احساس کا جذبہ

 تحریر ۔۔۔شیخ توصیف حسین
آپ یقین کریں یا نہ کریں لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اگر انسان روزہ رکھتا ہے حج ادا کرتا ہے یا پھر نماز پڑھتا ہے تو صرف اور صرف اپنی بقا کیلئے جبکہ خداوندکریم کی خوشنودگی کی خا طر انسانیت کے جذبے سے سرشار ہو نا از حد ضروری ہے جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ خداوندکریم نے قرآن پاک میں واضح ارشاد فرمایا ہے کہ میں نے تمام عبادات سے افضل عبادت حقوق العباد کو قرار دیا ہے یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا ہوا یوں کہ میں گزشتہ روز کچھ سامان کی خریداری کیلئے پہنچا تو وہاں پر چند ایک تبلیغی بھائی وہاں پر تبلیغ کرتے ہوئے وہاں پر موجود افراد سے مخا طب ہو کر کہہ رہے تھے کہ موت برحق ہے بالآ خر ایک دن آپ نے بھی موت کی آ غوش میں جا نا ہے اس لیے تمھیں چاہیے کہ نماز کو قائم کرو یہاں آپ کے قریب ہماری مسجد ہے اُس میں آ کر نماز پڑھو اس سے تمھاری آ خرت سنور جائے گی اسی میں تمھاری بھلائی ہے اُن تبلیغی بھائیوں کی ان باتوں کو سننے کے بعد میں نے اُن سے مخا طب ہو کر کہا کہ مجھے چند ایک سوالوں کے جواب چاہیے کہ آپ ابھی فر ما رہے تھے کہ نماز قائم کرو اور ہماری مسجد میں آ کر نماز پڑھو تمھاری آ خرت سنور جائے گی تو سب سے پہلے میرا آپ سے ایک سوال ہے کہ آپ کی مسجد اور خداوندکریم کی مسجد میں کیا فرق ہے آپ یہ جو تفریق پیدا کر رہے ہو یہ خداوندکریم کی حکم عدولی ہے اور خداوندکریم کی حکم عدولی کر نے والا مسلمان نہیں ہو سکتا خواہ وہ کتنا ہی نمازی کیوں نہ ہو اور شاید آپ کو یہ بھی معلوم نہیں کہ نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کو باغی قرار دینے والے نمازی اور حافظ قرآن تھے افسوس صد افسوس کہ آپ جیسے مفاد پرستوں کی وجہ سے مذہب اسلام کئی حصوں میں تقسیم ہو کر رہ گیا ہے کاش تم جیسے لوگ انسانیت بھائی چارے پیارو محبت کادرس دیتے تو آج یوں مذہب اسلام زمانے بھر میں رسوا نہ ہوتا خداوندکریم کو نہ تو تمھاری نماز روزے اور حج کی ضرورت ہے اُس کی عبادت کیلئے تو فرشتے ہی کافی ہیں میرے تبلیغی بھائیوں دوسرا سوال میرا آپ سے یہ ہے کہ آپ مجھے یہ بتائے کہ اپنے آپ کو فرشتوں کا استاد کہنے والا ابلیس کیا شراب پیتا تھا زنا کرتا تھا غاصب تھا قومی لٹیرا تھا سود خور تھا ظالم و جا بر تھا مفاد پرست سیاست دان تھا ڈاکٹر تھا جو ڈریکولا کا روپ دھار کر غریب اور بے بس مریضوں کا خون چوسنے میں مصروف عمل ہیں پولیس آ فیسر تھا جو آئے روز مظلوم افراد کو عدل و انصاف سے محروم جبکہ بااثر ظالم و جابر افراد کی پو جا کر نے میں مصروف عمل ہے نہیں نہیں وہ ایسا نہیں تھا ہر گز ہر گز نہیں تھا بس اُس نے ایک بار تکبر میں آ کر حکم خداوندی کو ٹھکراتے ہوئے انسانیت کی تذلیل کی تھی جس کے نتیجہ میں خداوندکریم نے اُسے شیطان کا لقب دیکر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے لعنت بھیج دی جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ آج بھی جتنے مسلمان حج ادا کرنے کیلئے جاتے ہیں شیطان پر لعنت بھیجنے کے ساتھ ساتھ کنکریاں نہ مارے اُن کی حج نہیں ہوتی لہذا ہم جو آئے روز تفرقہ بازی کے سلسلے کو فروغ دے رہے ہیں کیا یہ جائز ہے کیا یہ خداوندکریم کی حکم عدولی نہیں اور کیا خداوندکریم کی حکم عدولی کرنے والا مسلمان ہو سکتا ہے اور اگر نہیں ہو سکتا تو پھر یہ تفرقہ بازی کیوں میرے بھائیوں اسلام تو ایک سیدھا سادہ مذہب ہے جس کی ایک چھوٹی سی مثال آپ کی نظر کر رہا ہوں ایک دفعہ خداوندکریم کے پیارے محبوب حضور پاک جن کے متعلق خداوندکریم نے ارشاد فرمایا ہے کہ اے نبی اگر تمھیں پیدا نہ کرتا تو کائنات میں کوئی