اسلام سلامتی اور نفع بخش دین ہے۔ اور استحصالی کی
بالواسطہ اور بلاواسطہ ہر شکل کے خلاف ہے چونکہ ربو (سود) معاشی استحصال کی
بدترین شکل ہے۔ اس لیے اسلام نے اسے کلیتہ حرام قرار دیا ہے۔ سود صرف
دنیائے اسلام کا ہی مسئلہ نہیں بلکہ پوری دنیا میں معاشی ناہمواریوں کی
بنیاد ہے چنانچہ سود سے پاک بینکاری کا تصور ہمیشہ اقتصادی ماہرین کی سوچوں
کا مرکز رہا ہے اور اس ضمن میں خود مغربی دنیا میں بھی تجربات ہو رہے ہیں۔
علم معاشیات کا ایک بنیادی اصول یہ کہ سرمایہ ہمیشہ بچتوں سے آتا ہے۔ اور
بچتیں ترقی یافتہ ممالک میں بالعموم اور ترقی پذیر ممالک میں بالخصوص اسی
متوسط طبقے سے آتی ہے۔ سودی بینکاری نظام کا ایک استحصالی پہلو یہ ہے کہ
ایک جائزہ کے مطابق بینک کے ڈپازٹ بیس ہزار روپے یا اس سے کم رقم جمع
کروانے والے چھوٹ کھاتہ داروں کے ہوتے ہیں مگر جب انہی ڈیپازٹ سے قرضہ جات
کا اجرا ہوتا ہے تو صرف چھ سے سات فیصد قرضہ جات غریب اور متوسط طبقے کے
حصے میں آتے ہیں جبکہ قرضے بڑے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں اور سماجی و
سیاسی اثرورسوخ کی بنا پر حاصل کر لیتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ”جس رات مجھے معراج ہوئی میرا گزر ایک ایسے
گروہ پر ہوا جن کے پیٹ گھروں کی طرح ہیں اور ان میں سانپ بھرے ہوئے ہیں جو
باہر سے نظر آتے ہیں۔ میں نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ کون لوگ
ہیں؟ (جو ایسے عذاب میں مبتلا ہیں) انہوں نے بتایا کہ یہ سود خور لوگ ہیں:۔
(مسند احمد ابن ماجہ)
فائدہ:۔ اسلام میں سود کی حرمت کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں، جو شخص مسلمان
گھرانے میں پیدا ہوا ہے وہ اتنا ضرور جانتا ہے کہ اسلام میں سود حرام ہے۔
بلکہ اس اجمالی حقیقت سے تو غیر مسلم بھی ناواقف نہیں اور یہ بھی معلوم ہے
کہ سود خوری کا طریقہ کوئی آج دنیا میں پیدا نہیں ہوا۔ اسلام سے پہلے
جاہلیت میں بھی اس کا سلسلہ جاری تھا۔ قریش مکہ، یہود مدینہ میں اس کا عام
رواج تھا اور ان میں صرف شخصی اور خاندانی ضرورتوں کے لیے نہیں بلکہ تجارتی
مقاصد کے لیے بھی سود کا لین دین جاری تھا۔ ہاں نئی بات جو آخری دو صدی کے
اندر پیدا ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ جب سے یورپ کے بنئیے دنیا میں برسراقتدار
میں آئے ہیں تو انہوں نے مہاجنوں اور یہودیوں کے سودی کاروبار کو نئی نئی
شکلیں اور نئے نام دیئے اور اس کو ایسا عام کردیا کہ آج اس کو معاشیات و
اقتصادیات اور تجارت کے لیے ریڑھ کی ہڈی سمجھا جانے لگا اور سطحی نظر والوں
کو یہ محسوس ہونے لگا کہ آج کوئی تجارت یا صنعت یا کوئی معاشی نظام بغیر
سود کے چل ہی نہیں سکتا۔ اگرچہ فن کے جاننے والے اور ماحول کی تقلید سے ذرا
بلند ہو کر وسیع نظر سے معاملات کا جائزہ لینے والے اہل یورپ کا بھی یہ
فیصلہ ہے کہ سود معاشیات کے لیے ریڑھ کی ہڈی نہیں بلکہ ایک کیڑا ہے جو ریڑھ
