اﷲ تعالیٰ نے واقعہ کربلا کو ہمیشہ کے لئے زندہ و جاویدہ
بنا دیا تاکہ انسان اور خصوصا ایمان والے اس سے سبق حاصل کرتے رہیں۔ حضرت
امام حسین رضی اﷲ عنہ کی ولادت مبارکہ 5 شعبان 04 ھ کو مدینہ طیبہ میں
ہوئی۔ نبی پاک ﷺنے آپ کے کان میں آذان دی ، منھ میں لعابِ دہن ڈالا اور آپ
کے لئے دعا فرمائی پھر ساتویں دن آپ کا نام حسین رکھا اور عقیقہ کیا۔ حضرت
امام حسین رضی اﷲ عنہ کی کنیت ابو عبد اﷲ اور لقب سبط رسول وریحانۂ رسول
ہے۔
حدیث شریف میں ہے۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ حضرت ہارون علیہ السلام نے اپنے
بیٹوں کا نام شبیر و شبر رکھا اور میں نے اپنے بیٹوں کا انہیں کے نام پر
حسن اور حسین رکھا۔ (صواعق محرقہ، صفحہ 118) اس لئے حسنین کریمین کو شبیر
اور شبر کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ سریانی زبان میں شبیر و شبر اور
عربی زبان میں حسن و حسین دونوں کے معنی ایک ہی ہیں۔
ایک حدیث پاک میں ہے کہ حسن اور حسین جنتی ناموں میں سے دو نام ہیں۔(صواعق
محرقہ، صفحہ 1186)
ابن الا عرابی حضرت مفضل سے روایت کرتے ہیں کہ اﷲ تعالی نے یہ نام مخفی
(پوشیدہ)رکھے یہاں تک کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنے نواسوں کا نام حسن اور حسین
رکھا۔ (اشرف المؤید، صفحہ 70)
حسین مجھ سے ہے
حضرت یعلی بن مرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:حسین
مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں(ترمذی شریف)
یعنی حسین رضی اﷲ عنہ کو حضور ﷺ سے اور حضور اکرم ﷺ کو حسین رضی اﷲ عنہ سے
انتہائی قرب ہے۔ گویا کہ دونوں ایک ہیں۔ حسین رضی اﷲ عنہ کا ذکر حضور ﷺ کا
ذکر ہے ۔ حسین رضی اﷲ عنہ سے دوستی حضور سے دوستی ہے۔ حسین رضی اﷲ عنہ سے
دشمنی حضور ﷺ سے دشمنی ہے اور حسین رضی اﷲ عنہ سے لڑائی کرنا حضور ﷺ سے
لڑائی کرنا ہے۔
اﷲ ورسول اور حسین ؓسے محبت
حضوراکرم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں :جس نے حسین سے محبت کی اس نے اﷲ تعالی سے
محبت کی (مشکوۃ شریف صفحہ 571)
حضرت حسین رضی اﷲ عنہ سے محبت کرنا حضور ﷺ سے محبت کرنا ہے اور حضور ﷺ سے
محبت کرنا اﷲ تعالی سے محبت کرنا ہے۔(مرقا ۃشرح مشکوۃ صفحہ 605)
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ مسجد میں تشریف لائے اور
فرمایا چھوٹا بچہ کہاں ہے ؟ حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ دوڑے ہوئے آئے اور
حضور ﷺ کی گود میں بیٹھ گئے اوراپنی انگلیاں داڑھی مبارک میں داخل کر دیں۔
حضور ﷺ نے ان کا منہ کھول کر بوسہ لیا اور فرمایا۔
اے اﷲ!میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما اور اس سے بھی فرما
جو اس سے محبت کرے(نور الابصار صفحہ 114)
اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ حضور آقائے دو عالم ﷺ نے صرف دنیا والوں ہی سے
نہیں چاہا کہ وہ حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ سے محبت کریں بلکہ خدائے تعالی
