قرآن ِپاک میں اور احادیث نبویہ میں متعدد بار محاسبہ اور
احتساب کی اہمیت بیان کی گئی ہے کہ وقت کے حکمران سے لیکر ایک عام فرد تک
سبھی کے سبھی انتظامی اداروں کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں ۔چہ جائیکہ یہ
جوابدہی انفرادی مسئلہ پر ہویا اجتماعی مسائل کی وجہ سے۔لیکن جب بات اس
حدتک بڑھ جائے کہ اجتماعی اداروں میں اخلاقی و مالی،علمی و بدانتظامی کی
کرپشن کا جادو سرچڑھ کر بولنے لگے تو ایسے اداروں کیخلاف بغیر کسی تاخیر کے
احتساب ہونا چاہیے ۔کیونکہ ایسے امر میں غفلت برتنے سے ایک فرد کا نقصان
نہیں ہوتا بلکہ ملک و ملت کے مستقبل تباہی کے دہانے پر جاپہنچتاہے۔افسوس کی
بات ہے کہ ہم بات کرتے ہیں کہ پاکستان اسلامی رہاست ہے اور اس کے قراردادِ
مقاصد میں یہ بات درج ہے کہ کوئی بھی قانون سازی قرآن و سنت کے متصادم نہیں
بنے گا جو کہ فی الحقیقت خوش کن بات ہے تاہم المیہ کی بات تو یہ ہے کہ ملک
پاکستان میں حدود آرڈنینس ،سود کی حلت، شراب نوشی اور جوئے کے کھلے عام
مراکز اس قرارداد کی واضح نفی کرتی ہے البتہ جہاں کہیں آئین و قانون کی بات
ہے تو ان کو بسااوقات نافذ تو کردیا جاتاہے مگر عملدرآمد مصلحتاً موقوف یا
معطل کردیا جاتاہے یا پھر کسی فرد یا جماعت کے خلاف نظریہ ضرورت کے تحت
استعمال کردیا جاتاہے۔
ہمارے سامنے تاریخ اسلامی کے صفحات روز روشن کی طرح عیاں ہیں کہ خود مقصود
کائنات جناب رسول کریمؐ نے اپنے آپ کو احتساب کیلئے پیش کیا تھا۔اور حضرت
ابوبکر و عمرؓ اور دیگر اسلامی جرنیل بھی عوام کی عدالت میں بھی جوابدہ
ہوتے تھے اس کے ساتھ وہ احتساب کی عدالت میں بھی حاضر ہوتے تھے۔ایک موقع پر
سیدنا عمر فاروقؓ کیخلاف مقدمہ تھا آپ پیشی پر تشریف لائے تو قاضی احترام
میں کھڑا ہواتو انہوں نے قاضی سے فرمایا یہ پہلی ناانصافی کی ہے آپ نے۔اور
اسی طرح مہر سے متعلق جناب عمرؓ ایک رائے قائم کرتے ہیں تو ایک خاتون سامنے
ڈٹ جاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ قرآن کا حکم تو یہ ہے ہم قرآن کی ہدایت پر عمل
کریں گے ۔تو آپؓ فرماتے ہیں خاتون کا مؤقف درست ہے عمر غلطی پر تھا۔سیدنا
عمر فاروقؓ نے گورنروں اور خود اپنے خاندان کا بھی کڑا محاسبہ کیا کہ حضرت
عمروبن العاص اور اپنے بیٹے کو سزا دلوائی ۔
دوسری طرف اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والے ملک کی حالت یہ ہے کہ
یہاں اسلامی تعلیمات اور حقوق انسانی کی دھجیاں بکھیری جاتیں ہیں مگر قانون
حرکت میں نہیں آتا ۔عدالتیں صرف اور صرف شہرت رکھنے والے مقدمات یا بھاری
بھر فیسیں اداکرنے والوں کے کیسز سنتی ہیں جبکہ سالہا سال سے انصاف کے
متلاشی دربدر کی ٹھوکریں کھاتے نظر آتے ہیں۔خلیفہ راشدجناب علی المرتضیٰؓ
کا فرمان ہے کہ ملک و معاشرہ کفر کی حکومت میں تو چل سکتا ہے مگر ظلم و بے
انصافی میں نہیں۔وفاقی محتسب وہ ادارہ ہے جہاں پر ملک کے تمام سرکاری
دفاتر،محکمے بشمول تعلیمی اداوں کے بارے میں کیسز سننے کیلئے وجود میں لایا
گیا کہ وہاں پر کام کرنے والوں ،تعلیم دینے اور تعلیم حاصل کرنے والوں کے
ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا بروقت احتساب کرکے انصاف فراہم کیا جائے ۔مگر
افسوس کن بات یہ ہے کہ ملک کے قومی خزانے سے انصاف کی بالادستی کے نام
پرکروڑوں اور اربوں کی تنخواہ ومراعات لینے والا ادارہ ایسا کھوکھلا ہوچکا
ہے کہ وہاں پر بڑے فخر کے ساتھ یہ تو کہہ دیا جاتاہے کہ ہم نے ایک سال میں
4لاکھ کیس نمٹائے اور ان پر فیصلہ کیا مگر ان ناعاقبت اندیش افسران سے یہ
کوئی بھی سوال نہیں کرتا اور نہ ہی خود انہیں ندامت ہوتی ہے کہ وہ ملک و
قوم کے خون پسینہ کی کمائی کو دیمک کے طرح چاٹے جارہے ہیں اور دوسری طرف
آئین و قانون کے مطابق کتنے مظلوموں کو انصاف دلایا ہے ۔کتنوں کے مسائل حل
کرائے ہیں ۔کیا آپ قومی خزانے سے صرف اس بات کی مراعت لیتے ہیں کہ فیصلہ
سنائیں اور عملداری سے پہلوتہی کرلیں ۔بخدا وفاقی محتسب ہمارے نزدیک ملک کا
ناکام ترین ادارہ ہے یہاں جتنے بھی سائلین بشمول ہمارے دست سوال دراز کرتے
ہیں انہیں ماسوائے ندامت اور تاسف و پشیمانی کے کچھ ہاتھ نہیں آتا یہ ادارہ
صرف اور صرف طاقتور کے گھر کی لونڈی سے زیادہ اس کی کوئی اہمیت و حیثیت
نہیں ۔ |