علم کے بارے میں بڑوں کی باتیں

علم کی فضیلت واہمیت پر اب تک بہت کچھ لکھا گیا ہے اور جب تک یہ دنیا باقی ہے،لکھا جاتا رہے گا۔اس مضمون میں ہم نے علم کی فضیلت کے حوالے سے نبی اکرم ﷺ،خلفائے راشدین رضی اﷲ عنھم اور بعض اولیائے کرام کے اقوال جمع کرنے کی کوشش کی ہے۔اقوال کی تسہیل کی گئی ہے،کیوں کہ اگر عربی سے اردو میں من وعن یعنی لفظ بلفظ ترجمہ کیا جائے،تو عام طور پر بامحاورہ نہ ہونے کی وجہ سے پوری بات سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔جہاں کہیں کسی قول کی تشریح یا اس سے متعلقہ کوئی وضاحت ناگزیز سمجھی ہے،وہاں اگلی سطر سے’’یعنی‘‘کے الفاظ سے اس تشریح ووضاحت کو درج کردیا ہے۔
خاتم النبیین شفیع المذنبین ﷺ
٭……دو حریص ایسے ہیں جن کی حرص کبھی ختم نہیں ہوگی (۱)علم کا حریص(۲)دنیاکا حریص۔
٭……علم حاصل کرو ،کیوں کہ اﷲ کی رضا کے لیے جو علم حاصل کیاجاتاہے اس علم کی تعلیم خشیت ہے ، طلب عبادت ہے، مذاکرہ تسبیح اور تلاش جہاد(کے برابر اجر رکھتی)ہے۔
٭……بے علموں کوعلم سکھاناصدقہ ہے، علم حلال و حرام کا نشان ہے، دنیاو عاقبت میں روشنی کا ستون ، تنہائی میں مونس وہم دم ،پردیس میں رفیق وساتھی ، خلوت میں ندیم وہم راز ، مصیبت کوہٹانے والا، دشمن کے مقابلے میں ہتھیاراوردوستوں کے درمیان (صاحب علم کے لیے باعثِ) زینت ہے۔
٭……مجھ سے علم سیکھو، مجھ سے علم سیکھو۔(بحوالہ:مخزن اخلاق)
٭……باپ کا بیٹے(اولاد) کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی عطیہ نہیں کہ اس کی تعلیم و تربیت اچھی کرے۔
٭……میری کمر دو آدمیوں نے توڑدی ہے:ایک جاہل عابدو زاہد نے ، دوسرے دین کی ہتک وتوہین اور بے توقیری کرنے والے عالم نے۔
٭……علم بغیر عمل کے وبال ہے اور عمل بغیر علم کے گمراہی ہے۔جاہل کوایک دفعہ عذاب دیاجائے گااور اور عالم بے عمل کو سات دفعہ۔
٭……جو شخص تلاش علم میں نکلا،وہ اپنی واپسی تک گویااﷲ تعالیٰ کی راہ پر چلتارہا۔
٭……عالم بے عمل کی مثال ایسی ہے جیسے اندھے نے چراغ اٹھایا ہو، کہ لوگ تو اس سے روشنی حاصل کرتے ہیں اور وہ خود محروم رہتاہے۔(یہ قول حضرت سیدنا عیسیٰ روح اﷲ علیہ السلام سے بھی منسوب ہے،واﷲ اعلم!)
