اِس آرٹیکل میں جس سپریم کورٹ کے فیصلے کی بابت تشریح و
تو ضیع کی جارہی ہے اِس میں منشیات فروشی کے جرم میں ملوث ملزم کی ضمانت کی
بابت اہم بحث کی گئی ہے اور فاضل جج صاحبان جناب جسٹس مشیئر عالم اور جناب
جسٹس دوست محمد نے تاریخی حوالوں کے ساتھ فیصلہ صادر فرمایا ہے۔ اِس کیس کے
فیصلے اور کیس کے محرکات کا جائزہ لینے کے بعد ہم منشیات کے کیس میں ٹرائل
کورٹ کی ذمہ داریوں اور مناسب وقت پر ٹرائل مکمل نہ کیے جانے اور بیمار
قیدی ملزم کی میڈیکل سہولیات کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ اور دہشت
گردی کی دفعات میں ضمانت لیے جانے کے کیس کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ سپریم
کورٹ کے اِس فیصلے میں سپریم کورٹ کے بنچ نے جو اصول اپنایا ہے جو کہ
pollock c.b 1864 2H& C431 @515 میں اپنایا گیا ہے۔ اِس میں بحث کی گئی ہے
کہ Statute کا مطلب کیاہے۔اور اِس میں اہم بات یہ ہے کہ اس کا کیا مطلب
نہیں ہے۔اگر یہ واضع ہوجائے کہ اِسکا کیا مطلب ہے اور کیا مطلب نہیں ہے تب
یہ فرض کیا جاسکتاہے کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ اِس میں یہ واضع کیا جاتا ہے کہ
اِس کا کیا مطلب ہے اور کیا مطلب نہیں ہے۔ لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بنچ کا
10-01-2017 کا آرڈر چیلنج کیا گیا ہے جس میں امتیاز احمد پٹیشنر کی درخواست
ضمانت کوخارج کیا گیا ہے۔وہ درخواست ضمانت درخواست گزار نے Statutory
Grounds پر ٹرائل میں تاخیر کی بنیاد پردائر کی تھی۔ اِس کیس کی تفصیلات
کچھ یوں ہیں ہیں کہ انسپکٹر شکیل احمد نے اے این ایف کے سٹاف کے ہمراہ
درخواست گزار امتیاز احمد اور اُس کے ساتھی عرفان علی( جو کہ اب مر چکا ہے)
کو دو شاپنگ بیگ میں ہیروئین کے ساتھ پکڑا۔ اور ملزمان کی نشاندہی پر بھی
مزید ہیروئین برآمد کی گئی۔ ٹوٹل وزن ہیروین کا 69 کلو گرام بنا جس کی ایف
آئی آر نمبر 33/2014 پولیس اسٹیشن/RD ANF آر اے بازار راولپنڈی میں درج کی
گئی۔ دونون ملزمان کا نام اِس ایف آئی آر میں بطور پارٹنر شامل تھا۔
درخواست گزار امتیاز احمد کے وکیل نے سپریم کورٹ کو دوران سماعت بتایاکہ
ملزم کو جیل میں گئے ہوئے دو سال اور دس ماہ گزر گئے ہیں۔ ابھی تک ٹرائل
مکمل نہیں ہوا۔ پراسکیوشن کے گواہان بھی نہیں آئے حتیٰ کے اُن کے ناقابل
ضمانت سمن بھی عدالت نے جاری کیے ہیں۔ اِس کیس میں جو انوسٹی گیشن افسر ہے
وہ شخص کسی اور کیس میں اشتہاری ہے۔ درخواست گزار کے وکیل نے عدالت عظمیٰ
کی توجہ اِس جانب دلوائی کہ سپیشل کورٹ کی آرڈر شیٹس کو ملاحظہ کیا جائے ۔عرفان
علی ملزم جیل میں قید تھا۔ وہ بیمار ہوا اُس کے علاج کے لیے عدالت میں بہت
دفعہ در خواستیں دیں کہ عرفان علی کا علاج اچھے سرکاری ہسپتال سے کروانے کی
اجازت دی جائے لیکن سپیشل کورٹ کے جج صاحب نے اِن درخواستوں کو نظر انداز
کردیا ۔ آخر کار جب اُسے ایمرجنسی میں ہسپتال لے جایا گیا تو وہ وفات پاگیا
۔ اِسی طرح درخواست گزار ملزم امتیاز احمد کی آنکھوں کی سرجری ہوئی ہوئی
ہے۔وہ اب کافی بیمار ہے اور اُس کی عمر بھی کافی ہے۔ لیکن ٹرائل کورٹ نے
ابھی تک ٹرائل مکمل کیے جانے کے حوالے سے کوئی قابل عمل اقدامات نہیں کیے۔
جیل میں موجود قیدی جس کا ابھی ٹرائل مکمل نہ ہوا ہو اُس کی دیکھ بھال اُس
کے صحت وغیرہ کے معاملات دیکھنا اُس جج کا فرض ہے جس کے پاس اُس کا ٹرائل
چل رہا ہو۔اِس کیس میں سپیشل جج نے اپنی جان چھڑا کر جیل انتظامیہ کے سر
ذمہ داری ڈال دی تھی۔حتیٰ کہ ہارڈینڈ کریمنل کے بارئے میں بھی یہ دیکھا