کی ہڈی میں لگ گیا ہے جب تک اس کو نکالا جائے گا دنیا کی معاشیات اعتدال پر
نہ آسکے گی۔
ہر مسلمان کو علم ہے کہ قرآن مجید اور احادیث میں سود کو واضح طور پر حرام
قرار دیا گیا ہے۔ قرآن مجید اور احادیث میں سود کے حوالے سے انتہائی سخت
وعیدیں ہیں جو کہ کسی دوسرے گناہ کے متعلق نہیں ہیں۔ قرآن پاک میں سب سے
پہلی آیت جس میں سود کے ناپسندیدہ ہونے کا اشارہ ملتا ہے وہ سورہ روم کی یہ
آیت ہے۔ ”جو سود تم دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال میں شامل ہوکر وہ بڑھ جائے
تو اللہ تعالٰی کے نزدیک وہ نہیں بڑھتا اور جو زکوٰہ تم اللہ کی خوشنودی
حاصل کرنے کے ارادے سے دیتے ہو اس کے دینے والے درحقیقت اپنا مال بڑھاتے
ہیں”۔ (الروم۔39)۔ اسلام میں سود کے ناپسندیدہ ہونے کی شدت کا اندازہ اس
بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ایک اسلامی سلطنت میں کافر امن و امان سے رہ
کر اپنے تمام مذہبی معاملات کی پابندی کرسکتا ہے۔ لیکن سود کا کاروبار کرنے
کی اس کو بھی اجازت نہیں ہے۔ شب معراج میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کو عالم غیب کی بہت سی چیزوں کا مشاہدہ کرایا گیا، اسی ضمن میں جنت
اور دوزخ کے بعض مناظر بھی دکھائے گئے تاکہ خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کو حق الیقین کے بعد عین الیقین کا مقام بھی حاصل ہوجائے اور آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم ذاتی مشاہدہ کی بنا پر لوگوں کو عذاب و ثواب سے آگاہ
کرسکیں۔ اس سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک منظر بھی دیکھا جس
کا مندرجہ بالا حدیث میں ذکر ہے کہ کچھ لوگوں کے پیٹ اتنے بڑے ہیں جیسے کہ
اچھا خاصا گھر اور ان میں سانپ بھرے ہوئے ہیں جو دیکھنے والوں کو باہر سے
نظر آتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دریافت کرنے پر حضرت
جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ سود لینے والے اور کھانے والے لوگ ہیں
جو اس لرزہ غیز عذاب میں مبتلا کیے گئے ہیں
تجارت اور سود میں فرق
قرآن کریم کی ایک آیت کریمہ ہے کہاحل اللہ البیع وحرم الربواللہ نے تجارت
کو حلال اور سود کو حرا م قرار دیا ہے۔
سود کی تعریف؛
قرض پر لیا گیا منافع)سود (کہلاتا ہے۔
تجارت اور سود میں فرق؛
نمبر1
سود میں طے شدہ شرح کے مطابق منافع یقینی ہوتا ہے جبکہ تجارت میں نفع کے
ساتھ نقصان کا احتمال بھی ہوتاہے۔
نمبر 2
مضاربت یا مشارکت کی شکل میں فریقین کو ایک دوسرے سے ہمدردی پید اہوتی ہے
کیونکہ ان کا مفاد مشترکہ ہوتا ہے جبکہ تجارتی سود کی صورت میں سودخور کو
محض اپنے مفاد سے غرض ہوتی ہے
نمبر3
اسلامی نظام صدقات میں مال کا رخ غریب کی طرف ہوتا ہے جبکہ سودی معاشرے میں
غریب سے امیر کی طرف ہوتا ہے گویا طبقات کی خلیج مزید وسیع ہوجاتی ہے اسلام
جس معاشرے کو اخوت کے رشتے میں باندھا چاہتا ہےسود اسے متحارب گروہوں میں