خلیفہ ٔ بلا فصل حضرت سیدنا صدیق اکبرؓ
٭……جاہل کا دنیا میں پڑجانابرا،اور عالم کا دنیا میں پڑجانابہت براہے۔عام لوگوں کا اﷲ تعالیٰ کی عبادت میں سستی کرنا برا اور عالم کا اﷲ تعالیٰ کی عبادت میں سستی کرنا بہت برا ہے۔
٭……خوف الٰہی بقدرعلم ہوتاہے اور اﷲ تعالیٰ سے بے خوفی بقدرجہالت۔
یعنی جو جتنا علم والا ہوگا ،اسی قدر اس کے دل میں اﷲ تعالیٰ کی عظمت کی وجہ سے اس کی نافرمانی سے خوف بھی ہوگا اور جو علم سے عاری وخالی ہے وہ اﷲ تعالیٰ کی عظمت سے نا واقف ہونے کی وجہ سے اس کی نافرمانی سے بچنے کا بھی زیادہ اہتمام نہیں کرے گا،اور نہ اس نافرمانی کے انجام کا اسے ڈر ہوگا۔جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے بھی قرآن مجید میں فرمایاہے:اﷲ کے بندوں میں سے اہل علم اﷲ سے زیادہ ڈرتے ہیں۔
٭……علم کے سبب کسی نے خدائی کا دعویٰ نہیں کیا بخلاف مال کے،یعنی مال والوں نے ایسے دعوے کیے،جیسے فرعون،ہامان،قارون وغیرہ۔
٭……علم انبیائے کرام علیہم السلام کی میراث ہے اور مال کفارواشرارکی میراث ہے۔
٭……شریف آدمی جب علم حاصل کرتا ہے تواس میں مزید تواضع وانکساری آجاتی ہے، اورکمینہ وبد خصلت آدمی جب علم حاصل کرتا ہے تواور زیادہ بڑائی وتکبر کرنے لگتا ہے۔
٭……عمل بغیر علم کے سقیم و بیمارہے اورعلم بغیر عمل کے عقیم یعنی بانجھ و بے کار ہے۔
خلیفۂ ثانیحضرت عمرؓ
٭……قبل اس کے بزرگ بنو،یعنی تماھاری عمر زیادہ ہوجائے اور بڑھاپا آجائے،جوانی میں، علم حاصل کرو۔
٭……جو آدمی اپنے کو عالم کہے وہ جاہل ہے اور جو اپنے آپ کو جنتی بتائے وہ جہنمی ہے۔
٭اے اﷲ! تو مجھے ایسا کردے کہ میں علم کے ساتھ بولوں اور علم کے ساتھ خاموش رہوں۔
یعنی میری ہر بات اور ہر نشست وبرخاست کا تعلق علم کے ساتھ ہو،اس پر علم کے مطابق عمل کروں،اس کو دیکھ کر دوسروں کے علم میں اضافہ ہو۔
٭……جب تم کسی صاحب علم کو دنیا کی طرف مائل دیکھوتو سمجھ لو کہ دین کے بارے میں وہ قابل بھروسا نہیں ہے۔
خلیفہ ٔ ثالثحضرت عثمان غنیؓ
٭……علم بغیر عمل کے کچھ نہ کچھ نفع دے دیتاہے ،لیکن عمل بغیرعلم کے فائدہ نہیں بخشتا۔
٭……تونگروں یعنی مال داروں کے ساتھ عالموں اور زاہدوں کی دوستی ریاکاری کی دلیل ہے ۔
اس سے وہ دوستی اور تعلق مراد ہے جس کا مقصد دنیوی نفع حاصل کرنا یا کسی دنیوی ضرر ونقصان سے بچنا ہو،اگر یہ دوستی اﷲ کی رضا اور اس کے دین کی خاطر ہے ،تو اس میں کوئی قباحت نہیں،بلکہ اس غرض سے دنیا کے معززلوگوں سے دوستی وتعلق رکھنا چاہیے،کیوں کہ ان کے معاشرتی اثر ورسوخ کی وجہ سے دین کی بات آسانی وسہولت سے اور ایک بڑی تعداد تک پہنچائی جاسکتی ہے۔
خلیفۂ رابع حضرت علی ؓ
٭……علم مال سے بہتر ہے کیونکہ:
…… علم تمہاری حفاظت کرتاہے اور تم مال کی حفاظت کرتے ہو۔
…… مال فرعون وہامان کا ترکہ اور علم انبیا ئے کرام علیہم السلام کی میراث ہے۔
…… مال خرچ کرنے سے کم ہوتاہے اور علم کوجتنا زیادہ خرچ کیا جائے وہ اتنی ہی ترقی کرتاہے۔
…… مال دیر تک رکھنے سے فرسودہ،ناقابل استعمال اور ضایع ہوجاتاہے، مگر علم خواہ کتنا ہی پرانا ہوجائے،اس کو کچھ نقصان نہیں پہنچتا۔