چیز پیدا نہ ہوتی جن کے ماننے والوں کا یہ عالم ہے کہ جب تک حضرت بلال نے اذان نہیں دی سحر نہ ہوئی آپ نماز پڑھنے کیلئے مسجد کی جانب جا رہے تھے کہ راستے میں ایک شخص اپنا مکان تعمیر کروا رہا تھا آپ نے اُس شخص سے پوچھا کہ آپ نے اپنے کمرے میں روشن دان کیوں رکھا ہے جس پر اُس شخص نے آپ کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ تازہ ہوا کیلئے جس پر آپ نے اُس شخص سے کہا کہ کاش آپ یہ کہہ دیتے کہ یہ روشن دان اذان سننے کیلئے رکھا گیا ہے تو اس کا ثواب ہمیشہ آپ کو ملتا رہتا بالکل اسی طرح پرانے وقتوں میں ایک طوائف اپنے گناہوں سے توبہ تائب ہو کر حج کی ادائیگی کیلئے ایک قافلے کے ساتھ روانہ ہوئی قافلہ کئی دنوں کی مسافت کے بعد ایک جگہ ٹھہر گیا کہ اسی دوران اُس طوائف نے ایک کتے کو دیکھا جو پیاس کی وجہ سے تڑپ رہا تھا جس کو اس حالت میں دیکھ کر طوائف پانی کی تلاش میں دوڑ پڑی کافی سفر کرنے کے بعد اسے ایک کنواں نظر آیا جو بہت گہرا تھا جبکہ طوائف کے پاس پانی نکالنے کیلئے کوئی سامان نہیں تھا جس پر طوائف نے اپنے جسم کے سارے کپڑے پھاڑ کر ایک لمبی رسی بنائی اور اُس رسی کے ذریعے کنواں سے تھوڑا تھوڑا پانی نکال کر ایک جگہ جمع کرنے کے بعد اُسے پیاسے کتے کو پلا دیا جس کے پیتے ہی پیاسا کتا جو زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھا ایک جانب بھاگ نکلا جبکہ اسی دوران اُس طوائف کا ساتھی قافلہ اُسے اکیلا چھوڑ کر اپنی منزل کی جانب روانہ ہو گیا جس کے نتیجہ میں طوائف اکیلی اپنے گھر واپس آگئی حج کی ادائیگی کے بعد جب مذکورہ قافلہ واپس آیا تو سب قافلے کے شرکا نے طوائف کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ خداوندکریم نے آپ کی حج قبول کر لی ہے چونکہ ہم نے از خود اپنی آ نکھوں سے تمھیں حج کی ادائیگی کے دوران پہلی صف میں کھڑے ہوئے دیکھا ہے یہ ہے مذہب اسلام انسان تو دور کی بات کتے کی جان بچانے کا یہ صلہ ملتا ہے بڑی معذرت کے ساتھ کہ جو رقوم ہم بار بار حج کی ادائیگی پر خرچ کرتے ہیں اگر وہی رقوم ہم غریب بے بس مریضوں یتیموں بیواؤں کے علاوہ لاوارث بزرگوں پر خرچ کر دیں تو یقینا ہمیں حج اکبر کا ثواب ملے گا لیکن افسوس صد افسوس کہ ہم ایسا کرنے میں قاصر ہیں ہم قربانی پر جو کروڑوں اربوں روپے خرچ کرتے ہیں وہ بھی صرف ایک دکھاوا ہے حالانکہ عیدالضحی کے دوران ہمارے عزیز و اقارب جو غریب ہیں کے معصوم بچے کپڑوں اور جوتیوں کیلئے رو رہے ہوتے ہیں جبکہ ہم قیمتی سے قیمتی جانور خرید کر اُن کی نمائش گلیوں اور بازاروں میں بڑی شان و بے نیازی سے کرتے ہیں اور یہی حالت ہمارے ملک جو اسلام کا قلعہ تصور کیا جا تا ہے کے مفاد پرست سیاست دانوں سول سوسائٹی اور بالخصوص تمام مکاتب و فکر سے تعلق رکھنے والے علمائے دین کی ہے جو مذہب اسلام اور انسانیت کے علمبردار تو بنتے ہیں لیکن بر ما میں ہو نے والے بے گناہ مسلمانوں جن میں معصوم بچے اور خواتین سر فہرست ہیں کے قتل عام پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنے میں مصروف عمل ہیں جو کہ ایک انتہائی افسوس ناک پہلو ہے اگر ہمارے حاکمین سعودی عرب کے مخالفین کے خلاف کھڑے ہو سکتے ہیں تو پھر برما میں مسلمان قوم کی نسل کشی کرنے والے بدوہشتوں کے خلاف جہاد کرنے میں تاحال قاصر آ خر کیوں ہیں یا پھر ہم یہ سمجھ لیں کہ ہمارے حاکمین میں انسانیت اور احساس کا جذبہ ختم ہو گیا ہے آ خر میں بس یہی کہوں گا
کہ آج تم غرور کر رہے ہو اپنے وقت پر
ممکن ہے کہ کل یہی وقت تم کو رُلا دے

Dr B.A Khurram
About the Author: Dr B.A Khurram Read More Articles by Dr B.A Khurram: 606 Articles with 468698 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.