پیام عید

عید الضحی کے موقع پر لکھی گئی ایک تحریر

بہت ہی عمدہ لباس زیب تن کیے بچے کچے پکے راستوں کے کنارے کھیل رہے تھے ۔ ہر بچہ خوشی سے چہچا رہا تھا جیسے کوئی بلبل پھولوں بھرے باغ میں ڈالی ڈالی بیٹھ کر چہچا رہا ہو سب خوش گپوں میں لگے تھے کوئی اپنے دیدہ زیب لباس کی قیمت بتا رہا تھا تو کوئی اپنی پسند پر داد لے رہا تھا کسی کا لباس اس مہارت سے سلائی کیا گیا تھا کہ دوسرے بار بار اس کے لباس کو دیکھ رہے تھے لیکن وہ اس بچے سے بےخبر تھے جو رستے کے اس کنارے بیٹھا اشکوں سے منہ دھو رہا تھا ۔ وہ اپنے بغیر بٹن کے گریبان کو ایک ہاتھ سے اس انداز سے پکڑے ہوئے تھا کہ جیسے کوئی جھاڑے کے دنوں میں اپنے گریبان کو پکڑے ہوئے ہو۔ قمیض کی استینیں جانے کب سے بٹنوں سے ناآشنا تھیں ۔ کف ہر طرح کی قید سے آزاد تھے اور یوں میلے کچیلے تھے کہ جب وہ آنسوؤں صاف کرنے کے لیے ہاتھ آنکھوں پر مارتا تو اسے خود ہی گن محسوس ہوتی شاید اسی لیے وہ دوسرے لڑکوں سے دور ہو کر بیٹھا تھا اپنے پھٹے پرانے کپڑوں کو دیکھ دیکھ کر روتا کبھی آسمان کی طرف دیکھتا تو کبھی حسرت بھری نگاہوں سے خوش لباس بچوں کو دیکھتا ابھی کچھ سوچ کر اس نے گھٹنوں پر ناک رگڑ کر صاف کی اور پر اسی جگہ ٹھوڑی رکھ کر اپنے پاوں کو دیکھنے لگا جو پتہ نہیں کب سے جوتوں کی رفاقت سے محروم تھے پاس پڑے ایک تنکے کو اٹھا کر پاوں کی خشک جھلی پر نقش نگاری کرنے لگا ۔ نہ جانے کیا سوجی کہ پھر بلک بلک کر رونے لگا اب بجائے آگے پیچھے دیکھ کر رونے کے صرف گھٹنوں پر ہی ماتھے ٹکائے روئے جا رہا تھا۔ دفعتا" ایک دست شفقت سر پر ٹکا جس کے ٹکتے ہی محسوس ہوا کہ کائنات کی تمام شفقت ہی سر پر آ گئی ہو سکون وہ میسر ہوا کہ اشکوں کا طلاطم رک گیا ۔ اتنی دیر میں کانوں میں بہت ہی نرم، دل کو چھو لینے والی آواز سنائی دی " بیٹا تم کیوں رو رہے ہو " ۔ اس مشفق آواز کا سننا ہی تھا کہ بچہ اور بلک بلک کر رونے لگ گیا ۔کائنات کی مشفق ہستی پاس بیٹھ کر بچے کو رحمت بھرے دست مبارک سے دلاسے دیتے ہوئے ڈھارس بندھانے لگی ۔ اور ساتھ ساتھ پوچھا جا رہا تھا کہ کیوں رو رہے ہو مجھے بتاو ۔ بچے نے ماں باپ سے بڑھ کر پیار دینے والی ہستی کو پرنم آنکھوں سے دیکھا اور روندی ہوئی آواز میں کہا آج عید کا دن ہے میری ماں نہیں جو مجھے نہلاتی میرے بال سنوارتی اور نہ ہی میرا باپ ہے جو مجھے ایسے موقع پر اچھے کپڑے لا دیتا جو میں پہنتا اور بچوں کے ساتھ کھیل سکتا ۔۔“بچے کی بات سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ شاید مجسم رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنا زمانہ یتمی یاد آ گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کے گرد اور دھول سے اٹے ہوئے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے اٹھایا اس کا ہاتھ پکڑآ اور اپنے گھر لے آئے۔ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ”اس بچے کو نہلا دو۔“ جب تک اسے نہلایا جاتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادرِ مبارک کے دو ٹکڑے کر کے ایک ٹکڑا اسے تہبند کی طرح باندھ دِیا اور دوسرا اس کے بدن پر لپیٹ دِیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھوں سے اس کے سر پر تیل لگا کر کنگھی کی۔ حتیٰ کہ جب وہ بچہ تیار ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمین پر پاوں کے بل بیٹھ گئے اور اس بچے سے فرمایا:” آج تو چل کر مسجد کی طرف نہیں جائے گا بلکہ میرے کندھوں پر سوار ہوکر جائے گا۔“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس یتیم بچے کو اپنے کندھوں پر سوار کرلیا اور اس گلی میں تشریف لے گئے جس میں بچے کھیل رہے تھے۔ اب وہ بچے اس بچے کو حسرت سے دیکھ رہے تھے جو شانہ نبوت پر سواری کر رہا تھا ۔

عید اپنے ساتھ لفظ قربانی لیے آ رہی ہے اور یہ قربانی ان پر واجب ہے جو اس کی استعداد رکھتے ہیں لیکن شفقت محبت ہر کسی پر واجب ہے صرف لفظوں کی قربانی کرتے ہوئے دو میٹھے بول بول کر انسانیت کی معراج کو پہنچ سکتے ہیں ۔ آس پاس بے شمار ایسے بچے ہیں جو اس حسرت سے آپ کو دیکھ رہے ہوں گے کے شاید آپ بھی نبی مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شفقت والی سنت پر اتریں گے ۔ قربانی کے گوشت کو فریج میں رکھ لینے سے بہتر ہے آپ ان کو بھی دیں جو اس دن کا شدت سے انتظار کر رہے تھے کہ عید قربان آئے گی تو ہم بھی گوشت کھائیں گے ۔ایسے لوگوں کا خاص خیال رکھو ۔ عید گاہ جاتے ہوئے رستے میں بہت سے اچھے اور نارمل لباس میں بچے ملیں گے آپ ان کو پہلے سلام کر کے اور عید مبارک کہہ کر اپنے بڑے ہونے کا عملی نمونہ پیش کریں ان سے مصافحہ کریں اور ان کی تعریف میں چند الفاظ مسکراتے ہوئے کہیں۔ آڑوس پڑوس اور رشتہ داروں میں بچوں کو عیدی دینے کا رواج عام کریں جو رشتہ دار یا پڑوسی کسی وجہ سے ناراض ہیں ان کو منانے میں پہل کر کے اپنی انا کی قربانی دیں ۔ کس کو معلوم کہ یہ دن پھر کون دیکھے گا آج جس طرح ہم دوسرے یتامی کو دیکھ رہے ہیں کیا پتہ آنے والے سال ہمارے بچے اس فہرست میں شامل ہوں ۔ ۔۔۔ اس عید کے مہفوم کو سمجھ کر منائیں ۔ اور اپنے ہر عمل سے سنت پر اتریں۔ محبتیں بانٹیں اپنے عمل سے ثابت کریں کہ واقع عید قربان کے پیام پر عمل پیرا ہو کر عید منا رہے ہیں ۔

Gulzaib Anjum
About the Author: Gulzaib Anjum Read More Articles by Gulzaib Anjum: 61 Articles with 56001 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.