عقیدہ توحید اور حکمت الہی

خدا وند متعال تمام کمالات کا حامل ہے اور اس کا علم اورقدرت لامتناہي ہے، وہ ہر شئے کا علم رکھتا ہے اور ہر شئے پر قدرت رکھتا ہے، کسي بھي شئے يا ذات کا محتاج نہيں ہے لہٰذا قطعاً اس کا ہر فعل بھي کامل ترين، مستحکم ترين اور پائيدار ترين فعل کي صورت اختيار کرليتا ہے- پس وہ ”‌احسن الخالقين“ ہے-

عقیدہ توحید اور حکمت الہی

حکمت
خدا وند حکيم ہے اوراس کے تمام افعال وامور حکيمانہ ہيں- حکمت کے دو معني ہيں اور دونوں ہي معني خدا کی صفات ثبوتي کے زمرے ميں آتے ہيں:

(1) فاعل کے فعل ميں استحکام وپائیداري، اس طرح کہ فعل اپنے نہايت کمال کے درجے پرفائز ہو اور اس ميں کسي بھي طرح کا نقص يا عيب نہ پايا جاتا ہو-

(2) فاعل ايسا ہو کہ اس کي ذات سے کسي بھي طرح کا کوئي غلط يا غيراخلاقی یا نا پسنديدہ (قبيح) فعل سرزد نہ ہو اور اس کا ہر فعل شايستہ اورعمدہ وپسنديدہ (حسن) ہو-
علامہ فخر الدین رازي کہتے ہیں
”في الحکيم وجوہ: الاول: انہ فعيل بمعني مفعل، کاليم بمعني مولم ومعني الاحکام في حق اللہ تعاليٰ في خلق الاشياء ھو اتقان التدبير فيھا وحسن التقدير لھا الثاني انہ عبارة عن کونہ مقدساً عن فعل مالا ينبغي“ - (1)

اس عبارت میں حکيم کے دو معني ذکر کئے گئے ہيں ايک اتفاق تدبير اور حسن تقدير اور دوسرا معنی نا مناسب فعل کا انجام نہ دينا-
پہلے معنی کی وضاحت
خدا وند متعال تمام کمالات کا حامل ہے اور اس کا علم اورقدرت لامتناہي ہے، وہ ہر شئے کا علم رکھتا ہے اور ہر شئے پر قدرت رکھتا ہے، کسي بھي شئے يا ذات کا محتاج نہيں ہے لہٰذا قطعاً اس کا ہر فعل بھي کامل ترين، مستحکم ترين اور پائيدار ترين فعل کي صورت اختيار کرليتا ہے- پس وہ ”‌احسن الخالقين“ ہے-