…… مال کی ہر وقت چوری کا خطرہ رہتاہے۔ مگر علم اس طرح کے خطرات سے محفوظ ومامون ہے۔
…… صاحب مال کبھی بخیل بھی کہلاتاہے،یعنی وہ کبھی مال ختم یا کم ہونے کے ڈر سے کنجوسی سے بھی کام لے سکتا ہے،جبکہ صاحب علم کریم ہی کہلاتاہے،کیوں کہ اسے یقین ہے کہ وہ علم کو جتنا بھی خرچ کرے،اس میں کوئی کمی یا نقص واقع نہیں ہوگا،بلکہ اس میں مزید اضافہ ہی ہوگا۔
…… علم کی کثرت سے دل کو روشنی ملتی ہے اور مال کی کثرت سے دل تاریک ہوتا چلاجاتاہے۔کثرت مال ہی کی وجہ سے فرعون نے خدائی کا دعویٰ کیا تھا۔
…… مال کی کثرت سے بے شمارر دشمن پیداہوتے ہیں،مگرعلم سے ہر دل عزیزی ہی حاصل ہوتی ہے۔
…… قیامت کے دن مال کاحساب ہوگا مگرعلم پرکوئی حساب نہ ہوگا۔(بشرطیکہ اس علم کے تقاضے کے مطابق عمل بھی کیا ہو،ورنہ میدان محشر سے قدم اس وقت تک نہ ہٹ پائیں گے ،جب کہ علم پر عمل کے سلسلے میں سوال کا جواب نہیں دے گا۔)
٭……جو لوگ تجھ سے زیادہ علم رکھتے ہیں، ان سے علم حاصل کر اور جو نادان یعنی کم علم ہیں ان کو اپناعلم سکھا۔
……رحم کے زیادہ مستحق تین شخص ہیں :
(الف)وہ عالم جس پر جاہل کا حکم چلے۔
(ب)وہ شریف جس پر کمینہ حاکم ہو۔
(ج)وہ نیکوکار جس پر کوئی بدکارمسلط ہو۔
٭……جس شخص کو علم غنی اور بے پروا نہیں کرتا،یعنی علم کے باوجود دنیا کی محبت اس کے دل سے نہیں نکلتی، وہ مال سے کبھی مستغنی نہیں ہوسکتا،اور ہمیشہ مال جمع کرنے کی دھن میں لگا رہتا ہے،کبھی سیر نہیں ہوتاکہ جو مال اس کو اﷲ تعالیٰ نے دیا ہے،اس پر قناعت کرلے۔
٭……صاحب علم اگرچہ حقیر حالت میں ہو،یعنی پھٹے پرانے لباس اور غربت وافلاس کا شکار ہو،تب بھی اسے ذلیل نہ سمجھو۔
٭……لوگوں کو طلبِ علم میں اس وجہ سے بے رغبتی پیداہوگئی ہے، کہ بہت سے عالم ایسے نظر آتے ہیں جو اپنے علم پر عمل نہیں کرتے،یعنی یہ بے عمل علما لوگوں کو دین اورعلم دین سے روکنے کا باعث ہیں۔یعنی یہ مشاہدے کی بات ہے،ورنہ کسی کے بے عمل ہونے کی آڑ میں علم سے راہ فرار اختیار کرنا درست نہیں ہے۔
٭……اگر کسی سوال کا جواب معلوم نہ ہو تو اس کے جواب میں َلااَعلَم (میں نہیں جانتا)کہنا نصفِ علم ہے،لہٰذااپنی لاعلمی کا اظہار کبھی برانہ سمجھو۔
٭……خواہش نفسانی کوعلم کے ساتھ اور غضب وغصے کو حلم یعنی برد باری کے ساتھ مارڈالو۔
٭……خاموشی عالم کے لیے باعثِ زینت اور جاہل کے حق میں اس کی جہالت پر پردہ ڈالنے والی ہے۔
امام جعفر صادق ؒ
٭……علما کا فقر اختیاری ہوتاہے،یعنی وہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی اتباع سنت میں فقر وفاقہ کرتے ہیں۔
٭……تمام خوبیوں کا مجموعہ علم سیکھنا، اس پرعمل کرنا،پھر اوروں کوسکھاناہے۔
٭……پہلے جہل ہوتاہے پھر علم ،پھر اس پر عمل، پھر عمل میں اخلاص۔
یعنی پہلے ہر بندہ جاہل ہوتا ہے کہ کچھ نہیں جانتا،پھر اﷲ تعالیٰ اسے علم کی دولت سے مالامال کردیتے ہیں،پھر اس کو اس علم پر عمل کی توفیق ملتی ہے اور پھر اﷲ کی مزید عطا یہ ہوتی ہے کہ اس کا ہر عمل کسی قسم کی ریاکاری اور دکھاوے کے لیے نہیں،بلکہ اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہوجاتا ہے۔
