وہ دن بدن ذہنی تناؤ کا شکار ہوتی جا رہی تھی
اپنے لئے کوئی سوال کرتی تو جواب ملتا کہ لڑکیاں ایسے نہیں سوچتیں
کبھی اونچا ہنس لیتی تو ڈانٹ پٹتی کہ آہستہ ہنسو آواز باہر نہ جائے
پڑھنے کا سوچتی تو وہی فرسودہ نظریہ کہ بیٹا تمہاری شادی کرنی ہےپڑھ کر کیا
کروگی؟
سہیلیوں کےساتھ عرصہ بعد گیٹ ٹوگیدر کا دل کرتا تو سننے کو ملتا کہ یہ
کونسا نیا فیشن ہے؟
ہانڈی روٹی صحیح نہ بنتی تو ماں کہتی اگلے گھر جا کر جوتیاں کھائے گی
گھر کی صفائی صحیح سے نہ ہوتو طعنہ ملتا کہ سلیقہ تو چھو کے نہیں گزرا
پابندیوں کا گٹھا دیکھ کر اسے گھبراہٹ ہونے لگی
”اسلام“کے نام پر بنائے گئے مرد وعورت کے ناجائز تضاد سے وہ چڑتی تھی نہ
جانے کون کون سے
نئے قوانین اسے جاننے کو ملتے تھے کہ عورت یہاں نہیں جا سکتی
یہ نہیں کر سکتی
وہ نہیں کر سکتی
اسطرح نہیں رہ سکتی ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جب بھی کوئی رشتہ دیکھنے آتا تو اسے اسطرح پیش کردیا جاتا جیسے پلیٹ میں
پڑی کوئی میٹھائی ہے لڑکے والے پسند کر جائیں تو سو بسم اللہ ورنہ
ناپسندیدگی کا اظہار سر آنکھوں پر ۔
اسکے رنگ پر تنقید، نین نقش پر تنقید، اسکے جسم پر تنقید اوراب تو اسکی بڑی
عمر پر بھی تنقیدوتفتیش ، کہ ابھی تک رشتہ کیوں نہیں ہوا؟
اسے ایسا لگنے لگا وہ ایک”قیدی“ ہے جسے بلا وجہ پنجرے میں بند رکھا ہو ۔
ایک ”مصیبت“ ہے جسے شادی کے بعد کسی کےگلے میں پھندے کی طرح لٹکانا ہے اور
پھرمڑکر اسکا پتہ نہیں لینا ۔
وہ رات کی تاریکی میں اپنے رب سے دل کی باتیں کرتی کہتی کہ اے میرے
پروردگار!
میں تیری بنائی تجھ سے راضی ہوں لیکن شائد یہ معاشرہ اور میرے اپنے مجھ سے
راضی نہیں ۔
وہ رب سے شکائت کرتی کہ تمہاری بنائی دنیا میں وہ حقوق جسکی میں حقدار ہوں
وہی میری جھولی سے غائب ہیں
وہ کہتی کہ ۔۔۔
ناجانے کیوں لوگ مجھے عجیب نگاہ سے دیکھتے ہیں ؟
وہ رب سے پوچھتی کہ کیا شادی کی تاخیر میں انسان کا کاعمل دخل ہے ؟
اور اگر شادی نہ ہوتو کیا لڑکی کو اپنے لئے کچھ بھی کرنے کا حق نہیں؟
کیا عورت اپنا مستقبل خود نہیں بنا سکتی ؟
”علم“ تو مرد عورت دونوں پر فرض ہے پھر میرے اپنے کس دین کے پیروکار ہیں؟
کیا عورت اپنے حق کے لئے بھی آواز نہیں اٹھا سکتی؟
وہ آنکھوں میں آنسو لئے اپنا سر گٹنوں کے بیچ دبوچ لیتی، روتی اور لوگوں کے
تمام گلے شکوے اپنے رحمان سے کرتی، کہتی کہ ۔۔۔۔۔۔
سب کو تم نے بنایا ہے اسلام تو ”مساوات“سکھاتا ہے کالے گورے کا فرق ختم
کرتا ہے پھر لوگ کیوں مجھے احساسِ کمتری کا شکار کر جاتے ہیں ؟
میرا رشتہ دیکھنے کے لئے کم اور کیڑے نکالنے زیادہ آتے ہیں
کیوں وہ رشتے جنہیں تم نے عزت و احترام کے قابل بنایا طعنے دیتے ہیں ؟ ۔
وہ کہتی کہ اے میرے رب!
