خواتین کی تعلیم اور ان کے حقوق

کچھ حادثات تو انسان کو پوری زندگی یاد رہتے ہیں کوئی ان حادثات کو یاد رکھتا ہے کوئی بھول جاتا ہے ایسا ہی ایک واقعہ سوات سے تعلق رکھنے والی ملالہ یوسف زئی کے ساتھ پیش آیاجن کو تعلیم کو عام کرنے اورخواتین کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے جرم میں فائرنگ کر کے ختم کرنے کی کوشش کی گئی دہشت گرد وں نے تو پوری کوشش کی تھی کہ ملالہ یوسف زئی جس نے علم کی روشنی پھیلانے کے لئے آواز بلند کی اس آواز کو ہمیشہ کے لئے خاموش کردیا جائے مگرجسے اﷲ رکھے اسے کون چکھے ملالہ یوسف زئی شدید زخمی ہونے کے با وجود اﷲ کے فضل و کرم سے بچ گئیں اور علاج کے بعد نہ صرف انہیں نوبل پرائز اور دیگرعالمی اعزازا ت سے نوازہ گیا بلکہ پوری دنیا میں تعلیم کو عام کرنے کے لئے ان کے عزم اور حوصلے کو بھر پور طریقے سے سہرایا بھی گیاآج پوری دنیا میں نہ صرف ملالہ یوسف زئی کا نام پھیل گیا بلکہ انہوں نے پاکستان کا نام بھی پوری دنیا میں روشن کیا آج یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے چپے چپے میں ملالہ یوسف زئی کا پیغام تعلیم عام ہو چکا ہے جن علاقوں میں لڑکیوں کو تو کیا لڑکوں کی تعلیم کے لئے بھی کوئی اسکول نہ تھا وہاں اب بڑی تعداد میں اسکول قائم کئے جا رہے ہیں تعلیم کا شعور اب ہر پاکستانی میں آگیا ہے تعلیم کے لئے تو نبی ﷺنے فرمایاکہ تعلیم حاصل کرناہر مرد اور عورت پر لازم ہے اور تعلیم حاصل کرنے کے لئے چاہے چین بھی جانا پڑے تو جاؤ اس لئے ہر مسلمان مرد اور عورت چاہئے وہ کسی بھی گاؤں ،شہر یا ملک میں رہتا ہواسے چاہئے کہ وہ تعلیم حاصل کرے چونکہ تعلیم ہی انسان میں انسانیت پیدا کرتی ہے اور جس سے اس میں انسانیت کے احترام کا شعور جنم لیتا ہے ملالہ یوسف زئی اور ارفعہ کریم ہی نہیں بلکہ پاکستان کی دیگر خواتین کی وجہ سے بھی دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن اور تابندہ ہو رہا ہے آج پاکستان کی ہر لڑکی ان کے نقشے قدم پر چلنے کی کوشش کر رہی ہے ہماری دیگر با صلاحیت خواتین جن میں سماجی کارکن سبین محموداورپروین رحمن ڈائریکٹر اورنگی پائلیٹ پروجیکٹ جنہیں13مارچ 2013؁ء کو صرف اس جرم میں قتل کردیا گیا کہ انہوں نے خدمت خلق کرتے ہوئے غیر قانونی تعمیرات اور غیر قانونی واٹر ہائیڈرینٹ کے خلاف عملی جدو جہد کی اور ایسے کام کئے جس سے وہاں کے لوگوں کا معیار زندگی بلند ہومگر ان کے اس عمل کو جرائم پیشہ افراد اور دہشتگردوں نے پسند نہیں کیا اور انہوں نے ان کو ہمیشہ کے لئے خاموش کردیا مگر ان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی اب تیزی سے خواتین میں اپنے تحفظ اور حقوق کی تحریک پھیل رہی ہے اب وہ معاشرے میں زلت اور رسوائی سے جینے کے بجائے با عزت طریقے سے جینے کا سلیقہ جا ن چکی ہیں اس کی ایک مثال چند دن قبل عائشہ گلا لئی کی صورت میں بھی سب کے سامنے آئی ہے عائشہ گلا لئی نے ایک سیاسی شخصیت ہونے کے با وجود خواتین کے حقوق اور ان کے ہراس کرنے کے خلاف آواز بلند کی ہے جس سے پاکستان کی خواتین میں اپنے حقوق کے لئے ایک حوصلہ پیدا ہوا ہے پاکستان میں2010؁ء سے خواتین کو ہراسمینٹ سے تحفظ فراہم کرنے کے قانون ہونے کے با وجود خواتین کو عملی طور پر تحفظ فراہم کرنے کے لئے کوئی مہم نہیں چلائی گئی مگر اب رفتہ رفتہ خواتین میں اپنے حقوق اور تحفظ کے لئے شعور بیدار ہو رہا ہے اور وہ اب ہر ظلم اور ذیاتی کے خلاف کمر بستہ ہو رہی ہیں اب کوئی کتنے بھی بڑے عہدے یا مرتبے پر ہووہ کسی بھی خاتون کو ہراس نہیں کر سکے گا- خواتین آبادی کا52فیصد ہونے کے با وجود مرد وں کے نارواسلوک کی شکار تھیں انہیں ہر جگہ ہراس کیا جاتا تھامگر اب خواتین میں یہ احساس پیدا ہو چکا ہے کہ وہ مردوں سے کمتر نہیں ہیں اور نہ ہی انہیں اب مردوں کے معاشرے میں بے عزت کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی انہیں کسی ظلم اور جبر کا شکار بنایا جا سکتا ہے یہ ہراسمینٹ سے تحفظ کا قانون پیپلز پارٹی کے دور میں اسمبلی سے پاس کیا گیا تھا شہید بے نظیر بھٹو نے بھی یہ محسوس کیا تھا کہ پاکستان میں خواتین بڑی تعداد میں ہراس کی جاتی ہیں جن کو تحفظ دینے کے لئے کوئی قانون موجود نہیں تھا خواتین چاہئے کسی بھی ملک میں ہوں انہیں ہر سطح ہر اور جگہ پر مردوں کی جانب سے ہراس کیا جاتا ہے یہاں تک کے امریکہ ، برطانیہ اور انڈیا تک میں خواتین کو مردوں کے ظلم اور جبر کا شکار بنایا جاتا ہے اور ان سے اجتماعی زیاتی بھی کی جاتی ہے
 

Sonia Ali
About the Author: Sonia Ali Read More Articles by Sonia Ali: 34 Articles with 37523 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.