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ
٭……اگر تم اپنے علم پر عمل کرتے، تو دنیاسے بھاگتے۔
یعنی علم میں کوئی شے ایسے نہیں ہے جس کی وجہ سے دل میں دنیا کی محبت پیدا ہو،بلکہ علم پر عمل کیا جائے تو وہ بندے کو دنیا واسباب دنیاسے بے رغبت کردیتا ہے۔
٭……عقل کی اصل علم اور علم کی اصل صبر ہے۔
حضرت مجددالف ثانی
٭……طلبِ علم میں شرم مناسب نہیں، کیوں کہ جہالت شرم سے بدتر ہے۔
یعنی اگر تم نے شرم کی وجہ سے علم کے بارے میں سوال نہ کیا تو جاہل رہ جاؤ گے،حالاں کہ جہالت ،اس شرم سے زیادہ بری چیز ہے،جس کی وجہ سے تم علم سے پیچھے ہٹے ۔
٭……تین باتوں سے میرے نفس کوتکلیف پہنچتی ہے:
(الف)وہ دولتمندجو اچانک محتاج ہوجائے۔
(ب)وہ معزز شخص جواچانک ذلت و خواری میں مبتلاہو۔
(ج)وہ عالم جس پر جاہل افسوس کریں۔
یعنی جاہل لوگ بھی اس کے کرتوت دیکھ کر افسوس کریں کہ اس سے تو ہم اچھے ہیں،یہ عالم ہوکر کن کاموں میں پڑا ہے۔
٭……علم کا دشمن تکبرہے۔
٭…… علم جان ہے ، عمل تن ہے ، علم اصل ہے ، عمل فرع ہے ، علم باپ ہے ، عمل اس کا بیٹاہے۔
یعنی علم اور عمل دونوں ضروری ہیں،کوئی ایک کافی نہیں۔علم اگر آنکھ ہے تو عمل اس کی بینائی ہے ، علم اگر زندگی ہے تو عمل بے داری ہے ، علم اگر تعلیم ہے تو عمل تربیت ہے، علم اگر پھول ہے تو عمل خوشبوہے، علم اگر تدبیر ہے توعمل تقدیرہے ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام عالم بدعمل کے متعلق فرماتے ہیں :عالم بے عمل کی مثال ایسی ہے جیسے اندھے نے چراغ اٹھایا ہو کہ لوگ اس سے روشنی حاصل کرتے ہیں اور وہ خود محروم رہتاہے۔
٭……لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے استادوں، کتابوں اوران کی خدمت کرنے والوں کی جس قدرہوسکے تعظیم ، احترام و آداب بجالائیں۔
یہ ایک بدیہی امر ہے کہ ہر چیز کی ایک قدر ،عزت ،احترام اورادب ہے،اور اس کے تقاضے ہیں۔اسی طرح اساتذہ،اسباب علم یعنی کتابوں،ڈیسکوں،تپائیوں،اسکول اور کالج ودرس گاہ کی تمام چیزوں کابھی ادب و احترام کرنا چاہیے اور ان کی بے ادبی،بے احترامی،بے توقیری اور توہین سے بچنا چاہیے۔ان چیزوں کی بے ادبی اور اساتذہ کی بے توقیری وگستاخی علم سے محرومی کا باعث بن سکتی ہے۔
فقیہ ابواللیث سمرقندیؒ :
٭……جو شخص کسی عالم کے پاس بیٹھتا ہے، درج ذیل فضیلتوں کا مستحق ہے:
…… طالبان علم کے جو فضائل ہیں، وہ اس کو بھی حاصل ہوتے ہیں۔
……جتنی دیر عالم کے پاس رہے گا، گناہوں سے محفوظ رہے گا۔
……جب طلبِ علم کے ارادے سے گھر سے نکلا، تو اس پر رحمت نازل ہوئی۔
……علمی حلقوں پر نازل ہونے والی رحمتوں میں اپنی ہم نشینی کی وجہ سے وہ بھی شرک ہوگا۔
…… جب تک عالم کی بات سنتا رہے گا، عابد مانا جائے گا۔
٭٭٭٭٭

M Jehan Yaqoob
About the Author: M Jehan Yaqoob Read More Articles by M Jehan Yaqoob: 251 Articles with 307897 views Researrch scholar
Author Of Logic Books
Column Writer Of Daily,Weekly News Papers and Karachiupdates,Pakistanupdates Etc
.. View More