اے کاش!یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوجائے

اسلامی سال کا آخری سو رج ڈھل چکا ہے اورالوداع کہتے ہوئے سال بھر کی یادوں کو لیے رخصت ہوا چاہتا ہے۔نیا اسلامی سال اپنے نئے جذبات اور ولولوں کے ساتھ افق سے سر اٹھا رہا ہے ۔اسلامی سال’’ محرم الحرام‘‘ سے شروع ہو کر’’ ذوالحجہ‘‘ کے اواخر میں اختتام پذیر ہو جا تا ہے ۔اسلامی و قمری سن، نظامِ ِ تاریخ میں اپنا ایک مقام و مرتبہ رکھتاہے ۔

تاریخی نظام، ماضی کے واقعات کو محفوظ رکھنے ،مستقبل میں معاملات ،معاہدات اور سماجی و مذہبی ،غمی و خوشی کی تقریبات کو متعین کر نے کے لیے واضع کیا گیا ہے ۔اسی کے ساتھ ساتھ بہت سے دینی و مذہبی احکامات پر عمل کر نے کے لیے انسان کو تاریخی نظام کی اشد ضرورت پڑتی ہے ۔مطلب یہ کہ معاملہ دنیا کا ہو یا دین کا ہر دو صورت میں تاریخ کا وجود ناگزیر ہے۔اس کے سوا چارہ کار نہیں ہے۔یہ ایک جزو ِ زندگی بن چکا ہے۔

سالوں کے دنوں ،ہفتوں ، مہینوں کوصحیح انداز سے تقسیم کر نے کو اردو میں:’’نظام الاوقات‘‘،عربی میں: ’’تقویم‘‘ ،انگریزی میں:’’کیلنڈر‘‘، سنسکرت میں: ’’پترا ‘‘اور ہندی میں:’’جنتری‘‘کہتے ہیں۔تقویم کے ذریعے دن اور وقت معلوم کر نے کو تاریخ کہتے ہیں ۔

تاریخی نظام کی ضرورت کے پیشِ نظر دنیا میں ’’تین‘‘ قسم کے نظام چلتے ہیں: ۱) شمسی، ۲) نجومی اور۳)قمری ۔پھرشمسی نظام کی تین قسمیں ہیں:۱) عیسوی، ۲) بکرمی اور۳) فصلی۔

پہلاعیسوی ہے۔اس کو ’’میلادی‘‘ بھی کہتے ہیں۔ اس کی ابتداء ’’جنوری‘‘ سے ا ور انتہا ء’’ د سمبر‘‘ میں ہوتی ہے۔عیسوی سن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت یا نصاریٰ کے باطل گمان کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے صلیب دئیے جانے سے شروع ہوتی ہے۔موجودہ سنِ عیسوی درا صل ’’رومی سنہ‘‘ ہے ۔اس کے اکثر مہینوں کے نام ’’رومی دیویوں‘‘ کے نا موں سے لیے گئے ہیں ۔(تفصیل کے لیے دیکھیے :تفسیر الجواہر للطنطاوی:۵؍۱۱اور انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا ،مادہ’’month of the year ‘‘)

دوسرا بکرمی ہے ۔اس کو اکثر ’’ہندو‘‘ استعمال کر تے ہیں۔اس کا شروع ’’چیت‘‘ اور ختم’’ بھاگن ‘‘پر ہو تا ہے ۔بکرمی مہینے بالترتیب یہ ہیں:۱)چیت ،۲)بیساکھ ،۳)جیٹھ ،۴) اساڑھ،۵) ساون،۶)بھارون ، ۷)کنوار،۸) کاتک ،۹)آگھن ،۱۰)پوس ،۱۱)ماگھ اور۱۲)پھاگن ۔

تیسرا فصلی ہے ۔فصلوں کے سلسلے میں بعض جگہ عام طور پر اسی کو استعمال کیا جا تا ہے ۔فصلوں کے مہینے بالترتیب یہ ہیں:۱)بیساکھ ،۲) جیٹھ ، ۳)اساڑھ ،۴)ساون ،۵) بھارون،۶)سوگ،۷)کاتک ،۸)مگھر،۹)پوس ،۱۰) ماگھ ،۱۱)پھاگن اور ۱۲) چیت ۔

دوسرا تاریخی نظام نجومی ہے ،اس کو جنتری شاکھ کہتے ہیں ۔اس کے بالترتیب نام یہ ہیں :۱)حمل ،۲)ثور ،۳)جوزا،۴)سرطان ،۵) اسد ،۶) سنبلہ ،۷)میزان ، ۸)عقرب ، ۹)قوس ،۱۰)جزی ، ۱۱)دلوی اور ۱۲)حوت ۔

تیسرا قمری نظام ہے۔اسی کو ہجری سن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔اس کی ابتدا’’ محرم الحرام‘‘ سے اور اختتام’’ ذو الحجہ‘‘ پر ہو تا ہے ۔اس کے بالترتیب نام یہ ہیں:۱)محرم الحرام، ۲)صفر المظفر، ۳)ربیع الاول، ۴)ربیع الثانی،۵)جمادی الاول، ۶)جمادی الثانی، ۷)رجب المرجب، ۸)شعبان المعظم، ۹)رمضان المبارک، ۱۰)شوال المکرم، ۱۱)ذی القعدہ، اور ۱۲)ذی الحجہ۔