تقسیم کرتا ہے اور اس سے قومی پیدا وار تباہ ہوتی ہے اس کے علاوہسود کی وجہ
سے کرنسی کی قیمت بھی مسلسل گرتی رہتی ہےجس معاشرے میں جتنی شرح سود زیادہ
ہوتی ہے وہاں اتنی ہی قیمت گرتی رہتی ہے۔غریب طبقے پہ سود کے ذریعے دوسرا
حملہ ہے۔
سودی قرضے۔۔۔۔۔۔۔ ذاتی اورتجارتی
سودی قرضے دوطرح کے ہوتے ہیں ذاتی قرضے ذاتی ضروریات کے لیےاورتجارتی
یاصنعتی قرضے جوکہ بینکوں سے لیے جاتے ہیں۔
آج کل کچھ مسلمان جہالت سے سود کے جواز کی نمائندگی کرتے ہیں کہ جس سود کو
قرآن نے حرام قرارد یا ہے وہ ذاتی قرضے ہیں۔جن کی شرح سود انتہائی ظالمانہ
ہوتی ہے جبکہ تجارتی سود حرام نہیں ہے۔کیونکہ اس دور میں ایسے تجارتی سودی
قرضوں کا رواج ہی نہیں تھا۔نیز ایسے قرضے جوکہ باہمی رضامندی سے لیے اور
دیے جاتے ہیں اور ان کی شرح سود بھی مناسب ہوتی ہے اور اس طرح کسی پر ظلم
نہیں ہوتا۔لہذا یہ تجارتی سود اس سے مستثنی ہیں جنہیں قرآن نے حرام قرار
دیا ہے
مذکورہ استدلال مندرجہ ذیل دلائل کی بنا پر غلط ہے۔
دلیل نمبرایک
دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی تجارتی سود موجود تھا۔ حضرت خالد بن
ولید رضی اللہ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سود کی حرمت سے قبل یہی
کاروبار کرتے تھے۔
دلیل نمبر دو
قرآن میں ربو کا لفظ علی الاطلاق استعمال ہوا ہے جوکہ ذاتی اور تجارتی
دونوں قسم کے قرضوں کو حاوی ہے۔
دلیل نمبر تین
قرآن نے تجارتی قرضوں کے مقابل یہ آیت پیش کی ہے واحل اللہ البیع وحرم
الربو اللہ تعالٰی نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام سورة البقرہ
پارہ دو آیت 275 اور ذاتی قرضوں کے مقابل یوں فرمایا یمحق اللہ الربو ویربی
الصدقات اللہ سود کو مٹاتاہے اور صدقات کی پرورش کرتا ہے سورة البقرہ پ 2
آیت 276۔
سودی نظام کا خاتمہ ناگزیر ہے
کائنات پراللہ تعالیٰ کی حاکمیت قائم ہے جبکہ انسان کواللہ تعالیٰ نے کراہ
خاکی پراپنانائب مقررکیاہے،نائب کی ذمہ داری ہے کہ وہ حقیقی حاکم کے
احکامات کی پیروی کرے تاکہ مشکلات ختم اورآسانیاں پیداہوں،انسان
دیگرمخلوقات کی طرح اس دنیامیں مسافر کی حیثیت سے آیاہے جسے اپناسفرمکمل
کرکے اپنے خالق سے جاملناہے۔ اسلامی تہذیب وتمدن کی اپنی منفرد دحیثیت ہے
جس کو دنیا کی کوئی بھی طاقت جھٹلا نہیں سکتی بلکہ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ
غیر مسلم اسلامی تعلمات پر عمل کرنے کو بہت زیادہ ترجیح دے رہے ہیں۔اسلامی
تہذیب تمدن عقائد،اصول ونظریات اورروایات ہی مسلم غیر مسلم معاشرے کے فرق
کوواضح کرتیں ہیں۔اسلام کاایک منفرد اور جداگانہ ضابطہ حیات ہے چنانچہ
اسلامی تہذیب اسی ضابطہ حیات کی عکاسی کرتی ہے۔اسلامی تہذیب کا سنگ بنیاد
حیات دنیا کا یہ تصور ہے کہ انسان کی حیثیت اس کرخاکی میں عام موجودات کی
سی نہیں ہے بلکہ وہ خالق کائنات کی طرف سے یہاں خلیفہ بنا کر بھیجا گیا
ہے۔اس لیے انسان کااصل نصب العین یہ ہے کہ وہ اپنے خالق ومالک اور آقا
