یہ بھی ڈاکٹر ہیں

سرکاری شعبے میں صحت کی سہولیات کی کمی پوری کرنے کے لئے پرائیویٹ سیکٹر بڑا متحرک ہے۔یہ ایک خدمت ہے اور بہت سے لوگوں نے بڑی دیانتداری سے اس سیکٹر میں اسے خدمت سمجھ کر کام بھی کیا ہے۔بہت سے خیراتی ہسپتال اور بہت سی فری ڈسپنسریاں جگہ جگہ کام کر رہی ہیں۔ان کے ڈاکٹر، ان کی انتظامیہ اور ان کا سٹاف جس محنت اور لگن سے کام کرتے ہیں یقیناً وہ جذبہ لائق تحسین ہے۔میرے گھر کے قریب ایک گاؤں میں میڈیکل کالج کے ایک پروفیسر شام کو دو گھنٹے پریکٹس کرتے اور غریبوں کا علاج مفت کرتے ہیں۔ ان کی عظمت کو میں سلام پیش کرتا ہوں۔ علاج لوگوں کی ضرورت ہے اور بیمار آدمی اس کا متلاشی۔ اس سارے ماحول میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو سرکاری ہسپتالوں سے شدید مایوس ہے اور خیراتی یا کم فیس والے ہسپتال انہیں پسند نہیں۔ وہ بہتر طبی سہولتوں کی تلاش میں ہوتے ہیں۔کاروباری لوگوں نے اس طبقے کی کمزوری کو مد نظر رکھتے ہوئے خالص کاروباری پرائیویٹ ہسپتال بنائے ہوئے ہیں۔ یہاں کا عملہ، یہاں کے ڈاکٹر اور یہاں کی انتظامیہ سب کاروباری ہیں۔ یہ بھی ٹھیک ہے جنہوں نے اس قدر سرمایہ کاری کی ہے کمانا ان کا حق ہے۔ پروفیشنل ہونا کوئی برائی نہیں۔ برائی وہاں ہے جہاں لوگ شرمناک حد تک کاروباری ہیں۔ان کا کوئی اخلاقی معیار نہیں، ان کا معیار دولت ہے اور اس کے حصول کے لئے وہ ہر گھٹیا قدم اٹھانے سے دریغ نہیں کرتے۔ایسے ہی ایک ہسپتال میں مجھے حال ہی میں ایک ذاتی تجربہ ہوا ہے۔
یہ ایک پرائیویٹ اسپتال تھا۔میرا بیٹا ایک پرائیویٹ فرم میں کام کرتا ہے اور یہ ہسپتال اس فرم کی منظور شدہ لسٹ میں شامل ہے۔اس لئے علاج کے لئے اس ہسپتال سے رجوع کرنا ہماری مجبوری تھی۔بارہ ستمبرکو دن صبح دس بجے سے میں اور میرے گھر کے سبھی لوگ آپریشن تھیٹر کے باہر کھڑے تھے۔ اور بھی بہت سی فیملیز موجود تھیں اور سب انتطار میں تھے۔ٹھیک گیارہ بجے ڈاکٹر باہر آئی اور میری پوتی کی آمد کی خوشخبری سنائی۔تھوڑی دیر بعد ہم نرسری میں بچی کو دیکھ کر واپس آنے کے بعد خوش گپیوں میں مصروف تھے کہ ایک نوجوان ڈاکٹر تشریف لائے اور پوچھا کہ نرسری میں کس کس کا بچہ ہے۔لوگوں نے اپنے اپنے بچے کے بارے بتایا۔ڈاکٹر صاحب بتانے لگے کہ میں بچوں کو چیک کر آیا ہوں سب خیریت سے ہیں۔ میں اس ہسپتال میں بچوں کا ڈاکٹر ہوں،سب لوگ میرا کارڈ لے لیں اور اگر انہیں اپنے بچے کی صحت کے بارے کوئی مشکل پیش آئے تو میں ہمہ وقت حاضر ہوں ۔ مجھ سے فون پر کسی بھی وقت رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ مجھے ہسپتال اور ڈاکٹر کا یہ انداز اچھا لگا۔ اس دور میں احساس ذمہ داری بہت بڑی بات ہے۔دو دن ہسپتال میں گزارنے کے دوران وہ ڈاکٹر صاحب روزانہ وزٹ کرتے رہے ۔دو دن بعد بہت معقول بل دینے کے بعد ہم گھر لوٹ آئے۔ دئیے گئے بل میں ان بن بلائے ڈاکٹر صاحب کی ہر وزٹ کی فیس تین ہزار روپے فی وزٹ شامل تھی۔چلیں جہاں اتنا بل دیا ہے یہ نو دس ہزار اور سہی۔