اتدعون بعلاً وتذرون احسن الخالقين -اللهربکم ورب آبائکم الاولين) يعني کيا تم لوگ بعل کو آواز ديتے ہو اور بہترين خلق کرنے کو چھوڑ ديتے ہو- جب کہ وہ الله تمھارا اور تمھارے باپ داداکا پالنے والا ہے-
خالقیت، صفت فعلی ہے لہٰذا خدا اس صورت ميں احسن الخالقين ہو گا کہ جب اس کا فعل بھي احسن الافعال ہو اور اسي لئے يہ آيت خلقت خدا کے بہترين ہونے پر دلالت کرتي ہے۔
دوسرے معنی کی وضاحت
دوسرے معني کي بنياد اس حقيقت کے قبول کرنے پر موقوف ہے کہ شارع (خدا) کے بيان سے قطع نظر، بعض افعال حَسَن اور بعض قبيح (نا پسنديدہ) ہوتے ہيں اور يہ کہ عقل بہت سے موارد اور مواقع پر يہ فيصلہ کرليتي ہے کہ کونسا فعل حسن اور کونسا قبيح ( ناپسنديدہ) ہے مثلاً صداقت، امانت داري، کسي محتاج کي مدد کرنا وغيرہ عقل کے نزديک پسنديدہ اور ان کے مقابلے ميں جھوٹ ، امانت ميں خيانت، ظلم و ستم وغيرہ ناپسنديدہ اور قبيح ہيں ۔
چونکہ افعال کے پسندیدہ یا ناپسندیدہ ہونا عقل کی بنا پر ہے اس لئے اس اصل اور کليہ کوحسن و قبح عقلي کہا جاتاہے-
متکلمين اہل سنت کي اکثریت کہ جن کو اشاعرہ کہا جاتا ہے ، اس مذکورہ اصل و کليہ کے مخالف اورمنکر ہیں- جس کي وجہ سے انہوں نے عدل الہی کو صفات خدا سے خارج کردیا ہے- ان کے مقابلہ ميں اہل سنت ہي کا ايک دوسرا گروہ کہ جن کو معتزلہ کہا جاتا ہے اور اسی طرح شیعہ متکلمين حسن و قبح عقلي کے قائل ہيں- ان کا عقیدہ یہ هے کہ خداوند عادل ہے اور فعل حسن کو ہي انجام دیتا ہے اور ظلم اور فعل قبيح کا مرتکب نہيں ہوتا ۔
اہل سنت میں سےمعتزلہ اور تمام شیعہ متکلمین اس بات کے قائل ہیں کہ خداوند عادل ہے اسی وجہ سے ان کو عدلیہ بھی کہا جاتا ہے اور یہ عقیدہ رکھنا ضروری ہے ۔
اس عقیدہ کے قائل ہونے کے بعد ہم کهہ سکتے ہيں کہ: خدا وند عالم، غني مطلق ہے اور کسي غير کا ذرہ برابر محتاج نہيں ہے نيز عالم وقادر بھي مطلق ہے-ا فعال حسن وعمدہ اور پسنديدہ کا علم رکھتا ہے اور ان کي انجام دہي پرقادر ہے نيز افعال قبيح کا بھي علم رکھتا ہے اور ترک کرنے پر بھي قادر ہے- جو ذات مذکورہ صفات کی حامل ہوکسي بھي صورت ميں فعل قبيح انجام نہيں دے سکتي اور اسي طرح کسي بھي صورت ميں فعل حسن کو ترک بھي نہيں کرسکتی ۔
پس یہ عقیدہ رکھنا بہت ضروری ہے یعنی خداوند متعال کے حکیم اور عادل ہونے کا عقیدہ رکھنا۔ کیونکہ اگر ہم اس بات سے انکار کریں تو نعوذ باللہ خدا کا ظالم ہونا لازم آئے گا اور خداوند نعوذ باللہ ظالم نہیں ہے کیونکہ عدل اور ظلم آپس میں ضدین ہیں جیسے دن اور رات آپس میں ضدین ہیں یعنی یا دن ہے یا رات ۔ یہاں یہ نہیں ہو سکتا کہ نہ دن ہو اور نہ رات اور نہ ہی دونوں ہو سکتے ہیں اسی طرح عدل اور ظلم دونوں آپس میں ضد ہیں دونوں میں سے ایک ہی ہو گا یا عادل یا ظالم اگر کوئی شخص یہ عقیدہ نہیں رکھتا تو وہ شرک کر رہا ہے ۔
دین حقہ کے پرچار اور دین مبین اسلام کی نشرو اشاعت کو عنوان بنا کر آج کل شیعہ ممنبروں پر بے دین لوگ سادہ لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں پہلے تو صرف ذاکرین تھے اب ضمیر اختر ، علی حسنین اور جعفر جتوئی جیسے بہت سارے غالی اور نصیری علماء کا لبادہ پہن کر اہلبیت علیہم السلام کا نام لے کر لوگوں میں بہت سی غلط رسموں کو رواج دینے کے ساتھ ساتھ غلط عقائد بیان کر رہے ہیں لہذا شیعہ قوم کو ایسے لوگوں کا بائیکاٹ کرنا چاہئے تاکہ آنے والی نسل ان گمراہ عقیدوں سے بچ سکے ۔
خداوند متعال ہمیں ایسے گمراہ لوگوں سے بچائے اور دین حقہ کی صحیح معرفت کی توفیق عنایت فرمائے اور آخرت میں محمد وآل محمد علیہم السلام کی شفاعت نصیب فرمائے ۔ آمین

محمد اعظم
About the Author: محمد اعظم Read More Articles by محمد اعظم: 41 Articles with 68668 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.