(اللہ تعالیٰ)کی خوشنودی حاصل کرے۔اسلام انسانوں کے درمیان اونچ نیچ
اورہرطرح کے امتیازکی نفی کرتے ہوئے ایک انسان کو دوسرے انسان کے ساتھ اس
طرح بلاامتیاز جوڑتا ہے کہ سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔اسلامی تمدن
کی ایک بڑی خصوصیت اسلامی اخوت یعنی بھائی چارے کا نظریہ ہے۔ اسلامی
تعلیمات کے مطابق مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔قرآن کریم میں اللہ
تعالیٰ نے رشاد فرمایاہے۔”بلا شبہ اہل ایمان بھائی بھائی ہیں۔سوتم اپنے
بھائیوں کے درمیان صلح صفائی کرادیا کرو“اسلام سے پہلے انسان جو اشرف
المخلوقات ٹھہراجانوروں کی طرح جنس پرستی اور علاقہ پرستی کی زندگی بسر
کررہا تھا۔ٹھیک اُسی طرح جس طرح جانور اپنے علاقے میں داخل ہونے والے اجنبی
جانوروں سے جنگ کرتے ہیں اور جس طرح طاقتور جانور قبیلے کا سردار ہوتا ہے
جواپنے قبیلے میں صرف مادا ¶ں کورکھتا ہے کمزور نر یاتو بھاگ جاتے ہیں
یاپھر مارے جاتے ہیں یہاں تک کہ اکثر جانور اپنے نر بچوں کو بھی ماردیتے
ہیں۔اسلام نے طاقتور کے ساتھ ساتھ کمزوروں کو بھی جینے کاحق دیا،مرد وعورت
کو نکاح جیسے خوبصورترشتہ میں باند کر عورت کومعاشرے میں باعزت مقام دیا۔جب
لوگوں (مسلمانوں)نے اسلامی تہذیب وتمدن کے مطابق زندگی بسر کرناشروع کی
توچاروں طرف مسلمانوں کے عدل وانصاف کاچرچاہوگیا،امن و بھائی چارے کے
اعتماد کے ساتھ اسلام کا نوردیناکے کونے کونے میں پھیل گیا جوآج بھی ہے اور
روزآخر تک رہے گا، کامیابیاں اُن کے قدم چومنے لگی۔بدقسمتی سے مسلم حاکموں
نے اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا چھوڑ دیا اور جانور کی طرح جنس پرستی اور
علاقہ پرستی کے اصول اپنالئے،کبھی مسلم حاکم فجرکی نماز کے بعد کسی بیوہ
غریب کے گھر کی صفائی کیاکرتے،اُس کے بچوں کو کھانا پکاکرکھلایا کرتے
تھے،یہاں تک کہ کسی بوڑھے کے منہ میں دانت نہ ہوتے تواپنے منہ میں نوالا
چباکر کھلایا کرتے،حاکم ہونے کے باوجودنہایت سادگی میں زندگی بسرکرنے میں
فخر محسوس کرتے اوراُن کے عدل وانصاف کا یہ عالم تھا کہ خود مظلوم کے گھر
جاتے اور اُس کی داد رسی کرتے۔ میں یوں کہوں کہ ایک مسلم حاکم اپنی بادشاہت
میں سب سے زیادہ عام آدمی کی حیثیت رکھتا تھا تو غلط نہ ہوگا۔آج ہمارے حاکم
بات بات پر عام آدمی کی مشکلات کا ذکر کر کے سیاست چمکانے کی کوشش کرتے ہیں
جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب رہتے ہیں۔خوبصورت باتوں کے دھاگے سے عوام کے
گرد سیاسی جال بننا اور بات ہے اور عملی اقدامات اور بات ہے۔ملک خُداداد کی
ترقی کاراز اسلامی تہذیب و تمدن کے دائرے میں رہتے ہوئے اعلیٰ سے اعلیٰ
دینی و دنیاوی تعلیم کے حصول میں پوشیدہ ہے،علم انسان کو باشعور کرتا ہے
اور باشعور انسان علم کو عمل کے راستہ پر ڈال کر دنیا وآخرت کی کامیابیاں
سمیٹتا ہے۔علم وشعور انسان کوا? تعالیٰ کے احکامات پرعمل پیراہوکرحاصل ہونے