بچی پانچ دن کی بھی کہ ہم نے محسوس کیا کہ اس کے سر کے پچھلے حصے پر ایک پھنسی بن گئی ہے۔ دو دن میں یہ پھنسی بڑی ہو گئی۔ ابھی ہم کسی ڈاکٹر کے پاس جانے کا سوچ ہی رہے تھے کہ انہی ڈاکٹر صاحب کا فون آ گیا۔ انہیں صورتحال بتائی۔ انہوں نے فوراً ہسپتال پہنچنے کا کہا۔ ہم ہسپتال پہنچ گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے بچی کو دیکھا اور کہا اسے میرے ساتھ اپریشن تھیٹر لے آئیں۔ وہاں پہنچ کر ڈاکٹر صاحب نے پھنسی کو ہاتھ سے دبایا۔تھوڑی سی پیپ نکلی اسے ٹشوپیپر سے صاف کیا ،ایک مرہم لگائی اور یہ کہہ کر چلے گئے کہ کل تک صحیح نہ ہو تو بتائیں۔واپس جانے کے لئے کاؤنٹر پر آئے تو پتہ چلا کہ تین ہزار بچی کو دیکھنے کی فیس اورسات ہزار آپریشن روم کی جھلک کی فیس۔ کچھ احتجاج کے باوجود دس ہزار دے کر گھر واپس آ گئے۔
دو دن بعد ڈاکٹر کا فون آیا کہ بچی اب کیسی ہے۔ ہم نے بتایا کہ ابھی اس پھنسی میں پیپ باقی ہے۔ انہوں نے فوراً ہسپتال پہنچنے کا کہا۔میری بہو اپنی ماں کے ہمراہ بچی کو لے کر ہسپتال پہنچ گئی۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے کمرے میں بچی کو دیکھا۔نقد تین ہزار فیس وصول کی، پھر اپریشن تھیڑمیں پہلے کی طرح تھوڑی سی پیپ نکالی اور بچی کو نرسری میں داخل کرانے کا کہا۔ میری بہو بچی کو نرسری میں لے گئی۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کے بازو پر برنولہ لگائی، کچھ دوائی دی اورکہا کہ یہ پھنسی انتہائی خطرناک ہے۔ بچی کے دماغ کی ہڈی ابھی نہیں بنی اس لئے یہ پھنسی دماغ کو متاثر کر سکتی ہے۔ مجھے خود اس کی نگرانی کرنا ہو گی۔ بچی دو دن نرسری میں رہے گی اور اس کے بعد تین دن اسی ہسپتال کے کمرے میں۔یہ کہنے کے بعدانہوں نے سات ہزار اپریشن تھیٹر کے اور چار ہزار نرسری کے فوراً دینے کو کہا۔ میری بہو نے چار ہزار دے دیا اور اپریشن تھیٹر کے سات ہزار کے لئے کہا کہ ابھی گھر کے لوگ آئیں گے تو دیں گے۔پھر ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق کمرہ لیااور ہمارا نتظار کرنے لگی۔

ڈاکٹر نے اس پھنسی کے بارے جو نقشہ کھینچا ، اس نے سب گھر والوں کو پریشان کر دیا۔ سب ہسپتال پہنچ گئے۔میری بیٹی ڈاکٹر ہے اور اس کا میاں سینئر سرجن۔ دونوں یو۔کے (UK)کے ایک ہسپتال میں کام کرتے ہیں۔ ان سے رابطہ ہوا تو انہوں نے سختی سے منع کیا کہ ڈاکٹرکو بچی کو کوئی سخت قسم کی دوائی مت دینے دیں اور بہتر ہے کہ کسی دوسرے ڈاکٹر کی رائے بھی لے لیں۔ اس دوران سر کا الٹرا ساؤنڈ کرا لیں۔ دوسرے ڈاکٹر سے مشورے کے لئے پہلے ڈاکٹر کی اجازت ضروری تھی۔ ڈاکٹر صاحب پہلے راضی نہ تھے پھر کہا کہ میرے بقایاگیارہ ہزار دیں پھر بات کریں ۔ اس بات پر میرے بیٹے نے سخت ناراضی کا اظہار کیا کہ دس منٹ میں تم نے چودہ ہزار کا بل بنا دیا ہے ڈاکٹر ہا کہ ڈاکو۔ڈاکٹر کو کچھ سمجھ آ گیا،اجازت مل گئی۔ دوسرے ڈاکٹر میری بھتیجی کے بچوں کو کئی سال سے دیکھ رہے ہیں وہ منت کرکے انہیں فوراً لے آئی۔ نئے ڈاکٹر صاحب نے آتے ہی الٹرا ساؤنڈ کی بات کی،الٹرا ساؤنڈ دیکھا، بچی کو دیکھا اور کچھ قطرے پینے کو اور ایک مرہم لگانے کو بتایا اور کہا معمولی پھنسی ہے، کل تک ٹھیک ہو جائے گی۔ آپ گھر جا سکتے ہیں۔دو تین گھنٹے کمرے کو استعمال کیا تھا۔پورے دن کا بل دینے لگے تو پھراپریشن تھیٹر کے سات ہزار آڑے آنے لگے۔ ہسپتال والوں کو کہا لے لیں مگر آپ اور آپ کے ڈاکٹر کی کہانی بڑی دور تک جا ئے گی۔بل لینے والوں نے ایک دو متعلقہ لوگوں سے بات کی اور سات ہزار نہیں لیا۔اب ڈاکٹر صاحب فون کر رہے ہیں کہ اپنا چار ہزار بھی لیں مگر کیوں۔ محکمہ صحت اور PMDC والوں سے بات کروں گا۔ وہ معہ سود وصول کریں گے جو زیادہ بہتر ہے۔ایسے ڈاکٹروں کا محکمہ صحت میں رہنا ایک ناسور ہے اور ناسور کسی کے لئے بھی قابل برداشت نہیں ہوتا۔