یاد رہے کہ قمری نظام کا موجد اسلام نہیں ہے، بل کہ اس سے پہلے بھی اس کا رائج عام تھا۔یہی وجہ کہ ہم بآسانی کہہ دیتے ہیں کہ ا ٓقائے دو جہاں صلی اﷲ علیہ وسلم کی ولادت ِ مبارکہ ۹ یا۱۲ ربیع الاول کو ہوئی۔ البتہ اس کے مہینوں کی یہ ترتیب برقرار نہیں رکھی جاتی تھی،کفار اور مشرکین اپنی مرضی سے اس میں رد و بدل کرتے رہتے تھے۔اسلام نے اس کو اپنی اصل ترتیب پر لایا اور اسے رائج کیا۔

اب سوال اٹھتا ہے کہ اس کا نام تو ’’قمری سن‘‘ تھا،اب اس کو ’’ہجری سن‘‘ کا نام کیوں دیا جاتاہے؟اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے دور خلافت میں اسلامی خلافت کا دائرہ کافی وسیع ہوچکا تھا۔لین دین کے معاملات بھی زیادہ ہوتے تھے۔ان معاملات کی رسیدوں پر مہینہ اور تاریخ تو لکھی جاتی تھی، مگر سن نہیں لکھا ہوتا تھا۔کچھ سال گزرے تواس چیز کی ضرورت محسوس ہوئی کہ سال کا بھی علم ہونا چاہیے کہ یہ رسید ایک سال پہلے کی ہے یا دو تین سال پہلے کی۔اس ضرورت کے پیش نظر مشاورت ہوئی۔مختلف آراء سامنے آئیں۔کسی نے ’’آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیدائش‘‘ کے واقعہ سے ابتدا کرنے کی رائے دی، تو کسی نے ’’وفات ‘‘سے۔ایک رائے یہ بھی سامنے آئی کہ’’ ہجرت‘‘ کے واقعہ سے ’’قمری سن‘‘ کی ابتدا ہونی چاہیے، کیوں کہ یہ واقعہ یاد گار بنانے کے زیادہ قابل ہے؛ چناں چہ سب کا اسی پر اتفاق ہوگیا۔باقی جتنے بھی ’’تاریخی نظام‘‘ ہیں ان کی ابتدا یا تو کسی کی پیدائش سے ہوتی ہے یا کسی کی وفات سے۔یہ صرف ہجری سن کی خصوصیت ہے کہ اس کی ابتدا ہجرت کے واقعہ سے ہوتی ہے۔

ہجرت کے واقعہ سے’’ ہجری سن‘‘ کی ابتدا کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جب بھی ہجری سن ذکر ہوتو ہمارے ذہنوں میں مشرکین ِ مکہ کے وہ مظالم مستحضر ہو جائیں، جو اسلام لانے بنیاد پر مسلمانوں پر کیے جاتے تھے۔ اور ان ہی مظالم کی وجہ سے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو اپنے وطن ’’مکہ مکرمہ‘‘ سے ہجرت کرکے ’’مدینہ‘‘ جانا پڑا؛تاکہ ان واقعات کو یاد کرکے ہمارے دلوں میں دین ِاسلام کی عظمت اور شان و مرتبہ مزید راسخ ہوجائے اور یہ یاد رہے کہ جو دین آج ہمیں اتنی آسانی سے مل گیا ہے، اس کے لیے ہمارے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین نے کیا کیا تکالیف جہلیں۔اب ہمارا حق بنتا ہے کہ ہم اس کے تحفظ کے لیے تن، من ،دہن کی بھی پروا نہ کریں اوور صدق ِ دل سے اس پر عمل پیرا ہوں۔

اس قمری و ہجری نظام کو دینِ اسلام کے اندر بہت اہمیت حاصل ہے، بل کہ یہ کہنا مناسب ہے کہ اسلام کی وجہ سے اس کو بلند مرتبہ ومقام ملا ہے۔ دین ِ اسلام کے تمام احکام ِ الٰہی اس نظام کے ساتھ معلق ہیں۔حج ہو یا روزے،زکوۃ ہو یا فطرانہ غرض ہرقسم کی عبادت کی ادائیگی، قمری و ہجری سن کے مہینوں کو معلوم کیے بغیر نہیں ہوسکتی۔ افسوس یہ ہے کہ ہم نے اس کو اپنی عملی زندگی میں لانے کے بجائے اسے پسِ پشت ڈال دیا ہے ۔اپنی زندگیوں سے اس کو خیر آباد کہہ دیا ہے۔ اس کے ساتھ سوتیلی ماں والا سلوک کیا جاتا ہے ۔

ضروت اس امر کی ہے کہ ہم اسلامی ،ہجری اور قمری نظامِ تاریخ کواپنی زندگیوں میں لائیں ۔اس کے ذریعہ اپنے معاملات ومعاہدات اورسماجی و مذہبی اور غمی و خوشی کی تقریبات کا تعین کریں ۔سرکاری سطح پر اسی نظام کو رواج دیں؛ کیوں کہ ’’پاکستان ‘‘کا حصول فقط ’’اسلام‘‘ کے نام پر ہوا تھا۔اے کاش! ہمارا یہ خواب قصہ پارینہ بننے کے بجائے شرمندئے تعبیر ہوجائے ۔
 

Ahtesham Ul Hassan
About the Author: Ahtesham Ul Hassan Read More Articles by Ahtesham Ul Hassan: 2 Articles with 1231 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.