دین میں تو ”جبر“ نامی کوئی شے نہیں پھر کس چیز پر لوگ تہمتیں ، الزامات
لگاتے ہیں جو جیسا رہنا چاہتا اسے رہنے کیوں نہیں دیتے؟
نہایت غم بھرے لہجے میں وہ اپنے رب سے کہتی کہ
مجھے اس دنیا میں گٹھن ہونے لگی ہے ایسا لگتا ہے مجھے جینے کا حق نہیں جیسے
میں کوئی جانور ہوں ،
ایک لمحہ کو وہ اپنی گہری نگاہ زمین کی اوڑھ گاڑتی اور آنسو بھری آنکھیں
لئے تنظیہ ہنستی اور کہتی، حالانکہ اسلام تو عورتوں کے حقوق سے بھرا پڑا ہے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کبھی کبھی وہ رب سے موت کا سوال کرتی پھر توبہ کرتی کہ اسکی خواہش کرنا بھی
گناہ ہے
وہ سوچتی کہ معاشرہ اور اسکے گھر والے غلط ہیں جو لڑکوں کو اتنی آذادی
دیتےہیں جبکہ بہت سے احکامات مردو عورت دونوں کے لئے ہیں اور ایسی آزادی جو
بچپن سے ہی اسکی سوچ میں بٹھا ئے کہ وہ ایک ”مرد“ہے اور پھر آگے چل کر
مستقبل میں وہ اپنی مردانگی اپنی بیوی کو تھپڑ مار کر نکالے ۔
وہ اس بات سے شدید اختلاف رکھتی تھی کہ اسکے بھائی کے لئے گھر میں کوئی طور
طریقہ کیوں نہیں ؟
اسکو کیوں نہیں اگلے گھر کے آداب سکھائے جاتے جیسے لڑکیوں کو سکھائے جاتے
ہیں ؟
اس نے بھی کسی کا شوہر اور باپ بننا ہے اور ایک گھر چلانا ہے۔
اس نے اپنے خاندان میں یہی دیکھا تھا کہ بچپن سے ہی لڑکوں کو مرد مرد کہہ
کر کچھ بھی کرنے والا بنا دیا جاتا تھا حالانکہ دین ایسا نہیں کہتا۔
اپنے گھر میں موجود مردوں کی ناجائز آزادی دیکھ کر وہ اپنے پروردگار
سےخواہش ظاہر کرتی کہ کاش میں بھی ایک لڑکا ہوتی پھر جہاں مرضی آتی جاتی نہ
کوئی پوچھنے والا ہوتا نہ وہ بتانے والی اور میں خود جیسا مرضی ہوتا لیکن
لڑکی پتلی نازک گوری چٹی لیتا
اور آزاد پنچھی کیطرح کبھی کسی گلی میں عورتیں تاڑتا کبھی کہیں اونچی آواز
میں قہقے مارتاکوئی مجھےکچھ نہ کہتا کیونکہ میں ایک ”لڑکا“ ہوتا۔
وہ رب سے کہتی کہ اگر وہ ایک لڑکا ہوتی توکوئی طور طریقہ اسکے لئے نہ ہوتا
نہ گھر کی صفائی اس کے ذمہ ہوتی نہ ہانڈی روٹی جیسے لڑکیوں کو اگلے گھر
جانے کے طور طریقے سکھائے جاتے کم از کم میرے ساتھ ویسا نہ ہوتا نہ ہی
لڑکیوں کی طرح بار بار میں رشتے کے نام پر دوسرے کے سامنے پیش ہوتا اور نہ
ہی لوگ میری ذات میں کیڑے نکالتے ۔
میری پیدائش پر میٹھا ئیاں بانٹی جاتیں منتیں مانگی جاتیں
بڑا ہو کر میں کچھ نہ بھی کرتا پھر بھی ماں باپ کا پیارا ہی کہلاتا ۔
وہ رب سے کہتی کہ اگر میں لڑکا ہوتی تو میرے لئے کوئی ضابطہ ، قانون اور
ذمہ داری نہ ہوتی جسے اس معاشرے کے مردوں نے خود اپنے لئے تجویز کر رکھا ہے
یہ اس معاشرے کا قانون ہے کہ مرد کے لئے کوئی ”قانون“ نہیں ۔
وہ کہتی کہ میں ایسے گھومتی جیسا میرا بھائی گھومتا ہے جیسے باقی مرد
گھومتے ہیں خود تو جو مرضی کر لیں غیرت والے ہیں اور عورت کر لے تو غیرت کے
نام پر ہی قتل ـــــــــــــــــــــــ
اپنی سوچ کے پہلو میں اکثر لیٹ کر وہ کھلی آنکھوں سے خواب سجاتی رہتی جس سے
صرف اسکا رب ہی واقف ہوتا
