنیوی علوم کا ماہر دین کے علم سے دور رہے۔ یہ امر بھی پوشیدہ نہیں کہ باعث فخر و انبساط صرف دُنیا کا علم تصور کیا جانے لگا جس میں دین سے دوری کا بہت کچھ سامان موجود ہے۔ امام احمد رضا قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں:’’جو چیز اپنا دین و علم بقدر فرض سیکھنے میں مانع آئے حرام ہے اس طرح وہ کتابیں جن میں نصاریٰ کے عقائدِ باطلہ مثل انکارِ وجودِ آسمان وغیرہ درج ہیں ان کا پڑھنا بھی روا نہیں۔ واﷲ تعالیٰ اعلم‘‘ (ص۵۳۳، امام، فتاویٰ رضویہ ، جلد ۲۳،طبع پوربندر)

فلاسفہ نے اپنے نظریات میں اسلام سے جدا راہیں تراش لیں۔ عقلِ خام کو ہی قبلہ قرار دے لیااور اس نا پائیدار کسوٹی پر اسلامی عقائد کو پرکھنے کی کوشش کی اور ٹھوکر کھا گئے۔ بہت سے من گڑھت نظریات تراش لیے، آسمانوں اور جن و شیطان کے وجود کا انکار اور بہت سے قیاسات، جس کے سبب فلسفہ کی ایسی تعلیم کا حاصل کرنا مضر ٹھہرا۔ امام احمد رضا قدس سرہ اپنے فتاویٰ میں تحریر فرماتے ہیں:’’ غیر دین کی ایسی تعلیم کہ تعلیم ضروری دین کو روکے مطلقاً حرام ہے۔ فارسی ہو یا انگریزی یا ہندی نیز ان باتوں کی تعلیم جو عقائدِ اسلام کے خلاف ہوں جیسے وجودِ آسمان کا انکار یا وجودِ جن و شیطان کا انکار ،یا زمین کی گردش سے لیل و نہار یا آسمانوں کا خرق و التیام محال ہونا یا اعادۂ معدوم نا ممکن ہو نا وغیرذالک عقائدِ باطلہ کہ فلسفۂ قدیمہ وجدیدہ میں ہیں، ان کا پڑھنا پڑھانا حرام ہے۔ ‘‘ (ص۷۰۶، نفس مصدر)

مسلم معاشرے پر صہیونی اثرات:یہود ونصاریٰ کے تربیت یافتہ افراد محض ذہنی و ظاہری طور پر مسلمان ہوتے ہیں۔ ان کی بودوباش، نام وخاندان و رسم و رواج اسلامی ہوتے ہیں لیکن فکری طور پر وہ اسلام کو محض دیگر مذاہب کی طرح سمجھتے ہیں اور یہ رُجحان رفتہ رفتہ مذہبی روح سے دور لے جاتا ہے۔علامہ نبہانی فرماتے ہیں:
’’ان (مشنری اداروں) میں پڑھنے والے کسی دین کو نہیں مانتے ہیں۔ وہ صرف بظاہر مسلمان ہوتے ہیں۔اﷲ کی وحدانیت اور محمدرسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی رسالت کی زبانی گواہی دیتے ہیں۔ دلوں کے فساد کے ساتھ مسلمانوں کی درمیان زندگی گزارتے ہیں۔ اور لوگوں سے شرم وحیا آنے کے سبب ان میں کوئی کبھی کبھار نماز پڑھ لیتا ہے۔ روزہ رکھ لیتا ہے تاکہ جب لوگ اس سے متعارف ہوں تو وہ ان کی نظروں سے گر نہ جائے۔حالاں کہ باطنی طور پر اپنے مذہب والوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا، اِلّا یہ کہ اﷲ تعالیٰ اسے ہدایت دے اوراپنے فضل و کرم سے اسے اس کی ابتدائی حالت کی طرف لوٹا دے۔اور یہ بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔‘‘(ص۴۷۔۴۸،ارشاد الحیاری فی تحذیرالمسلمین من مدارس النصاریٰ)

آخری بات:مقصدِتحریر یہ ہے کہ اپنی نسلوں کے ایمان و عقائد کی حفاظت کو مقدم رکھتے ہوئے ایسے نظام تعلیم سے انھیں بچائیں جو انھیں دین سے بیزار کردے۔ ان کی ابتدا ہی سے دینی ذہن سازی کریں۔ عقائد سکھائیں۔ مسائل بتائیں۔ رسولِ گرامی قدر صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت دل میں اُتاریں۔ عظمتِ رسالت کا درس دیں۔ تعظیمِ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا نقشِ جمیل دلوں پر ثبت کریں۔ اس لیے کہ مشنریز کا اولین ہدف اس زمانے میں ذاتِ رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم ہے۔ کیا ہم نہیں دیکھتے کہ کہیں پادریوں کی طرف سے توہین ہے، کہیں مستشرقین کا فتنہ ہے، کہیں رشدی و تسلیمہ نسرین جیسے ناسور بے ادبی کر رہے ہیں، کہیں ویب سائٹس، شوشل میڈیا کے ذریعے آقائے دوجہاں صلی اﷲ علیہ وسلم کی توہین کی فضا ہم وار کی جا رہی ہے اس لیے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہر فرد کو اسلامی علوم اور رسولِ گرامی صلی اﷲ علیہ وسلم کا شیدائی بنا دیا جائے۔
٭٭٭

Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 281369 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.