رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ و الہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا
کہ ایک فقیہ ، ایک عالم؛ شیطان پر ایک ہزار عابدوں سے بھاری ہے۔ ایک ہزار
عابد عبادت میں لگے ہوں شیطان کو ان کی وہ ٹینشن نہیں ہوتی جو ایک عالم کی
ٹینشن ہوتی ہے۔ اس لیے وہ ایک طالبِ علم کو دین سے ہٹانے کے لیے جتنی محنت
کرتا ہے وہ ایک تہجد گزار کو تہجد سے ہٹانے کے لیے وہ محنت نہیں کرتا۔
ہمارے استاذ فرمایا کرتے تھے کہ شیطان تخت لگا کے بیٹھ گیا تو کسی نے آکے
بتایا کہ مَیں نے دو آدمیوں کے درمیان لڑائی ڈال دی ہے۔ شیطان بڑا خوش ہوا
۔ اپنے چیلوں کو تھپکی دی کہ انہوں نے بہت اچھا کیاہے۔ پھر کسی نے آکے
بتایا کہ مَیں نے چوری کی واردات کروادی ہے۔ تو اس کو بھی تھپکی دی۔ پھر
کسی نے کہا کہ مَیں نے برائی اور بدی تک لوگوں کو پہنچا دیا ہے اور لوگ
میری کوششوں سے زنا کاری میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ شیطان نے کہا واہ واہ ! تو
نے بھی بہت اچھا کام کیا۔ اسے بھی داد دی۔ تو مختلف اس کے چیلے چاٹے آکے
اپنی کارروائیاں اسے بیان کرتے رہے۔ ایک چیلا آیا اور اس نے کہا کہ ایک
طالبِ علم جا رہا تھا ، تو مَیں نے اس کو ورغلا کرکے اسے دین کی راہوں سے
دور کردیا ہے۔ وہ پڑھنے جارہا تھا لیکن اس نے اپنا رخ بدل لیا۔ یہ سن کر
شیطان اچھل پڑا۔ باقیوں نے کہا ہم نے اتنے بڑے بڑے کام کیے ہیں، یہ تو ایک
معمولی کام تھا۔ اس نے کہا تمہیں نہیں پتا یہ کتنا بڑا کام کرکے آیا ہے۔
شیطان؛ انسانوں کے روپ میں بھی ہوتاہے۔ بعض اوقات جو علم پڑھنے والے ہوتے
ہیں ان طلبا کو شیطان بھی وسوسہ اندازی کرتا ہے اور بعض لوگ بھی ۔ کہتے ہیں
کہ جی! تمہارا مستقبل کیا ہوگا؟ دینی طلبہ کے لیے بڑے مسائل ہوتے ہیں۔ لوگ
کہتے ہیں تمہارا مستقبل کیا ہوگا؟
مستقبل سمجھا کس کو ہے؟…… پینتالیس (۴۵)سال زندگی کُل ہے، جو ٹوٹل ہماری
زندگی ہے۔ Averageاوسطاً زندگی نکالیے ہماری۔ کسی کی ساٹھ سال بھی ہوجاتی
ہے۔لیکنAverage کہتے ہیں پینتالیس سال یہاں زندگی ہے۔ اس میں چوتھا یا
تیسرا حصہ ہے وہ تو سو کے گزرتا ہے۔ دن رات میں آٹھ گھنٹے بھی سوئیں آپ ؛
تو پینتالیس کی زندگی میں سے پندرہ سال نکل گئے۔ باقی تیس(۳۰)سال رہ گئے
زندگی کے۔ اس میں بھی آٹھ سال بچپن کے نکال لو۔ …… میرے ایک دوست نے بڑا
حساب لگا کے کہا کہ سولہ سال بچتے ہیں ٹوٹل۔ اگر پینتالیس سالAverage زندگی
ہے تو جو بھر پور زندگی گزرتی ہے ؛ وہ سولہ سال ہے۔ تو مَیں کہتا ہوں کہ