جاتا ہے کہ اگر وہ سیریس بیمار ہے اور اُ سے طبی امداد کی ضرورت ہے تو اُس
کے لیے نرم رویہ رکھا جاتا ہے ۔تاہم یہ ضروری ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ ملزم
کا جہاں علاج ہورہا ہو وہاں سیکورٹی کے انتظامات سخت کر دئیے جائیں۔اِس کیس
میں بھی ملزم کافی بیمار ہے اُس کی آنکھ کی سرجری ہوچکی ہے اور وہ تین سال
سے قید میں ہے۔سپیشل پراسیکوٹر آف اے این ایس نے عدالت کو بتایا کہ سیکشن
اکیاون آف کنٹرول آف نارکوٹکس ایکٹ انیسوس ستانوئے نے ضمانت کی بابت واضع
طور پر بتایا ہے۔اور 498,497Cr PCِٓ اِس میں نہ ہے۔ سیکشن CNSA51(1) جو ہے
وہ سیکشن 497 (1) سے borrow کیا گیا ہے۔ اِس کے مطابق ضمانت نہیں لی جاسکتی
بے شک سزا عمر قید ہو یا دس سال ہو۔اگرچہ قانون ساز اِس امر کی اہلیت رکھتے
ہیں کہ وہ مختلف قسم کے جرائم کے حوالے سے سزائیں دینے کے قوانین کو بنائیں
یہ سب کچھ وہ قانونی طور پر انتہائی اعلیٰ اخلاقی اقدار اور معقولیت کے
انداز میں کرتے ہیں۔ ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں اور کیس لائز بھی بطور
ریفرنس پیش کیے جاسکتے ہیں کہ جن میں یہ قرار دیا گیا ہے کہ سپیریر کورٹس
نے ہمیشہ حتیٰ لامقدور کوشش کی ہے کہ شہریوں کی آزادی کا ضامن بن کر حفاظت
کرئے۔اور ہمیشہ رہنمائی 497Crpc سے حاصل کی ہے کیونکہ اِس قانون کو Mother
of Provision مانا جاتا ہے۔ایس کیسز جن کا ٹرائل Specail Courts میں ہونا
ہوتا ہے اُن میں بھی ہر وقت کردار ادا کیا ہے۔آئین پاکستان کے آرٹیکل سات
اور نو مجریہ انیسو تہتر کے تحت کسی بھی شہری کی آزادی پر قدغن نہیں لگائی
جاسکتی اور نہ ہی کسی ملزم کو بغیر کسی عدالت کی اجازت حاصل کیے نظر بند
کیا جاسکتا ہے۔ قرارداد ِ مقاصد جو کہ اب آئین کے آڑٹیکل 2-A کا حصہ بن چکی
ہے جس میں یہ قرار دیا گیا ہے کہ پاکستان فلاحی ریاست ہوگی۔ اِس لیے سیکشن
اکیاون آف سی این ایس اے کے تحت جاکر دیکھنا ہوگا کہ کچھ مستثنیات ہو سکتی
ہیں۔متزکرہ بالا حوالے سے پہلا ٹسٹ کیس جو اِس عدالت کے سامنے پیش ہوا وہ
مشہور کیس الائیڈ بنک بنام خالد فاروق اور محمد اسلم بنام سرکار جس میں تین
رکنی بنچ نے مختلف view رکھا۔ بعد ازاں قابل احترام چیف جسٹس آف پاکستان نے
اِس معاملے کے حال کے لیے ایک لارجر بنچ تشکیل دیاتھا جس نے دہشت گردی کی
شقوں کے حوالے سے کیس جس میں چھبیس افراد قتل ہوئے تھے۔اس کیس کا مرکزی
ملزم قائم علی شاہ بیمار تھا تو اُس کی ضمانت کے لیے497 Crprc کی پہلی
provisio کو پریس کرتے ہوئے حالانکہ یہ بار بھی تھا کہ اُس جرم کی ضمانت نہ
لی جائے جو کہ specail T A Act1975 میں درج ہے َپانچ رُکنی بنچ نے سید قائم
علی شاہ کیس میں ضمانت لیے جانے کے اختیار کے سوال پر جو singel point of
law اُٹھایا۔وہ درج ذیل ہے کیا ایسا شخص جس کا ٹرائل ہو رہا اور اُس
کی497(1) کیgrounds کے تحت ضمانت لی جاسکتی ہے۔ اِس سپریم کورٹ کے فیصلے
میں سپریم کورٹ کے بنچ نے وہ اصول اپنایا ہے جو کہ pollock c.b 1864 2H&
C431 @515 میں اپنایا گیا ہے۔ اِس میں بحث کی گئی ہے کہ Statute کا مطلب
کیاہے۔اور اِس میں اہم بات یہ ہے کہ اس کا کیا مطلب نہیں ہے۔اگر یہ واضع
ہوجائے کہ اِسکا کیا مطلب ہے اور کیا مطلب نہیں ہے تب یہ فرض کیا جاسکتاہے
کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ اِس میں یہ واضع کیا جاتا ہے کہ اِس کا کیا مطلب ہے
اور کیا مطلب نہیں ہے۔ یوں متذکرہ بالا مقدمہ امتیاز احمد بنام سرکار میں
ضمانت لے لی گئی- |