سے بھی عرض کیا کہ تو بھی اس سے محبت فرما ۔ اور بلکہ یہ بھی عرض کیا کہ
حسین رضی اﷲ عنہ سے محبت کرنے والوں سے بھی محبت فرما۔
جنتی جوانوں کے سردار میرے نبی کے نواسے
حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا جسے پسند
ہو کہ کسی جنتی جوانوں کے سردار کو دیکھے تو وہ حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کو
دیکھے۔ (نور الابصار صفحہ 114)
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ کو دیکھا کہ وہ
حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ کے لعابِ دہن کو اس طرح چوستے ہیں جیسے کہ آدمی
کھجور چوستا ہے۔(نور الابصار صفحہ 114)
حضرت عبد اﷲ بن عمررضی اﷲ عنہما کعبہ شریف کے سایہ میں تشریف فرما تھے
انہوں نے حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ کو تشریف لاتے ہوئے دیکھا تو فرمایا ۔
آج یہ آسمان والوں کے نزدیک تمام زمین والوں سے زیادہ محبوب ہیں
حضرت ابو سعیدخدری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا۔حسن و
حسین رضی اﷲ عنہما جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں۔ (مشکو ۃشریف صفحہ 570)
حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:حسن اور
حسین دنیا کے میرے دو پھول ہیں (مشکوۃ شریف صفحہ 570)
پیارے نبی کے پیارے نواسے کندھوں پر
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ اس حال میں باہر تشریف
لائے کہ آپ کے ایک کندھے پر حضرت حسن کو اور دوسرے کندھے پر حضرت حسین کو
اٹھائے ہوئے تھے یہاں تک کہ ہمارے قریب تشریف لے آئے اور فرمایا: یہ دونوں
میرے بیٹے اور میرے نواسے ہیں۔ اور پھر فرمایا
اے اﷲ !میں ان دونوں کو محبوب رکھتا ہوں تو بھی ان کو محبوب رکھ اور جو ان
سے محبت کرتا ہے ان کو بھی محبوب رکھ۔ (مشکو ۃشریف صفحہ 570)
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے دو عالم ﷺ اس حال میں باہر
تشریف لائے کہ آپ ایک کندھے پر حضرت حسن کو اور دوسرے کندھے پر حضرت حسین
کو اٹھائے ہوئے تھے یہان تک کہ ہمارے قریب تشریف لے آئے اور فرمایا : جس نے
ان دونوں سے محبت کی تو اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے دشمنی
کی اس نے مجھ سے دشمنی کی (اشرف المؤیہ صفحہ 71)
نواسوں کے محافظ فرشتے
ایک دن نبی کریم ﷺ اپنی بیٹی حضرت خاتون جنت رضی اﷲ تعالی عنہا کے گھر
تشریف لائے تو سیدہ کونین نے عرض کی ابا جان آج صبح سے میرے دونوں شہزادے
حسن و حسین گم ہیں اور مجھے کچھ پتہ نہیں کہ وہ کہاں ہیں۔ ابھی حضور ﷺ نے
کوئی جواب نہیں دیا تھا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام فوراً حاضر خدمت ہوئے
اور عرض کی یا رسو ل اﷲ (ﷺ)! دونوں شہزادے فلاں مقام پر لٹیے ہوئے ہیں اور
خدا تعالی نے ان کی حفاظت کے لئے ایک فرشتہ مقرر کر دیا ۔حضرت زہرا ؓ سے
فرما دو کہ وہ پریشان نہ ہووے۔(نزہۃالمجالس جلد 2صفحہ 233)
پس حضور علیہ السلام اس مقام پر گئے تو دونوں شہزادے آرام کر رہے تھے اور