والے فوائد سے آگاہ کرتے ہیں۔وقت کڑا اورچلینجززیادہ ہیں۔مسلم ممالک خاص
طورپراسلامی جمہوریہ پاکستان کوجن مشکلات کاسامناہے اُن سے نجات پانے کیلئے
سب سے پہلے سودی نظام کوختم کرکے ذکواة کانظام رائج کرناہوگا،سودکالین دین
کرنے والوں کیخلاف اللہ،رسول اللہ ﷺ کااعلان جنگ ہے،سودی نظام کی موجودگی
میں نہ تودہشتگردی ختم ہوسکتی ہے اورنہ ہی کرپشن،عدل وانصاف کی فراہمی ممکن
ہے اورنہ ہی مہنگائی کنٹرول کی جاسکتی ہے،مختصریہ کہ کوئی چھوٹاسے
چھوٹامسئلہ بھی حل نہیں ہوگاجب تک سودی نظام کوجڑسے اکھاڑنہ پھینکاجائے،آج
حاکم کی جان کوایسے خطرات لاحق ہیں کہ وہ سکیورٹی کیلئے ایک بڑی فوج ساتھ
لے کرچلتاہے اُس کے پاس دولت اتنی زیادہ ہے کہ وہ سنبھال نہیں پارہاجبکہ
دوسری جانب عوام بدسے بدحال ہوتے جارہے ہیں،صحت،تعلیم اورغذائی ضروریات
پوراکرناناممکن ہوچکاہے۔ا? تعالیٰ کی حاکمیت کودل سے تسلیم کرتے ہوئے ملک
سے سودی لین دین کے خاتمہ کے اقدامات کئے بغیرنہ توحاکم پرسکون زندگی
گزارسکتے ہیں اورنہ ہی عوام خوشحال ہوسکتے ہیں۔بلکہ ہم تویوں کہتے ہیں کہ
سودایسی لعنت ہے جس سے چھٹکاراحاصل کئے بغیر ایک سانس بھی نہ لیاجائے،سودی
نظام ختم ہوگاتواللہ رب العزت ہم سے خوش ہوجائے گااورپھرہماری دُعا ¶ں
کوبھی قبول فرمائے گا،دُعائیں قبول ہوں گی توغیب سے مددبھی آئے گی،غیب
سے(اللہ تعالیٰ کی)مددآئے گی توہرمشکل خودبخودآسان ہوجائے گی
بینک سے قرض (Loan) بھی عین سود ہے
تمام مکاتبِ فکر کے علماءاس بات پر متفق ہیں کہ عصر حاضر میں بینک سے قرض
لینے کا رائج طریقہ اور جمع شدہ رقم پر Interest کی رقم حاصل کرنا یہ سب
وہی سود ہے جس کو قرآن کریم میں سورہ? بقرہ کی آیات میں منع کیا گیا ہے، جس
کے ترک نہ کرنے والوں کے لیے اللہ اور اس کے رسول کا اعلانِ جنگ ہے اور
توبہ نہ کرنے والوں کے لیے قیامت کے دن رسوائی وذلت ہے اور جہنم ان کا
ٹھکانا ہے۔ عصرِ حاضر کی پوری دنیا کے علماءپر مشتمل اہم تنظیم مجمع الفقہ
الاسلامی کی اس موضوع پر متعدد میٹنگیں ہوچکی ہیں؛ مگر ہر میٹنگ میں اس کے
حرام ہونے کا ہی فیصلہ ہوا ہے۔ برصغیر کے جمہور علماءبھی اس کے حرام ہونے
پر متفق ہیں۔ فقہ اکیڈمی، نیودہلی کی متعدد کانفرنسوں میں اس کے حرام ہونے
کا ہی فیصلہ ہوا ہے۔ مصری علماءجو عموماً آزاد خیال سمجھے جاتے ہیں وہ بھی
بینک سے موجودہ رائج نظام کے تحت قرض لینے اور جمع شدہ رقم پر Interestکی
رقم کے عدمِ جواز پر متفق ہیں۔ پوری دنیا میں کسی بھی مکتبِ فکر کے
دارالافتاءنے بینک سے قرض لینے کے رائج طریقہ اور جمع شدہ رقم پر Interest
کی رقم کو ذاتی استعمال میں لینے کے جواز کا فتویٰ نہیں دیا ہے۔
عصرِ حاضر میں ہم کیا کریں؟
(۱) اگر کوئی شخص بینک سے قرض لینے یا جمع شدہ رقم پر سود کے جائز ہونے کو
کہے تو پوری دنیا کے علماءکے موقف کو سامنے رکھ کراس سے بچیں۔
(۲) اس بات کو اچھی طرح ذہن میں رکھیں کہ علمائے کرام نے قرآن وحدیث کی