ایک سال یہ سیلفیوں کا بھی نکال دو۔ یہ بھی ہر آدھے گھنٹے کے بعد پانچ منٹ
سرف ہوتے ہیں۔
تو ٹوٹل زندگی پندرہ سال، سولہ سال ہے۔ اس کو مستقبل کہا جاتا ہے۔اصل
مستقبل کون سا ہے؟ اللھم ان العیش عیش الآخرۃ۔ میرے حضور فرماتے ہیں کہ اصل
زندگی تو آخرت کی زندگی ہے۔ تو ہم اگر مستقبل اس کو قرار دیں اور یہ ساری
زندگی؛ جد و جہد کی زندگی قرار دیں اور( اِ س زندگی کو) آخرت کی کھیتی میرے
حضور نے فرمایا۔تو پھر مستقبل کا تصور ہی بدل جاتا۔
دیکھیے! ان دس پندرہ سالوں کو بیس سال لگالیں؛ ان کو اچھا گزارنے کے لیے
ایک انجینئر ہے، ایک ڈاکٹر ہے، اور مختلف علوم و فنون کا حاصل کرنے والا،
ایک بزنس مین ہے۔ کتنی محنت کرتا ہے۔ جوانی جیسی حسین لمحے؛ وہ دن رات ایک
کرکے گزار دیتا ہے۔ عزیزوں کی شادی قریب ہے۔ لیکن وہ شادی میں نہیں پہنچا؟
بس اس کا بڑا حساس معاملہ تعلیم کاہے۔ اس نے خوشیاں چھوڑدیں، عیدیں چھوڑ
دیں، گھر سے دور رہا۔ کیوں جی؟ میرا مستقبل سنور جائے۔ اپنے کیریئر کو
بنانے کے لیے اپنے کاروبار کو کھڑا کرنے کے لیے کس کس محنت کے لیے اس نے ان
سالوں کو سرف کیے۔ اور مستقبل کتنا ہے اور وہ بھی پھر آرام سے بیٹھ نہیں
جانا؛ اس محنت کے بعد اس مستقبل میں بھی محنت مسلسل باقی رہے گی۔لیکن وہ جو
زندگی ہے جو حقیقی مستقبل ہے؛ اس میں عمل نہیں ہے۔حتیٰ کے اس میں نمازیں
بھی نہیں ہیں۔ آخرت کی زندگی کے اندر ہمارے لیے نمازیں بھی نہیں ہوں گی،
روزے بھی نہیں ہوں گے۔ پھر ٹینشن فری زندگی ہے۔ وَلَکُمْ فِیْہَا مَا
تَشْتَہِی مِنْ اَنْفُسُکُمْ۔(سورۃ السجدۃ، آیت۳۱) جو دل میں آئے گا سامنے
پڑا ہوا ہوگا۔ یہاں تو حسرت میں زندگی گزر جاتی ہے نا! کہ یہ چیز مجھے مل
جائے اور ملتی بھی اس وقت ہے جب اس کی خواہش ہی ختم ہو چکی ہوتی ہے۔ لیکن
وہاں جو آرزو کریں گے ؛ ابھی آرزو خانۂ ذہن میں ہوں گی ابھی ذہن سے دل میں
اتر کر دل کو بے چین نہیں کرے گی کہ وہ خواہش پہلے پوری ہوچکی ہوگی۔
اصل زندگی تو وہ زندگی ہے۔ اس لیے شیطان یہ بہکاتا ہے کہ میاں! یہ زندگی
کیسے گزرے گی؟ بالخصوص طلبہ کو، دین سیکھنے والوں کو ۔ مَیں تو اپنے طلبہ
کو کہتا ہوں کہ میری زندگی اچھی نہیں گزر رہی؟ مَیں نے دین پڑھا ہے۔ مَیں
دین پڑھانے کے کام میں لگا ہوا ہوں۔ تو کیا میری زندگی اچھی نہیں گزر رہی؟
مَیں تو مطمئن ہوں؛ اطمنان کی زندگی گزر رہی ہے۔ تو دین پڑھو۔ دین میں خیر
ہی خیر ہے۔ دین میں بھلائی ہی بھلائی ہے۔ دین خیر کی راہوں کا سفر ہے۔
(ماخوذ از افاداتِ مصطفائی(زیرِ ترتیب))
|