طب عربی لفظ ہے جس کے معنی علاج کرنا یا جادو کرنا ہے ۔اس علم کا موضوع انسانی جسم ہے اور یہ لفظ انسانی جسم کو بحال یا محفوظ کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ کہتے ہیں یہ ایک الہامی علم ہے اور ربالعزت نے سب سے پہلے حضرت ادریس علیہ السلام کو دیا تھا جو اس علم کے بانی اور استاد الحکمامانے جاتے ہیں۔اسقلی بیوس ان کا ساتھی، شاگرد اور ایک الہامی طبیب تھا۔اسقلی بیوس کے معنی خشکی کو روکنے والاہے۔انسان کی موت چونکہ خشکی اور سردی کے غلبے کے سبب ہوتی ہے۔ اس لئے اسے یہ نام دیا گیا۔یونانی اسے دیوتا اور رب الشفا مانتے تھے۔ کہتے ہیں وہ قریب المرگ لوگوں کا علاج کرتا اور وہ جی اٹھتے۔ وہ مریض جن کے پھیپھڑوں یا جسم میں پانی بھر جاتا، اسقلی بیوس اسے الٹا لٹکا کر گردن کاٹتا اور پانی نکال کر اس کی گردن سی دیتا اور وہ ٹھیک ہو جاتا۔اس کے دو بیٹے بھی طبیب تھے اس نے انہیں اس علم کو اپنے خاندان تک محدود رکھنے کی نصیحت کی ۔پانچویں صدی قبل مسیح میں اس کی اولاد میں سے اسقلی بیوس ثانی نے اپنے تین شاگردوں کو طب کی تعلیم دی۔ دو اس کے اپنے بیٹے تھے اور ایک اس کا عزیز بقراط تھا۔ اس کی وفات کے بعد اس کے بیٹے بھی فوت ہو گئے تو بقراط اپنے وقت کا یکتا طبیب رہ گیا۔ اب بقراط نے اس علم کو عام کرنے کا فیصلہ کیا اور اسے باقاعدہ کتابی شکل دی۔ اس نے طب کو خاندان تک محدود نہیں رکھا بلکہ غیروں کو بھی اس کی تعلیم دی۔اس کی علمی شہرت نے پورے یونان کو مسخر کیا اور لوگ اسے دیوتا ماننے لگے۔وہ شفا خانے کا موجد ہے۔

بقراط نے طبیبوں کے لئے ایک ہدایت نامہ بھی لکھا ہے جس کا نام ’’ترتیب الطب ‘‘ ہے۔ وہ کہتا ہے،’’طب کا طالب علم شریف الخاندان ، تیز طبیعت اور نو عمر ہو۔ اس کا قدوقامت متوسط ہو۔اعضا کا باہمی تناسب رکھتا ہو۔سمجھ اعلی درجہ کی ہو۔ شیریں کلام ہو۔مشورہ کے وقت صحیح رائے دینے والا ہو۔پاک دامن اور شجاع ہو۔حریص نہ ہو۔ روپے کی دوستی سے بری ہو۔بیمار کی تکلیف میں خود کو شریک کرتا ہو۔ مریض کی سخت کلامی برداشت کر سکتا ہو۔بیمار کو دیکھنے جائے تو آرام سے اس کا حال دریافت کرتا ہو۔ کسی حال میں بھی پریشان نہ ہو۔‘‘ بقراط نے حریص شخص کو اچھا طبیب قرار نہیں دیا۔ مگر اب تو شاید حرص پرائیویٹ ہسپتالوں اور پرائیویٹ ڈاکٹروں کا اصول اولیں ہے۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 442182 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More