روشنی میں بینک سے قرض لینے اور بینک میں جمع شدہ رقم پر Interest کی رقم
کے حرام ہونے کا فیصلہ آپ سے دشمنی نکالنے کے لیے نہیں؛ بلکہ آپ کے حق میں
کیا ہے؛ کیوں کہ قرآن وحدیث میں سود کو بہت بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے، شراب
نوشی، خنزیر کھانے اور زنا کاری کے لیے قرآنِ کریم میں وہ الفاظ استعمال
نہیں کیے گئے جو سود کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے استعمال کیے ہیں۔
(۳) جس نبی کے امتی ہونے پر ہم فخر کرتے ہیں، اس نے سود لینے اور دینے
والوں پر لعنت فرمائی ہے، نیز شک وشبہ والی چیزوں سے بھی بچنے کی تعلیم دی
ہے۔
(۴) بینک سے قرضہ لینے سے بالکل بچیں، دنیاوی ضرورتوں کو بینک سے قرضہ لیے
بغیر پورا کریں، کچھ دشواریاں، پریشانیاں آئیں تو اس پر صبر کریں۔
(۵) اگر آپ کی رقم بینک میں جمع ہے تو اس پر جو سود مل رہا ہے، اس کو خود
استعمال کیے بغیر عام رفاہی کاموں میں لگادیں یا ایسے غرباءومساکین یا یتیم
بچوں میں بانٹ دیں جو کمانے سے عاجز ہیں۔
(۶) اگر کوئی شخص ایسے ملک میں ہے، جہاں واقعی سود سے بچنے کی کوئی شکل
نہیں ہے، تو اپنی وسعت کے مطابق سودی نظام سے بچیں، ہمیشہ اس سے چھٹکارہ کی
فکر رکھیں اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے رہیں۔
(۷) سود کے مال سے نہ بچنے والوں سے درخواست ہے کہ سود کھانا بہت بڑا گناہ
ہے،اس لیے کم از کم سود کی رقم کو اپنے ذاتی مصارف میں استعمال نہ
کریں؛بلکہ اس سے حکومت کی جانب سے عائد کردہ انکم ٹیکس ادا کردیں؛ کیوں کہ
بعض مفتیانِ کرام نے سود کی رقم سے انکم ٹیکس ادا کرنے کی اجازت دی ہے۔
(۸) جو حضرات سود کی رقم استعمال کرچکے ہیں وہ پہلی فرصت میں اللہ تعالیٰ
سے توبہ کریں اور آئندہ سود کی رقم کا ایک پیسہ بھی نہ کھانے کا عزمِ مصمم
کریں اور سود کی مابقیہ رقم کو فلاحی کاموں میں لگادیں۔
(۹) اگر کسی کمپنی میں صرف اور صرف سود پر قرضہ دینے کا کاروبار ہے، کوئی
دوسرا کام نہیں ہے تو ایسی کمپنی میں ملازمت کرنا جائز نہیں ہے؛البتہ اگر
کسی بینک میں سود پر قرضہ کے علاوہ جائز کام بھی ہوتے ہیں، مثلاً بینک میں
رقم جمع کرنا وغیرہ تو ایسے بینک میں ملازمت کرنا حرام نہیں ہے، البتہ بچنا
چاہیے۔
(۰۱) اگر کوئی شخص سونے کے پرانے زیورات بیچ کر سونے کے نئے زیورات خریدنا
چاہتا ہے، تو اس کو چاہیے کہ دونوں کی الگ الگ قیمت لگواکر اس پر قبضہ کرے
اور قبضہ کرائے، نئے سونے کے بدلے پرانے سونے اور فرق کو دینا جائز نہیں
ہے؛ کیوں کہ یہ بھی سود کی ایک شکل ہے۔
ایک اہم نکتہ: دنیا کی بڑی بڑی اقتصادی شخصیات کے مطابق موجودہ سودی نظام
سے صرف اور صرف سرمایہ کاروں کو ہی فائدہ پہونچتا ہے، نیز اس میں بے شمار
خرابیاں ہیں جس کی وجہ سے پوری دنیا ا ب اسلامی نظام کی طرف مائل ہورہی ہے۔
نوٹ: بعض مادہ پرست لوگ سود کے جواز کے لیے دلیل دیتے ہیں کہ قرآن میں وارد