فرشتے نے ایک پر نیچے اور دوسرا اوپر رکھا ہوا تھا۔(مشکو ۃشریف صفحہ570 ۔
ترمذی شریف جلد 2 صفحہ 228)
یتیموں اور مسکینوں سے آپ کا حسن سلوک
حضرت حسنین کریمین رضی اﷲ عنہما ایک موقع سے بیمار پڑگئے تو حضرت علی رضی
اﷲ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا اور ان کی کنیزفضہ نے ان کی صحت کے لئے
تین روزوں کی منت مانی۔
جب اﷲ تعالیٰ نے انہیں صحت دی اور نذر (منت)کی وفا کا وقت آیا تو سب نے
روزے رکھے۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ ایک یہودی سے تین صاع جو لائے۔ حضرت خاتونِ
جنت نے ایک ایک صاع تینوں دن پکایا لیکن جب افطار کا وقت آیا اور روٹیاں
سامنے رکھی گئیں تو پہلے روز مسکین دوسرے روز یتیم اورتیسرے روز قیدی نے
آکر سوال کر دیا تو تینوں روز ساری روٹیاں ان لوگوں کو دے دی گئیں تو پہلے
روز صرف پانی سے افطار کر کے اگلا روزہ رکھ لیا گیا تو ان کا یہ عمل ربِ
کائنات کی بارگاہ مقبول ہوا۔
شہادت کی شہرت اورجائے شہادت کی مٹی
سید الشہدا حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ کی پیدائش کے ساتھ ہی آپ کی شہادت
بھی شہرتِ عام ہو گئی۔ حضرت علی ، حضرت فاطمہ زہرا اور دیگر صحابہ ِ کبار و
اہلِ بیت کے جان نثار رضی اﷲ عنہما سبھی لوگ آپ کے زما نہ شیر خوارگی ہی
میں جان گئے کہ یہ فرزند ارجمند ظلم و ستم کے ہاتھوں شہید کیا جائے گا اور
ان کا خون نہایت بے دردی کے ساتھ زمین کربلا میں بہایا جائے گا۔ جیسا کہ ان
احادیث کریمہ سے ثابت ہے جو آپ کی شہادت کے بارے میں وارد ہیں۔حضرت ام
الفضل بنت حارث رضی اﷲ عنہا یعنی حضرت عباس رضی اﷲ عنہ کی زوجہ فرماتی ہیں
کہ میں نے ایک روز حضورﷺ کی خدمت مبارکہ میں حاضر ہو کر حضرت امام حسین رضی
اﷲ عنہ کو آپ ﷺ کی گود میں دیا پھر میں کیا دیکھتی ہوں کہ حضور ﷺ کی مبارک
آنکھوں سے لگاتار آنسو بہہ رہے ہیں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ !میرے ماں
باپ آپ پر قربان ہوں یہ کیا حال ہے ؟ فرمایا میرے پاس حضرت جبرائیل علیہ
السلام آئے اور انہوں نے یہ خبر پہنچائی کہ میری امت میرے اس فرزند کو شہید
کرے گی حضرت ام الفضلؓ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲﷺ !کیا اس
فرزند کو شہید کرے گی؟حضور ﷺ نے فرمایا ہاں ۔پھر حضرت جبرئیل میرے پاس اس
کی شہادت گاہ کی سرخ مٹی بھی لائے (مشکو ۃ شریف صفحہ 572)
ابن سعد اور طبرانی حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا
آپ ﷺ نے فرمایا : میرا بیٹا میرے بعد ارضِ طِف میں قتل کیا جائے گا۔ اور
جبرائیل میرے پاس وہاں کی مٹی بھی لائے اور مجھ سے کہا کہ یہ حسین کی
خوابگاہ (متقل)کی مٹی ہے (صواعق محرقہ، صفحہ 118)طف قریب کوفہ اس مقام کا
نام ہے جس کو کربلا کہتے ہیں
حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ بارش کے فرشتے نے رسول اﷲ ﷺ کی خدمت
میں حاضری دینے کے لئے اﷲ سے اجازت طلب کی جب وہ فرشتہ اجازت ملنے پر
بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوا تو اس وقت حضرت حسین رضی اﷲ عنہ آئے اور حضور ﷺ
کی گود میں بیٹھ گئے تو آپ ان کو چومنے اور پیار کرنے لگے۔ فرشتے نے عرض
کیا یا رسول اﷲ ﷺ !کیا آپ حسین سے پیار کرتے ہیں ؟
حضور ﷺ نے فرمایا ہاں۔ اس نے کہا آپ کی امت حسین کو قتل کر دے گی۔ اگر آپ
چاہیں تو میں ان کی قتل گاہ کی (مٹی)آپ کو دکھا دوں۔ پھر وہ فرشتہ سرخ مٹی
لایا جسے ام المومنین ام سلمہ رضی اﷲ عنہا نے اپنے کپڑے میں لے لیا۔
ایک روایت میں ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا اے ام سلمہ !جب یہ مٹی خون بن جائے
تو سمجھ لینا کہ میرا بیٹا حسین شہید کر دیا گیا۔حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا
فرماتی ہیں کہ میں نے اس مٹی کو ایک شیشی میں بند کر لیا جو حضرت حسین رضی
اﷲ عنہ کی شہادت کے دن خون ہو جائے گی۔ (صواعق محرقہ، صفحہ 118)
ابن سعدحضرت شعبی سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ جنگ صفین کے
موقع پر کربلا سے گذر رہے تھے کہ ٹھہر گئے اور اس زمین کا نام پوچھا لوگوں
نے کہا اس زمین کا نام کربلا ہے کربلا کا نام سنتے ہی آپ اس قدر روئے کہ
زمین آنسوؤں سے تر ہو گئی۔ پھر فرمایا کہ میں حضور ﷺ کی خدمت میں ایک روز
حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ ﷺ رو رہے ہیں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ !آپ
کیوں رو رہے ہیں؟ فرمایا ابھی میرے پاس جبرائیل آئے تھے ا نہوں نے مجھے خبر
دی ہے کہ میرا بیٹا حسین دریائے فرات کے کنارے اس جگہ شہید کیا جائے گا جس
کو کربلا کہتے ہیں۔
ابونعیم اصبغ بن نباتہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ ہم حضرت علی
رضی اﷲ عنہ کے ساتھ حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کی قبر گاہ سے گذرے تو آپ نے
فرمایا یہ شہیدوں کے اونٹ بٹھانے کی جگہ ہے اور اس مقام پر کجاوے رکھے
جائیں گے اور یہاں ان کے خون بہائے جائیں گے۔ آلِ محمد ﷺ کے بہت سے جوان
اسی میدان میں شہید کئے جائیں گے اور زمین و آسمان ان پر روئیں گے۔ (مشکوۃ
شریف صفحہ 572 ۔خصائص کبری جلد 2 صفحہ 126)آپ کی فضیلت کے لئے یہ ہی کافی
ہے کہ امام الانبیا حضور ﷺ نے انہیں اسی دنیا میں نہ صرف جنتی ہونے کی
بشارت دی بلکہ نوجوان جنتیوں کا سردار قرار دیا۔ اور ان کی محبت کو ایمان
کا حصہ بتاتے ہوئے یہ فرمایا کہ اے خدا! میں حسین سے محبت رکھتا ہوں تو بھی
ان سے محبت فرما اور جو کوئی حسن و حسین سے محبت رکھے ان سے تو بھی محبت
فرما بے شک ہر مسلمان ان سے محبت رکھتا ہے اور محبت کی سب سے بڑی علامت
(نشانی)یہی ہے کہ ہر نماز میں درود شریف میں نبی رحمت ﷺ کے ساتھ ان کے آل و
اولاد پر بھی درود بھیجتا ہے۔
یہ چند مناقب نواسہ رسول ﷺ حضرت امام حسین ؓ کے اپنی نجات کے لیے قلم بند
کیے ہیں اﷲ پاک ان کی برکت سے راقم و قارئین کی مغفرت فرمائے اور ہمیں صبرِ
حسینی وجذبہ حسینی سے سرشار فرمائے (آمین یارب العالمین بحرمۃ سیدالانبیاء
والمرسلین) |