اتنی بڑی دنیا میں اپنے گھر کے تنہا کمرے میں لیٹی اپنی ذات سے بڑے بڑے عہد
لیتی۔
وہ اپنے آپکو مستقبل میں مضبوط دیکھنا چاہتی تھی نہ جانے اسے مستقبل میں کس
چیز کا خوف کھائے جا رہا تھا شائد وہ اپنی بہن سے اسکے شوہر کا برا رویہ
اور اپنے باپ سے دوسری شادی کے بعد کی دوری اور نظر اندازی اور ماں کا
بڑھاپا جو شوہر کے ہوتے ہوئے بھی محرومیوں میں گزررہا تھا اس کے دماغ پر
اپنے گہرے اثرات چھوڑ چکا تھا
جب اپنے آپکو وہ انکی جگہ رکھتی تو سوچتی کہ کیا وہ یہ سب برداشت کرے گی؟
کیا وہ برداشت کرےگی کہ اسکا شوہر اسے جھوٹ کی بنیاد پر دھوکہ دے کر شادی
کرے اور پھر پتہ نہ لے؟
یا پھر چھوٹی چھوٹی بات پر شوہر سے طلاق کی دھمکی سن کر اسکی ہر ناجائز بات
مانتی رہے؟
مار کھاتی رہے دھکے کھاتی رہے؟
جب وہ یہ سب سوچتی پھر وہ اپنے آپ سے عہد کرتی کہ وہ اپنی ماں ، بہن اور
باقی عورتوں کی طرح خاموشی کی چادر اوڑھے چپ نہیں سادھے گی
وہ اپنے لئے کچھ کرے گی تاکہ آنے والا وقت اسکےساتھ ہو
وہ سوچتی کہ اسلام تو برائی کے خلاف آواز اٹھا نے کو کہتا ہے
ظلم کے خلاف بولنے کو کہتا ہے لیکن میرا گھر میرا معاشرہ کہتا ہے جب تک
زندہ ہو ظلم برداشت کرتے رہو ۔۔۔۔
وہ سوچتی کہ ہماری ذات تو رب کی امانت ہے ہم تو خود اسے کچھ نہیں کر سکتے
پھر جب غیر اسپر ظلم کرے گا وہ کیسے برداشت کرےگی؟
ایک گہری سانس لےکر وہ اپنی ہی ذات میں مزید پر عزم ہوجاتی
اپنے آپ کو تھپکتی اور کہتی کہ تم کوئی انقلاب لاؤ گی ایسا انقلاب جسے دنیا
تو نہیں لیکن کم از کم تمہارے اپنے تو دیکھیں گے ۔۔۔۔۔
اپنے آپکو مضبوط کرتے اسکا دن اور رات گزر جاتی
کوئی ہمت کوئی طاقت اسے ہر پل بلاتی تھی جس سے وہ انجان تھی لیکن وہ انہیں
پانا چاہتی تھی
وہ تیراکی کے علم سے ناواقف تھی لیکن پھر بھی ایک ایسے گہرے سمندر میں
کودنا چاہتی تھی جسکی وسعت اسکی مشکلات کا حل لئے بیٹھی تھی ۔
جو اسے جینا سیکھاتی ۔
اب اسے کسی کی پرواہ نہ تھی
نہ وہ معاشرہ سمجھتی
نا اپنے!
وہ اس بات کے خلاف تھی کہ ”لوگ کیا کہیں گے“
اس لئے وہ بد لحاظ ہوتی گئی
اس نے سن رکھا تھا کہ بچے بڑوں سے اثر لیتے ہیں شائد اسی لئےنفرتوں کا
انبار اپنی ذات میں سموئے نہ جانے دن رات کون سی آگ میں جلتی رہتی
لیکن وہ بھی کیاکرتی جس معاشرے میں آئی جس گھر میں پیدا ہوئی اس نے وہاں سے
یہی کچھ سیکھا
اس میں اسکا کیا قصور تھا ؟
دن بدن اسکی ذات میں تبدیلی عروج پر تھی اور اب وہ نڈر ہو چکی تھی
بلکل بے خوف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب وہ آئینہ بھی دیکھتی تو اسے اپنے اندر ایک انجان سا شخص نظر آتا اسے
اپنی ذات میں تبدیلی لگتی
اسے لگتا جیسے وہ ضد کے دلدل میں دھنستی جا رہی ہے
جیسے اسکا مقابلہ کسی سے چل رہا ہو اور اسے ہر حال میں جیتنا ہو
وہ جب بھی آئینہ دیکھتی اسے اپنے اندر بھڑکتی ہوئی آگ معلوم ہوتی
اسے لگتا کہ ایک دن وہ آگ اسے جلا دے گی مگر وہ بھی اس آگ میں کودنے کو
تیار تھی کیونکہ اب وہ ”باغی“ ہو چکی تھی ۔ |