سود کی حرمت کا تعلق ذاتی ضرورت کے لیے قرض لینے سے ہے؛ لیکن تجارت کی غرض
سے سود پر قرض لیا جاسکتا ہے، اسی طرح بعض مادہ پرست لوگ کہتے ہیں کہ قرآن
میں جو سود کی حرمت ہے اس سے مراد سود پر سود ہے؛ لیکن Single سود قرآن کے
اس حکم میں داخل نہیں ہے، پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآن میں کسی شرط کو ذکر
کیے بغیر سود کی حرمت کا اعلان کیا گیا ہے تو قرآن کے اس عموم کو مختص کرنے
کے لیے قرآن وحدیث کی واضح دلیل درکار ہے، جو قیامت تک پیش نہیں کی جاسکتی۔
اسی لیے خیر القرون سے آج تک کسی بھی مشہور مفسر نے سود کی حرمت والی آیت
کی تفسیر اس طرح نہیں کی، نیز قرآن میں سود کی حرمت کے اعلان کے وقت ذاتی
اور تجارتی دونوں غرض سے سود لیا جاتا تھا، اسی طرح ایک مرتبہ کا سود یا
سود پر سود دونوں رائج تھے، ۱۴۰۰ سال سے مفسرین ومحدثین وعلماءکرام نے
دلائل کے ساتھ اسی بات کو تحریرفرمایا ہے۔ یہ معاملہ ایسا ہی ہے، جیسے کوئی
کہے کہ قرآنِ کریم میں شراب پینے کی حرمت اس لیے ہے کہ اُس زمانہ میں شراب
گندی جگہوں میں بنائی جاتی تھی، آج صفائی ستھرائی کے ساتھ شراب بنائی جاتی
ہے،حسین بوتلوں میں اور خوبصورت ہوٹلوں میں ملتی ہے،لہذا یہ حرام نہیں ہے۔
ایسے دنیا پرست لوگوں کو اللہ تعالیٰ ہدایت عطا فرمائے!
فتویٰ
سیدضیائالدین عفی عنہ، شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ، بانی وصدر ابو الحسنات
اسلامک ریسرچ سنٹر۔ حیدرآباد دکن۔
سود حرام قطعی ہے‘سود کو قرآن کریم نے اتناسنگین گناہ قراردیا ہے کہ کسی
اور گناہ کو اتنا سنگین گناہ قرار نہیں دیا، شراب نوشی، خنزیر کھانا،
زناکاری، بدکاری وغیرہ کے لیے قرآن کریم میں ایسی سخت وعید نہیں آئی جو سود
کے لیے آئی ہے چنانچہ فرمایا کہ: یَا اَیُّہَا الَّذِی ±نَ آمَنُوا
اتَّقُوا اللّٰہَ وَذَرُو ±ا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا Êِن ± کُن ±تُم ± مُ
¶ ±مِنِی ±نَ فَ Êِن ± لَم ± تَف ±عَلُو ±ا فَا ±ذَنُو ±ا بِحَر ±بٍ مِنَ
اللّٰہِ وَرَسُولِہِ- ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سود کا جو حصہ
بھی رہ گیا ہو اس کو چھوڑ دو، اگر تمہارے اندر ایمان ہے۔اگر تم سود کو نہیں
چھوڑو گے، تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ سن لو یعنی ان کے
لیے اللہ کی طرف سے لڑائی کا اعلان ہے- (سورة البقرة،278/279) ونیز ارشاد
باری تعالی ہے: وَا?َحَلَّ اللَّہُ ال ±بَی ±عَ وَحَرَّمَ الرِّبَا -ترجمہ:
اللہ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام کیا ہے۔(سورة البقرة،275) دوسر ے مقام
پر ارشاد ہے: الَّذِی ±نَ یَا? ±کُلُو ±نَ الرِّبَا لَا یَقُومُو ±نَ
Êِلَّا کَمَا یَقُو ±مُ الَّذِی ± یَتَخَبَّطُہُ الشَّی ±طَانُ مِنَ ال
±مَسِّ- ترجمہ: جو لوگ سود کھاتے ہیں، وہ قیامت کے روز اُس شخص کی طرح کھڑے
ہوں گے جس کو شیطان نے چھوکرمجنون بنا دیا ہو۔ سور? آل عمران میں ارشاد ہے:
یَا ا?َیُّہَا الَّذِی ±نَ آمَنُو ±ا لَا تَا? ±کُلُوا الرِّبَا ا?َض
±عَافًا مُضَاعَفَةً وَاتَّقُوا اللَّہَ لَعَلَّکُم ± تُف ±لِحُو ±نَ- اے
ایمان والو!سود در سود کرکے نہ کھا ¶ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو تاکہ تم فلاح
پا ¶۔ (سوررة اٰل عمران130) کئی ایک احادیث شریفہ میں سود کی حرمت پر سخت
وعیدیں آئی ہیں بطور نمونہ چند احادیث شریفہ ذکر کی جارہی ہیں؛ صحیح مسلم
شریف اور سنن ابن ماجہ شریف میں حدیث مبارک ہے: عَن ± جَابِرٍ قَالَ لَعَنَ
رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَی ±ہِ وَسَلَّمَ آکِلَ الرِّبَا وَمُ ¶
±کِلَہُ وَکَاتِبَہُ وَشَاہِدَی ±ہِ وَقَالَ ہُم ± سَوَاء µ- ترجمہ:حضرت
جابررضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم نے سود کھانے والے، سود دینے والے، سودی دستاویز لکھنے والے اور
سود کی گواہی دینے والوں پر لعنت فرمائی ہے، اور ارشاد فرمایا کہ یہ سب لوگ
گناہ میں برابر ہیں۔(صحیح مسلم شریف، کتاب المساقاة، باب لعن آکل الربا وم
¶کلہ، حدیث نمبر:2955،سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر2268) مسند امام احمد بن
حنبل،سنن دارقطنی،مشکوة المصابیح اور زجاجة المصابیح میں حدیث پاک ہے: عَن
± عَب ±دِ اللَّہِ ب ±نِ حَن ±ظَلَةَ غَسِیلِ ال ±مَلَائِکَةِ قَالَ قَالَ
رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَی ±ہِ وَسَلَّمَ دِر ±ہَم µ رِبًا
یَا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔- ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن حنظلہ رضی اللہ عنھما (جن کے
والدحضرت حنظلہ غسیل ملائکہ ہیں) سے روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جانتے بوجھتے سود کا ایک درہم
کھانا چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ سخت ہے۔(مسند امام احمد، مسند الانصار
رضی اللہ عنہم، حدیث نمبر20951) اور امام بیہقی کی شعب الایمان میں ان
الفاظ کا اضافہ ہے: من نبت لحمہ من السحت فالنار ا?ولی بہ- ترجمہ: جس کا
گوشت حرام غذا سے پرورش پایا ہو وہ جہنم ہی کے زیادہ لائق ہے۔(شعب الایمان
للبیہقی حدیث نمبر5277) ونیز مشکوة المصابیح میں حدیث شریف ہے:قال رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: الربا سبعون ۔۔۔۔۔۔۔۔ ترجمہ:حضرت رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سود کے ستر درجے ہیں، اور ان میں سب سے
ہلکا درجہ اپنی ماں کے ساتھ بدکاری کرنے کے برابر ہے۔ (مشکوة المصابیح، باب
الربو، ص246) ہر شخص کو چاہئے کہ مذکورہ بالا آیات قرآنیہ اور احادیث
مبارکہ کو پیش نظر رکھے، سود کی لعنت سے محفوظ رہے اور اس سنگین جرم میں
کسی اعتبار سے ہرگز شریک ومددگار نہ بنے۔ واللہ اعلم بالصواب سیدضیائالدین
عفی عنہ، شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ، بانی وصدر ابو الحسنات اسلامک ریسرچ
سنٹر۔ حیدرآباد دکن
|