’’ یہ چند غلام عکاظ کے بازار سے خرید کے لایا ہوں ۔ آپ
کو ان میں سے جو پسند ہو اپنے پاس رکھ لیں ‘‘۔ حکیم بن حزام نے اپنی پھوپھی
خدیجہ بنتِ خویلد سے کہا۔ آپ نے تمام کو غور سے دیکھا اور آخر کار ایک
پندرہ سالہ نوجوان غلام کو پسند کرکے گھر لے آئیں۔جب آپ ﷺ کا نکاح حضرت
خدیجۃ الکبریٰ ؓ سے ہوا تو آپ ﷺ کو اس نوجوان غلام کے عادات و اطوار نہایت
پسند آئے اور اسے حضرت خدیجہ ؓ سے مانگ لیا۔اس طرح یہ نوجوان غلام ایک عظیم
اور مقدس ہستی کے زیر پرستی میں آگیا۔ اور یوں خوش بخت نوجوان آپ ﷺ کی شفقت
و محبت کے زیر سایہ پروان چڑھنے لگا۔ ایک مرتبہ حج کے موسم میں آپ کے قبیلے
کے کچھ لوگ مکہ تشریف لائے۔ طواف کے دوران انہوں نے آپ کو پہچان لیا۔ جب وہ
لوگ مناسک حج ادا کرنے کے بعد واپس اپنے قبیلے بنوقضاعہ ( یمن کا ایک معزز
قبیلہ ) پہنچے تو انہوں نے ساری داستان آپ کے والدین کو سنا دی۔ بیٹے کے
ملنے کی اطلاع پاتے ہی آپ کے والد حارثہ بن شراحیل اور چچا کعب نے فوراً
فدیے کا بہت سا سامان تیار کیا اور اونٹوں پر لاد کر آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر
ہوئے اور اپنے بیٹے کی واپسی کی درخواست کی۔ ’’ کیا تم ان دونوں کو پہچانتے
ہو ؟ ‘‘۔ آپ ﷺ نے نوجوان کو بُلا کر پوچھا۔ ’’یہ میرے والد اور یہ میرے چچا
ہیں ‘‘۔ آپ نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے باری باری دونوں کی طرف اشارہ کرتے
ہو ئے جواب دیا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے دریافت کیا ۔ ’’ میں تم کو اس بات کا
اختیار دیتا ہوں کہ اگر تم چاہو تو اپنے والد اور چچا کے ساتھ چلے جاؤ، اور
اگر چاہو تو میرے پاس رہ جاؤ ‘‘۔آپ نے والد اور چچا کے ساتھ جانے کے بجائے
آپ ﷺ کی غلامی کو ترجیح دی۔ اسی وقت آپ ﷺ بیت الحرام تشریف لے گئے اور
اعلان فرمایا۔ ’’ لوگو ! گواہ رہنا آج سے یہ میرا بیٹا ہے۔ یہ میرا وارث
ہوگا اور میں اس کا وارث ہوں گا ‘‘۔ یہ منظر دیکھ کر آپ کے والد اور چچا
مطمئن ہو کر واپس اپنے قبیلے لوٹ گئے۔
آپ ﷺجب منصب نبوت پر سرفراز ہوئے تو آپ نے فوراً بغیر کسی شک کے اسلام قبول
کرلیا۔ غلاموں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے اس صحابی رسول کا نام
حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تھا۔ آپ ؓ کا تعلق یمن کے ایک معزز
اور مال دار قبیلہ بنو قضاعہ تھا۔ ایک دفعہ آپ ؓ اپنی والدہ کے ہمراہ قافلے
کے ساتھ ننھیال جارہے تھے کہ راستے میں رہزنوں نے قافلہ لوٹ لیا اور معصوم
بچے کو بھی اپنی والدہ سے چھین لیا۔ رہزن آپ ؓ کو عکاظ کے بازار میں لائے
جہاں ام المؤمنین حضرت خدیجہ ؓ کے بھتیجے حکیم بن حزام نے چار سو درہم میں
خریدا تھا۔ آپ ﷺ حضرت زید ؓ کو حقیقی بیٹے کی طرح پیار و محبت کرتے تھے اسی
لئے وہ لوگوں میں ’’حُبِّ رسول اﷲ ‘‘ کے لقب سے مشہور ہوگئے تھے۔ جہاں ایک
طرف رحمت دو عالم ؐ سے والہانہ عقیدت و محبت ، ذوق ِ عبادت اور فقر و غنا
آپ ؓ کی سیرت کے نمایاں پہلو تھے تو وہاں دوسری طرف جہاد کا جذبہ اور شوق
بھی آپ ؓ کی زندگی میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔آپ ؓ ہمہ وقت راہ حق میں
شہادت کے لئے تیار رہتے تھے۔ ہجرت کے بعد غزوہ بدر سے لے کر موتہ تک تمام
اہم غزوات میں شریک ہوئے۔ جب آپ ﷺ نے حاکم بصریٰ کو دعوت اسلام دینے کے لئے
اپنا سفیر بھیجا ، جس کو شرجیل بن عمرو غسانی نے موتہ کے مقام پر شہید کیا
تو آپ ﷺ کو اس بات کا بے حد صدمہ پہنچا اور تین ہزار مجاہدین کا لشکر حضرت
زید ؓ بن حارثہ کی قیادت میں روانہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر زید ؓ شہید
ہوجائیں تو جعفر ؓ بن ابی طالب امیر لشکر ہوں گے ، وہ بھی شہید ہو جائیں تو
عبداﷲ ؓ بن رواحہ اسلامی لشکر کی قیادت سنبھالیں گے اور اگر وہ بھی شہید
ہوجائیں تو پھر مسلمان اپنے میں سے کسی کو امیر منتخب کرلیں۔موتہ کی اس
لڑائی میں رحمت ِ عالم ﷺ کے محبوب صحابی حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ تعالیٰ
نے جام ِ شہادت نوش کیا۔ |